Wednesday, June 26, 2013

بجٹ کیسے بنانا چاہیئے

بمبئی کے ایک سٹوڈیو میں کسی فلم کے ڈانس کی شوٹنگ ہو رہی تھی۔ ڈانسر فاصلہ پر کھڑی تھی۔ ڈائریکٹر نے اپنے اسسٹنٹ سے کہا، "اسے کہو سکرٹ تھوڑی سی اونچی کرے۔" ڈانسر نے تعمیل کی لیکن ڈائریکٹر کی تسلی نہ ہوئی۔ اس نے پھر اونچی کرنے کے لیئے کہا۔ تیسری بار بھی یہی ہوا۔ جب چوتھی بار یہی ہدائت ملی تو بے باک ڈانسر نے طیش میں ْآ کر سکرٹ اوپر تک اٹھا دی۔ پھر اسسٹنٹ سے بولی، "ڈائریکٹر صاحب سے پوچھو اب کتنی نیچے کروں۔" 
اگر کل کو کوئی وزیر اعظم آیا، جس نے بجٹ کو اوپر سے نیچے کرنے کا تہیہ کر لیا، تو وہ اپنے وزیر خزانہ سے کچھ اس طرح کی گفتگو کرے گا۔
وزیر اعظم: ڈاکٹر صاحب، جس طرح میں نے ساری زندگی چادر دیکھ کر پائوں پھیلائے، میں چاہتا ہوں میری حکومت بھی اسی طرح کرے۔ یہ ہمارا پہلا بجٹ ہے۔ پچھلے حکمران عوام کو خوش کرنے کے لیئے خاہشات کو بتدریج بڑھاتے جاتے اور پھر چادر کو لمبا کرنے کی کوشش میں انھیں ہی مقروض کرتے جاتے۔ آُپ فرض کر لیں کہ اس سال جو حقیقی آمدنی ہوئی، اتنی ہی اگلے سال ہوگی۔ ہاں، وفاقی بورڈ آف ریونیو سے کہیں کہ سب استثنا ختم کرے۔ کسی نے کاروبار کرنا ہے تو اپنے پیروں پر کھڑا ہو، حکومت سے بیساکھیاں نہ مانگے۔ جن ٹیکس نہ دینے والے کی نشاندہی ہو چکی ہے ان سے وصول کرے۔
وزیر خزانہ: سر، اس طرح تو بجٹ بہت چھوٹا ہو جائے گا۔
وزیر اعظم: دیکھیں، اقتصادیات لامحدود خاہشات اور محدود وسائل میں توازن پیدا کرنے کا نام ہے۔ آُپ منصوبوں کو موجود وسائل کی حد میں رکھیں۔
وزیر خزانہ: وسائل بڑھانے کے لیئے قرضے بھی تو لیئے جا سکتے ہیں۔
وزیر اعظم: قرض ام الخبائث ہے۔ ہم کسی بینک سے قرضہ نہیں لیں گے تاکہ وہ صرف صنعت اور کاروبارکے لیئے قرضے دیں۔ اس سے نجی شعبہ پھلے پھولے گا۔
وزیر خزانہ: بیرونی قرضوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
وزیر اعظم: اگر کم سود پر قرض ملے تو لے کر زیادہ سود والے موجودہ قرضے ادا کر دیں گے۔ ورنہ معذرت کر لیں گے۔ بانڈ بھی جاری نہیں کریں گے، نہ یہاں، نہ باہر۔
وزیر خزانہ: بجٹ کا خسارہ کیسے کم ہوگا؟
وزیر اعظم: ہم صرف اس منصوبہ پر خرچ کریں گے، جس سے عوام کو زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو۔ بلند عمارتیں، لمبے پل، بڑی شاہراہیں، دریائوں پر بڑے ڈیم، وغیرہ حکومت نہیں بنائے گی۔ نجی شعبہ سے کہیں گے کہ وہ بنائے اور حکومت کا منظور کردہ کرایہ یا ٹول 20 سال تک لے کر اپنی لاگت اور منافع وصول کرے۔ اس دوران مرمت اور دیکھ بھال بھی اس کے ذمہ ہوگی۔
پی۔ آئی۔ اے۔، ریلوے، سٹیل مل، وغیرہ کے سربراہ لکھ کر دیں گے کہ وہ ایک سال میں انھیں منافع میں نہ لا سکے تو کم از کم حکومت سے مالی مدد نہیں مانگیں گے۔ دوسرے سال کے آخر تک خسارہ بالکل ختم کرنا ہوگا۔
وزیر خزانہ: نجی بجلی گھروں کو تو بہر حال واجب رقوم دینی ہوں گی۔
وزیر اعظم: واجب ادائگی کے بعد بجلی کا مسئلہ دو طریقوں سے حل کریں گے۔ بجلی کی ہر تقسیم کار کمپنی کو پبلک لمیٹڈ کمپنی بنا دیا جائے گا۔ اس کے حصہ دار وہی لوگ ہوں گے جن کے پاس بجلی کے کنیکشن ہوں گے۔ وہ عدم اعتماد کے ذریعہ کمپنی کے سربراہ کو جب چاہیں ہٹا سکیں گے۔ دوسری طرف، بجلی گھروں سے کہِیں گے کہ ہر تقسیم کار کمپنی سے براہ راست کم سے کم ریٹ پر سپلائی کا معاہدہ کریں۔ جتنی بجلی دیں گے، اتنے ہی پیسے ملیں گے۔ ہر سال ریٹ طے ہوگا۔ سستی بجلی دینے والے نئے بجلی گھروں کو ترجیح دی جائے گی۔
وزیر خزانہ: اگر ہم بجلی گھروں سے معاہدے منسوخ کریں گے تو وہ عدالتوں میں چلے جائیں گے۔
وزیر اعظم: جم جم جائیں۔ جب ہم ملکی مفاد میں کاروائی کریں گے تو عدالتیں ہماری بات مانیں گی۔ بلوچستان میں ریکوڈک کا معاہدہ بھی تو سپریم کورٹ نے نامناسب ہونے کی بنا پر منسوخ کر دیا تھا۔
وزیر خزانہ: نہائت محدود آمدنی سے بیرونی قرضے کیسے اتاریں گے؟ ہزاروں بلین ڈالر درکار ہوں گے۔
وزیر اعظم: اس کا حل بھی نکال لیں گے۔ آپ اپنے لوگوں سے کہیں کہ درامدات کا خوردبین سے جائزہ لیں۔ ایک ایک مد کو دیکھیں کہ ضروری ہے یا نہیں۔ مشینری اور خام مال تو بلاشبہ منگانے ہوں گے۔ جو اشیا ملک میں بنتی ہیں ان کی درامد کچھ عرصہ کے لیئے بند کر دیں یا ان پر بھاری کسٹم ڈیوٹی لگا دیں تاکہ درامد کم ہو جائے۔ عام استعمال اور کھانے پینے کی اشیا تو کسی صورت نہیں آنی چاہیئیں۔ ٹارگٹ یہ ہوگا کہ درامدات برامدات سے کم از کم پانچ بلین ڈآلر کم ہوں۔ اس بچت سے قرضے ادا کریں گے۔
دوسری طرف، دنیا بھر میں ہر سفارت خانہ کو حکم دیا جائے گا کہ وہ برامدات کم ازکم پانچ سو ملین ڈالر سالانہ تک بڑھائے۔ جہاں اس وقت اس سے زیادہ برامدات ہیں، وہاں ہر سال کم از کم 25 فی صد اضافہ ہو۔ اس کوشش میں سفیر سے چپڑاسی تک سب تندہی سے کام کریں۔ وزارت تجارت بھی پورا زور لگائے۔ اگر کوئی سفارت خانہ ٹارگٹ  پورا کر لیتا ہے تو عملہ کو اگلی پوسٹنگ اس کی پسند کی دی جائے گی۔ اگر نہیں کر پاتا تو سارے عملہ کو واپس بلا لیا جائے گا اور آئندہ کبھی بیرون ملک پوسٹنگ نہیں ملے گی۔ ہمارا ٹارگٹ یہ ہوگا کہ برامدات دو تین سال میں دگنی ہو جائیں۔ یوں، سارے بیرونی قرضے اتر جائیں گے اور زرمبادلہ کے ذخائر اتنے بڑھ جائیں گے کہ روپیہ مضبوط کرنسیوں میں شمار ہونے لگے گا۔
وزیر خزانہ: ترقیاتی منصوبوں کا کیا ہوگا؟
وزیر اعظم: ہم یہ سوچ بدل دیں گے کہ صوبے جیسے چاہیں مرکز سے ملنے والی رقوم خرچ کریں۔ ہم مالیاتی ایوارڈ کو تین حصوں میں تقسیم کر دیں گے۔ ایک حصہ مرکز کا، دوسرا صوبوں کا اور تیسرا مقامی حکومتوں کا ہوگا۔ کسی صوبہ کو صرف اس ترقیاتی منصوبہ کے لیئے رقم ملے گی، جس سے کم از کم تین اضلاع کو فائدہ ہو۔ انتظامی اخراجات کے لیئے کچھ نہیں ملے گا۔ وہ اپنے ٹیکسوں سے ضرورت پوری کریں یا خرچ کم کریں۔
اس وقت صوبے ضلع حکومتوں کو بہت کم رقوم دیتے ہیں، حالانکہ وہیں سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ ہم مقامی حکومتوں کے آرڈیننس 2001 کو مرکزی قانون کے طور پر نافذ کریں گے۔ الیکش کمشن سے کہیں گے کہ اس کے تحت ملک بھر میں فورا الیکشن کرا دے۔ مقامی حکومتوں سے کہا جائے گا کہ وہ اپنی ترجیحات کے مطابق منصوبے بنائیں۔ ان کی کارکردگی کے مطابق انھیں رقوم براہ راست دی جائیں گی۔
وزیر خزانہ: لیکن، سر، مقامی حکومتیں تو آئین کے تحت صوبائی حکومتوں کے ماتحت ہیں۔ اس طرح تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔
وزیر اعظم: ڈاکٹر صاحب، آئین ہمارے لیئے ہے، ہم اس کے لیئے نہیں۔ منتخب حکومتیں بھی اپنی مصلحت یا سیاسی فائدہ کے لیئے اس کی خلاف ورزی کرتی رہی ہیں۔ ہم تو عوام کے مفاد میں کریں گے۔ ہم مقامی حکومتوں کو اتنے پیسے دیں گے کہ وہ چند سالوں میں تعلیم، صحت، پانی، اور دوسرے بنیادی مسائل حل کر لیں۔ ہم بجٹ اوپر سے نیچے اور ترقی اور خوشحالی نیچے سے اوپر کی طرف لے جائیں گے۔

21 جون 2013

مردم شماری اسی سال کرانی ضروری ہے

وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں 185 ملین آبادی کا ذکر کیا۔ شعبہ مردم شماری کا اندازہ 183 ملین سے کچھ زیادہ ہے۔ میڈیہ اور سیاست میں ہو کوئی "18 کروڑ عوام" کی بات کرتا ہے۔ ہماری آبادی ہے کتنی ہے؟ کسی کو معلوم نہیں کیونکہ 15 سال سے کسی نے گنتی ہی نہیں کرائی۔
نواز شریف کو وہ پریشانی نہیں جو آصف علی زرداری کو تھی۔ اس لیئے وہ اسی سال مردم شماری کا حکم دے سکتے ہیں۔ پچھلی دفعہ بھی انھوں نے ہی 1998 میں کرائی تھی، گو اس میں سات سال کی تاخیر ہو گئی تھی۔ دو سال کی تاخیر تو اب بھی ہو چکی۔
انگریزوں کے دور میں 1881 سے ہر دہائی کے پہلے سال میں مردم شماری کرانے کا سلسلہ شروع ہوا، جیسے 1911، 1921، 1931، وغیرہ۔ آزادی کے بعد پہلی مردم شماری 1951 میں ہوئی۔ (اس کی تیاری کے دوران لطیفہ یہ ہوا کہ عملہ نے صحافیوں کو "ارباب نشاط" میں شامل کر دیا۔ اس پر بڑا واویلا ہوا اور عملہ کو تصحیح کرنا پڑی۔) یہ پہلی اور آخری مردم شماری تھی، جو ایک سیاسی حکومت نے بروقت کرائی۔ اس کے بعد سیاست کاروں نے کبھی اسے ضروری اہمیت نہ دی۔ چنانچہ فوجی حکمران ہی بروقت مردم شماری کراتے رہے۔ (صرف 1971 کی بجائے 1972 میں ہوئی کیونکہ مشرقی پاکستان کے حالات سازگار نہ تھے۔)
مردم شماری ہر قسم کی منصوبہ بندی کی بنیاد ہوتی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کتنے لوگوں نے گائوں چھوڑ کر شہر کا رخ کیا ہے، کتنے نئے مکانات درکار ہیں، پانی، بجلی، آب رسانی نکاسی آب، صفائی، وغیرہ کی کتنی ضرورت ہے، کتنے سکول اور کتنے ہسپتال چاہیئیں۔ غرض، تمام ترقیاتی کاموں کی منصوبہ بندی کے لیئے آبادی کے تازہ ترین کوائف ضروری ہوتے ہیں۔ سماجی، معاشی اور دوسرے امور پر تحقیق بھی اسی بنا پر ہو سکتی ہے۔
1991 میں مردم شماری ملتوی کر دی گئی اور پھر سات سال تک ہر حکومت ملتوی کرتی گئی۔ مسئلہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ان ارکان نے کھڑا کیا، جو دیہی علاقوں سے منتخب ہو کر آتے تھے۔ انھیں معلوم تھا کہ دیہات سے بہت سے لوگ روزگار، تعلیم، صحت اور دوسری ضرورتوں کے لیئے شہروں کو جا رہے ہیں۔ ہر مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندی ضروری ہوتی ہے۔ اس طرح دیہی آبادی کے نمائندوں کی تعداد کم ہو جائے گی۔ چنانچہ ہر حکومت ان کے دبائو میں آ کر مردم شماری ملتوی کرتی رہی۔ آخر 1998 میں حکومت نے اعلان کیا کہ نئی مردم شماری کے باوجود نئی حلقہ بندی نہیں ہوگی۔ تب کہیں کام شروع ہونے دیا گیا۔
مردم شماری تو ہو گئی لیکن تاخیر سے نقصان یہ ہوا کہ اس کا تقابل پچھلی دہائیوں سے ممکن نہ رہا کیوں کہ یہ 17 سال کے بعد ہو رہی تھی، جب کہ تقابل کے لیئے میعاد ایک سی (دس سال) ہونی چاہیئے۔
اصولی طور پر اگلی مردم شماری 2001 میں ہونی چاہیئے تھی تاکہ ہر دہائی کے پہلے سال میں کرانے کا باقاعدہ سلسلہ پھر سے شروع ہو جائے۔ لیکن صرف تین سال بعد کرانا بھی صحیح نہ ہوتا۔ اب توقع تھی کہ اگلی مردم شماری 2011 ہی میں ہوگی۔ بعد میں ہر دس سال بعد وقت پر ہوتی رہی تو تسلسل قائم ہو جائے گا۔
اچانک 2008 میں مردم شماری کا اعلان ہوا۔ متعلق ادارہ کے سربراہ نے یہ نہ دیکھا کہ صحیح وقت کیا ہے، بس یہ دیکھا کہ کئی بلین روپے کا بجٹ ہے۔ یہ رقم بعد میں آنے والے کے لیئے چھوڑنے کی بجائے خود ہی کیوں نہ خرچ کی جائے۔ تاہم کسی نہ کسی طرح التوا ہو گیا۔ یہاں تک کہ 2011 آ گیا۔
پروگرام کے مطابق مارچ میں خانہ شماری ہوئی۔ چھ ماہ بعد ستمبر کے آخر میں مردم شماری ہونی تھی۔ اچانک آصف علی زرداری کا نادر شاہی حکم آ گیا کہ مردم شماری روک دی جائے۔ اس کی بجائے ووٹر لسٹوں کی تصدیق و تصحیح کا کام پہلے کیا جائے۔ تصدیق و تصحیح تو اس سال تک ہوتی رہی لیکن مردم شماری، جو چند دنوں میں ہو جانی تھی، نہ ہو سکی۔
ہوا یہ کہ عین وقت پر کسی نے زرداری صاحب کے کان میں پھونک ماری کہ مردم شماری کے نتیجہ میں کراچی، حیدراباد، میرپور جیسے شہری علاقوں کی آبادی زیادہ نظر آئے گی۔ چنانچہ جب نئی حلقہ بندی ہوگی تو ان کی سیٹیں قومی اور صوبائی اسمبلی میں بڑھ جائیں گی۔ اس طرح پیپلز پارٹی کو نقصان ہوگا، جسے سندھ کے دیہی علاقوں سے زیادہ ووٹ ملتے ہیں۔
زرداری صاحب کی بلا جانے کہ مردم شماری کی کیا اہمیت ہے۔ انھیں تو بس اپنے سیاسی نقصان کو روکنا تھا۔ اگر یہی مسئلہ تھا تو اعلان کر دیتے کہ قانون جو چاہے کہے، نئی حلقہ بندی نہیں ہوگی۔ اس طرح مردم شماری تو بروقت ہو جاتی۔ اب بھی قانون میں ترمیم کر دینا بہتر ہوگا کہ حلقہ بندی مرکزی حکومت کی مرضی پر منحصر ہوا کرے گی، وہ جب چاہے کرائے۔ مرمدم شماری کا اس سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ اس طرح مردم شماری بروقت ہوتی رہے گی۔
التوا کے جواز میں ووٹر لسٹوں کی تصدیق و تصحیح کے ساتھ سیلاب زدگان کی بحالی کو بھی شامل کر لیا گیا، حالانکہ مردم شماری میں تو جو جہاں ہو وہیں گن لیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کا بھی ذکر کیا گیا۔ جب ایسی وجوہ الیکشن ملتوی کرنے کا سبب نہیں بنتیں تو مردم شماری کے لیئے کیوں ان کا سہارا لیا جائے؟ یہ صحیح  ہے کہ عدالت عظمی نے ووٹر لسٹیں درست کرنے کا حکم دیا تھا لیکن اس کے لیئے مارچ 2112 تک کی مہلت دی گئی تھی۔ بعد مِں اس میں اضافہ بھی ہوتا رہا کیوں کہ الیکشن بہت دور تھے۔ مردم شماری تو چند دنوں کا کام تھا۔ رہا امن، تو کب ایسا وقت آِیا کہ ملک بھر میں ہر طرف امن اور سکون تھا؟
رکاوٹ تو کسی بھی قسم کی ہو سکتی ہے۔ 1998 میں کوئٹہ میں مردم شماری کے دوران ہنگامے ہو گئے۔ پشتون کہتے تھے کہ افغان مہاجرین کو بھی شامل کیا جائے جبکہ بلوچ اس کے خلاف تھے۔ چنانچہ کوئٹہ کی آبادی صحیح طور پر شمار نہ کی گئی۔ کسی نے مشورہ دیا کہ کوئٹہ والوں کو مک مکا کر لینا چاہیئے تھا، جیسے سعودی عرب کے الملک عبد العزیز نے کیا۔
امریکیوں نے 1930 کی دہائی میں سعودی عرب کا تیل نکالنا شروع کر دیا۔ اسی دوران کسی نے سوچا کہ ملک کی آبادی معلوم کی جائے۔ مردم شماری تو کبھی نہ ہوئی تھی اور نہ کسی نے اس کی ضرورت محسوس کی۔ ایک ماہر کو بھیجا گیا کہ ملک بھر میں گھوم پھر کر آبادی کا تخمینہ لگائے۔ وہ کام شروع کرنے سے پہلے بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ بادشاہ نے اجازت بھی دی اور سار انتظام بھی کر دیا۔ ساتھ ہی ماہر کو تاکید کی واپسی پر مل کر جائے۔

امریکی ماہر کئی ماہ بعد لوٹا۔ اس نے بتایا کہ اس کے اندازہ کے مطابق آبادی چھ ملین ہے۔ آلملک عبد العزیز نے زور دے کر کہا، "نہیں، نہیں، اتنی کم نہیں ہو سکتی۔ ہماری آبادی آٹھ ملین ہے۔" ماہر رعایا میں سے تو تھا نہیں۔ ویسے بھی آداب کا زیادہ لحاظ نہ رکھتا تھا۔ وہ اپنی بات پر اڑا رہا۔ ادھر بادشاہ کی نظر میں کم آبادی ملک کی شان کے خلاف تھی۔ تاہم جب دیکھا کہ امریکی اپنی بات پر اڑا ہوا ہے تو کہا، "چلو، نہ تمھاری بات اور نہ میری۔ سات ملین پر سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔"
18 جون 2013

پرویز خٹک کیسے سبقت لے جا سکتے ہیں

تحریک انصاف کے لیئے اس کی پہلی حکومت کڑا امتحان ہے۔ اس کے سربراہ، وزیر اعلی، پرویز خٹک، کی کامیابی پر ان کی جماعت کے مستقبل کا انحصار ہوگا۔ اگر وہ اپنے ایجنڈہ میں درج ذیل نکات بھی شامل کر لیں تو ان کے لیئے دوسروں پر سبقت لے جانا آسان ہو جائے گا۔
الف) شکایات کی شنوائی نہائت آسان کر دیں۔ ہر محکمہ کے سکرٹری، ہر ادارہ کے سربراہ، صوبائی پولیس افسر (آئی۔ جی۔) اور ہر ضلع انتظامیہ کے سربراہ کو ہدائت کریں کہ اپنے اپنے دفتر میں سیل بنائیں، جو ای میل اور ویب سائیٹ سے عوام کی شکایات وصول کرے اور اسی دن متعلقہ افسر سے ای میل سے جواب طلب کرے۔ چند دن میں تسلی بخش جواب لے کر شکائت کنندہ کو بھیجا جائے۔ براہ راست سربراہ کو جواب دینے میں نچلے عملہ میں ٹال مٹول اور کاہلی نہیں ہوگی۔ ای میل اب خاصی عام ہے۔ اس کے استعمال سے کاغذ پر لکھی شکائت پر کاروائی میں تاخیریا اس کے گم ہو جانے کا امکان نہ رہے گا۔
ب) مقامی حکومتوں کا 2001 کا قانون اصل حالت میں نافذ کریں۔ بعد میں کی جانے والی ترامیم نظر انداز کر دیں کیوںکہ وہ سیاست کاروں نے اپنے فائدہ کی خآطر اور نظام کمزور کرنے کے لیئے کی تھیں۔ جب تین چار دفعہ الیکشن ہو جائیں تو پھر ظاہر ہونے والی خامیوں کو دور کرنے کے لیئے ضروری ترامیم کی جا سکتی ہیں۔
پ) مقامی حکومتوں کے قانون کے تحت ہر ضلع میں ضلع محتسب کا تقرر کریں، جو مقامی انتظامیہ کی خلاف قانون کاروائی منسوخ کر سکے۔ یوں عوام کو فوری انصاف ملے گا اور بیشتر معاملات میں عدالت سے رجوع کی ضرورت نہیں رہے گی۔
ت) نچلی سطح پر ججوں کی تعداد کئی گنا بڑھا دیں۔ سول جج و جوڈیشل مجسٹریٹ اتنے زیادہ کر دیں کہ مقدمہ کی کاروائی دنوں میں پوری ہو جایا کرے۔ جلد فیصلوں سے انصاف ملے ہوگا، جو تحریک انصاف کا بڑا مقصد ہے۔ جب تک عمارتیں نہ بنیں، خیموں میں عدالتیں لگائیں۔
ٹ) یکساں نصاب جلد از جلد نافذ کریں۔ اگر ایک سال میں ایک جماعت میں نصاب تبدیل کریں گے تو وہی غلطی ہوگی، جو صدر ضیاء الحق کے دور میں کی گئی۔ اس وقت فیصلہ ہوا کہ ذریعہ تعلیم اردو کر دیا جائے۔ ایک سال میں ایک جماعت میں تبدیلی لائی گئی۔ جب آخر تک پہنچے تو محمد خاں جونیجو وزیر اعظم بن چکے تھے۔ انھوں نے سائنس مضامین انگریزی میں پڑھانے کی اجازت دے دی۔ نجی سکولوں نے، جو انگریزی میڈیم ہی کی بدولت کمائی کرتے تھے، پیر پھیلا لیئے اور وہیں پہنچ گئے جہاں سے چلے تھے۔
یکساں نصاب کے لیئے اگلے مارچ تک تیاری کریں۔ تمام استادوں کو نئے نصاب کی کتابیں ابھی سے دے دیں۔ جہان تک ہو سکے تحصیل اور ضلع صدرمقاموں پر ان کی تربیت کا انتظام کریں۔ اگلے تعلیمی سال سے پہلی سے آٹھویں جماعت سارا نصاب بدل دیں۔ ایک سال تھوڑی سی مشکل ہوگی۔ اس کے  بعد روانی آ جائے گی۔ اس کے بعد نویں جماعت سے نصاب بدلیں اور ایک ایک سال میں 12ویں تک تبدیلی لے آئیں۔
ث) یکساں نصاب کے ساتھ ذریعہ تعلیم بھی سب کے لیئے اردو کریں ورنہ طبقاتی تقسیم برقرار رہے گی۔ نجی سکول بدستور انگریزی میں سب کچھ پڑھا کر بچوں میں احساس برتری پیدا کرتے رہیں گے۔ اس طرح طبقاتی تقسیم جاری رہے گی۔
ج) مقامی حکومتوں کے انتخابات ہوتے ہی ضلع حکومتوں سے کہیں کہ اپنی تعلیمی ضرورتیں پوری کرنے کے منصوبے بنائیں۔ جہاں ضرورت ہو نئے سکول بنائیں۔ موجودہ سکولوں میں مزید کمرے، چاردیواری، پانی، بجلی، ٹائلٹ، وغیرہ کے لیئے تخمینے تیار کریں۔ پھر صوبائی حکومت ہر ضلع کو صوبائی مالیاتی کمشن کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ رقوم دے۔ پہلے سال ہی میں تعلیم میں انقلاب نظر آ جائے گا۔
چ) صحت کا نظام درست کریں۔ ایلوپیتھ ڈاکٹر کبھی بھی مطلوبہ تعداد میں دیہات کے شفاخانوں میں کام نہیں کریں گے۔ صوبائی حکومت ان کے نخرے اٹھانے کی بجائے اپنے ہومیوپیتھ اور طبیہ کالج کھولے۔ دیہی طلبہ کو داخلہ میں ترجیح دی جائے، اعلا معیار کی تعلیم دی جائے اور ریسرچ میں دلچسپی پیدا کی جائے۔ یہاں سے سند لے کر نکلنے والے دیہات میں کام کرنے کو تیار ہوں گے۔ دوائوں کی منظوری کے لیئے تجربہ گاہیں بنائی جائیں۔ مقصد مریضوں کا علاج ہونا چاہیئے، کسی بھی طریقہ سے ہو۔
ح) پن بجلی کے منصوبوں کے لیئے نجی سرمایہ کاری کرائیں۔ صوبہ میں 40، 50 ہزار میگاواٹ پن بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ مرکزی حکومت سے پالیسی منظور کرائیں۔ اس کے بعد ملکی و غیرملکی سرمایہ کاروں کو دعوت دیں کہ وہ جہاں چاہیں چھوٹے بڑے ڈیم بنائیں اور بجلی بنا کر مقررہ ریٹ پر نیشنل گرڈ میں داخل کریں۔ شمس الملک صاحب کو اس کام کا نگران بنائیں۔ پیداوار میں اضافہ کے ساتھ ساتھ مہنگی بجلی سسٹم میں سے نکلتی جائے گی اور ملک بھر میں بجلی سستی ہوتی جائے گی۔
خ) کالاباغ ڈیم تعمیر کرائیں۔ کالاباغ سندھ دریا پر واحد جگہ ہے، جہاں پانی کی سطح زمین سے اونچی ہے۔ چنانچہ صرف یہیں سے نہریں نکال کر صوبہ میں اراضی سیراب کی جا سکتی ہے۔ پچھلی حکومتوں نے اپنے پائوں پر خود کلہاڑی مارتے ہوئے اپنے صوبہ کو پانی کا جائز حصہ بھی نہ لینے دیا، صرف اس لیئے کہ پنجاب کو بجلی کی رائلٹی نہ ملے۔
د) صوبہ کا نام تبدیل کرائیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کو 2003 میں جوش آیا کہ صوبہ کا نام "پختون خوا" رکھا جائے۔ وہ بھی اس لیئے کہ امریکیوں کا منصوبہ تھا کہ اس نام سے ہمارے اور افغانستان کے پٹھان علاقوں پر مشتمل ایک نیا ملک بنایا جائے۔
تحصیل، ضلع اور ڈویژن کا نام اس کے صدر مقام کے نام پر ہوتا ہے۔ صوبہ بھی انھی کی طرح انتظآمی یونٹ ہے۔ ہمارے کسی صوبے کے نام کی بنیاد لسانی یا نسلی نہیں۔ سندھ کا صوبہ بمبئی کو اور شمال مغربی سرحدی صوبہ پنجاب کو تقسیم کر کے بنایا گیا۔ پنجاب کا نام جغرافیائی ہے۔ بلوچستان تو 1970 تک صوبہ ہی نہ تھا۔ پھر بلوچوں کی آبادی آْدھے سے بھی کم ہے۔
ویسے بھی "خیبر پختون خوا" ابھی تک زبانوں پر نہیں چڑھ سکا۔ بہت سے لوگ صحیح طرح نہ تلفظ ادا کرتے ہیں اور نہ لکھتے ہیں۔ پھر جس طرح دو لفظوں والے ناموں میں سے پہلا ہی زیادہ بولا جاتا ہے (جیسے ٹیلی ویژن کے "ریموٹ کنٹرول" کی بجائے صرف "ریموٹ")، آخرکار نام "خیبر" رہ جائے گا۔ شمال مغربی سرحدی صوبہ بھی آخر کار صرف "سرحد"رہ گیا۔
صوبائی اسمبلی سے قرارداد منظور کرا کے مرکزی حکومت سے کہیں کہ آئین میں ترمیم کرے اور صوبہ کا نام وہی رکھا جائے، جو اس کا صدر مقام ہے۔ اس طرح تحریک انصاف صوبائِیت، لسانیت اور نسل پرستی سے بالاتر ہو کر دوسرے صوبوں کے لیئے مثال قائم کرے گی کہ وہ بھی اپنے اپنے صدر مقام کے مطابق نام رکھیں۔ صوبہ کا نام "پشاور" رکھںے سے ہزارہ صوبہ کی مانگ بھی ختم ہو جائے گی کیونکہ انھیں نئے نام والے صوبہ میں رہنے پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔
اگر پرویز خٹک پہلے 100 دنوں میں دھاک بٹھانا چاہتے ہیں تو انھیں ہر روز کئی کئی بڑے قدم اٹھانے ہوں گے۔ اسی طرح وہ لوگوں کو قائل کر سکیں گے کہ تبدیلی آ رہی ہے اور اسی طرح وہ دوسروں پر سبقت لے جا سکتے ہیں۔
11 جون 2013

"کام، کام، کام" کی بجائے ""آرام،آرام، آرام"

اسلام آباد کے بڑے افسروں کی عرصہ سے خواہش تھی کہ کام تو جیسے تیسے ہوتا ہی رہے گا، آرام کا وقت بڑھانا چاہیئے۔ وہ چاہتے تھے کہ ہفتہ میں ایک نہیں دو چھٹیاں ہوا کریں۔ اس طرح انھیں صرف پانچ دن دفتر آنا پڑے گا۔ مشکل یہ تھی کہ کوئی حکمران، سیاسی ہو یا غیرسیاسی، ان کی باتوں میں نہ آتا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ ترقی پذیر ملک میں کام کی ضرورت کہیں زیادہ ہے۔ میان نواز شریف نے تو پچھلے دور میں بطور وزیر اعظم سرکاری تعطیلات بھی کم کر دی تھیں، جن میں علامہ اقبال اور قائد اعظم کی برسیاں (21 اپریل اور 11 ستمبر) اور یوم دفاع (6 ستمبر) شامل تھے۔ دونوں عظیم رہنمائوں کے صرف یوم پیدائش کی چھٹیاں برقرار رہیں۔
تاہم افسروں نے ہمت نہیں ہاری۔ جب بجلی کا بحران بڑھا اور بچت کرنے کے لیئے بہت سی تجاویز سامنے آئیں تو ان میں ہفتہ میں ایک اور چھٹی کی تجویز شامل کر لی گئی۔ تجویز تو گرمیوں میں گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کرنے کی بھی تھی لیکن ارکان قومی اسمبلی میں اس کا فائدہ نہ آیا۔ چنانچہ انھوں نے شور مچا کر اسے رد کرا دیا۔ گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کرنے سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوتا کہ دن کا آغاز جلدی ہوتا۔ پھر دفتروں، اداروں اور کاروبار کے اوقات سارا سال وہی رہتے، جو سردیوں میں ہوتے، یعنی نو بجے سے شروع ہوتے۔ اس طرح گرمیوں میں بعض جگہوں پر وقت بدلنے اور بعض جگہ نہ بدلنے سے عام لوگوں کو پریشانی نہ ہوتی۔ بہرحال، جب تک ارکان اسمبلی زیادہ سمجھدار نہیں ہوتے، گرمیوں میں گھڑیاں آگے نہیں کی جا سکتیں۔ ہاں، کوئی حکمران خود ہی حکم دے دے تو اور بات ہے۔
یوسف رضا گیلانی کسی فیصلہ کے لیئے زیادہ سوچ بچار نہیں کرتے تھے، نہ ہی وسیع مشاورت کو ضروری سمجھتے تھے۔ انھیں پٹی پڑھائی گئی کہ مزید ایک چھٹی سے بجلی کی بچت ہوگی۔ ظاہر ہے انھیں قائل کرنے کے لیئے خاصی بچت دکھانی ضروری تھی۔ مرکزی حکومت کے دفتروں سے تو زیادہ بچت ممکن نہ تھی۔ اس لیئے کافی جواز پیدا کرنے کے لیئے ملک بھر کے سکول، کالج، بینک، سیونگ سنٹر، ڈاک خانوں کے ساتھ صوبائی حکومتوں کے دفاتر اور اداروں کو بھی ملا لیا گیا۔ پھر بھی زیادہ سے زیادہ ایک سو میگاواٹ کی بچت کا دعوی کیا جا سکا، وہ بھی مہینہ میں صرف چار دن۔ جہاں ہر روز بجلی کی کمی ہزاروں میگاواٹ تھی، وہاں اتنی کم بچت کی اہمیت نہ ہونے کے برابر تھی۔ لیکن گیلانی صاحب نے پیپلز پارٹی کی ہر ایک سے "مفاہمت" کی پالیسی کے تحت افسروں کو خوش کرنے کے لیئے ہفتہ میں ایک اور چھٹی کا اعلان کر دیا۔ صوبوں نے مزاحمت کی لیکن وہاں بھی افسروں کے بھائی بند وزراء اعلی کو ڈھب پر لے آئے۔ صرف پنجاب رہ گیا جہاں دال نہ گلی۔ یہاں بھی قسمت نے یاوری کی اور نجم سیٹھی چار دن کی حکمرانی میں افسروں کو خوش کر گئے۔ اب سارے ملک میں ہفتہ میں دو چھٹیاں ہونے لگی ہیں۔
جمعہ کی آدھی چھٹی ختم کر کے نماز کا وقفہ رکھ دیا گیا۔ لیکن ظاہر ہے نماز کے لیئے جانے والے تھوڑی دیر کے لیئے واپس نہیں آتے۔ یوں عملی طور پر آدھی چھٹی برقرار رہی۔ ساتھ دو چھٹیاں مل کر ڈھائی دن کا ویک اینڈ بن جاتا ہے۔ اتنا لمبا آرام تو شائد ہی دنیا میں کہیں ہوتا ہوگا۔
چھٹی پسند افسروں نے احساس نہیں کیا کہ بجلی کے بغیر بھی بہت سی جگہوں پر کام ہو سکتا ہے اور ہوتا رہا ہے۔ مثلا، ہزاروں سکولوں میں بجلی ہے ہی نہیں لیکن وہاں پڑھائی ہوتی ہے۔ پھر بہت سی جگہوں پر دن کی روشنی اتنی ہوتی ہے کہ بتی جلانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
ایک اور مشکل بھی ہے۔ ہمارے قانون کے مطابق ہفتہ میں 48 گھنٹے کام لیا جاتا ہے۔ جب اسے پانچ دنوں پر تقسیم کیا جائے گا تو ہر روز زیادہ دیر کام کرنا ہوگا۔ اس طرح تھکاوٹ بھی زیادہ ہوگی اور ذاتی کاموں کے لیئے وقت بھی کم ملے گا۔ (زیادہ ترقی یافتہ ملکوں میں، جہاں دو چھٹیاں ہوتی ہیں، وہاں ہفتہ میں 40 گھنٹے کام ہوتا ہے، یعنی پانچ دنوں میں آٹھ گھنٹے روزانہ۔)۔
ایک اور مشکل بھی پیدا ہو گئی۔ صدر ایوب خاں کے دور میں دفتروں میں اوقات کار کم کر دیئے گئے تاکہ ملازموں کو ذاتی کاموں اور کنبہ کے ساتھ گزارنے کے لیئے زیادہ وقت ملے۔ بہت سے چھوٹے ملازموں نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شام کو جزوقتی ملازمت اختیار کر لی۔ دو چھٹیوں کی وجہ سے روزانہ کے اوقات کار بڑھ گئے، جس سے جزوقتی کام کرنا مشکل ہو گیا۔ یوں بہت سے گھرانے، جو پہلے ہی مہنگائی سے پس رہے تھے، مزید آمدنی سے محروم ہو گئے۔
ہفتہ کی چھٹی سے جمعہ کی آدھے دن کی چھٹی بھی ساتھ مل گئی۔ اس طرح ویک اینڈ ڈھائی دن کا ہو گیا، جبکہ امیر ترین ملکوں میں بھی یہ دو دن سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اتنا زیادہ آرام تو ہمارے افسروں ہی کو دستیاب ہے۔
دو چھٹیوں سے پہلے بھی صورت حال بڑی مضحکہ خیز تھی۔ اتوار کو پوری چھٹی اور جمعہ کو آدھی ہوتی تھی۔ دونوں کے درمیان کام کا پورا دن ہوتا۔ نتیجہ یہ تھآ کہ ہم دنیا میں واحد ملک تھے، جہاں ویک اینڈ دو ٹکڑوں میں ہوتا۔
بڑے شہروں سے باہر نکلیں تو بیشتر جگہوں پر دکانیں، بازار اور کاروبار جمعہ کو بند ہوتے ہیں۔ جب ہفتہ اور اتوار کی چھٹیاں ہو گئیں تو کاروباری لوگ تین دن تک بینک میں نہ کیش جمع کرا سکتے اور نہ چیک کیش کرا سکتے۔ یہی نہیں، جب دو چھٹیاں شروع ہوئیں تو عیدین وغیرہ پر ویک اینڈ ملا کر بینک چار چار دن بند ہونے لگے۔ اس سے عام لوگوں اور خاص طور پر کاروبار کرنے والوں کے لیئےَ شدید مشکلات پیدا ہو جاتیں۔
مسئلہ کا حل یہ ہے کہ
جمعہ کو آدھی چھٹی بدستور رہے۔ اس کے ساتھ ہفتہ وار چھٹی اتوار کی بجائے ہفتہ کو ہو۔ اس طرح ڈیڑھ دن کا ویک اینڈ بن جائے گا۔ ویک اینڈ منانے والوں کو بھی سہولت ہوگی اورجمعہ کی نماز پڑھنے والوں کو بھی۔ جمعہ کی نماز میں حاضری زیادہ ہوا کرے گی۔ جن دنوں جمعہ کی چھٹی ہوتی تھی، مشاہدہ کیا گیا کہ نماز پڑھنے والوں کی حاضری آدھی چھٹی کی نسبت کم ہوا کرتی تھی۔
غلامانہ روائت کے پیروکار اصرار کریں گے کہ چھٹی اتوار ہی کو ہونی چاہیئے۔ آخر کیوں؟ انگریزوں نے تو گرجہ جانا ہوتا تھا۔ آپ نے اتوار کو ایسا کون سا کام کرنا ہوتا ہے جو ہفتہ کو نہیں کر سکتے؟ پھر جن بڑے ملکوں سے کاروباری تعلقات ہیں، وہاں تو پہلے ہی ہفتہ اور اتوار دونوں دن چھٹی ہوتی ہے۔ ان سے لین دین میں کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ ہم چھٹی اتوار کی بجائے ہفتہ کے دن کریں گے۔ پھر ہمارے ہاں جمعہ کو آدھا دن کام بھی ہوا کرے گا۔ رہی یکسانیت کی بات، تو تقریبا سبھی مسلم ملکوں میں جمعہ کو چھٹی ہوتی ہے۔ ان سے یکسانیت کیوں نہ کی جائے؟
امید ہے کہ نواز شریف آتے ہی جو کام کریں گے، ان میں موجودہ دو چھٹیاں ختم کرنا بھی ہوگا۔ ساتھ ہی ہفتہ کو پوری اور جمعہ کو آدھی چھٹی کا بھی اعلان کر دیں گے۔ اس طرح ہم کام زیادہ اور آرام کم کریں گے۔

6 جون 2013

بجٹ تقریر کا دن اور وقت بدلنا کیوں ضروری ہے

انگریزوں کے دور میں برتانیہ کی بہت سی کمپنیاں ہندوستان میں سرمایہ کاری کرتی تھیں۔ وہ جاننا چاہتیں کہ ہندوستان کے سالانہ بجٹ کا ان کے کاروبار پر کیا اثر ہوگا۔ چنانچہ ان کی سہولت کے لیئے ہندوستان کا وزیر خزانہ پانچ بجے کے قریب پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کرتا تاکہ برتانیہ میں لنچ کے وقت اس کی تقریر ریڈیو پر سنی جا سکے۔ دن بھی ہفتہ کا رکھا جاتا تاکہ اختتام ہفتہ کی چھٹی کی بنا پر سب کو فراغت ہو۔
انگریز چلا گیا، ہم آزاد ہو گئے لیکن ذہنی غلامی ویسے ہی رہی۔ کسی کو اصل وجہ یاد نہ رہی۔ چنانچہ بجٹ اسی دن اور اسی وقت پیش ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ انگریزوں کو تو اب کیا دلچسپی ہوگی جبکہ اپنے ہاں اس روائت سے کئی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ (ہندوستان میں بھی اسی طرح ہوتا ہے۔ انھوں نے تو مالیاتی سال اب بھی وہی یکم اپریل سے 31 مارچ رکھا ہے،جیسے انگریزوں کے دور میں ہوتا تھا۔)
ہفتہ کی چھٹی کی بنا پر جمعہ کو بجٹ پیش ہونے کی خبر ہے۔ اس شام کو وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر سننا خاصہ مشکل ہوگا۔ دفتروں میں چھٹی کا وقت ہوگا۔ چنانچہ لوگ رستہ میں ہوں گے۔ دکاندار وقت نہیں نکال سکیں گے کیوں کہ گاہک آ رہے ہوں گے۔ بیشتر لوگ بھی گھر سے باہر کہیں نہ کہیں مصروف ہوں گے۔ چنانچہ ایک سے دو گھنٹہ کی تقریر سکون سے سننا خاصہ مشکل ہوگا۔
سب سے زیادہ مشکل میڈیہ کے لیئے ہوتی ہے۔ تقریر شروع ہوتے ہی اسلام آباد میں اخباروں اور ٹیلی ویژن کے نمائندوں کو بجٹ دستاویزوں کا پلندہ دے دیا جاتا ہے۔ وہ خود تو پڑھ نہیں سکتے کیوں کہ بجٹ سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ پھر وہ مصروف بھی بہت ہوتے ہیں۔ ان کے صدر دفاتر کے ماہرین اقتصادیات اور تجزیہ کار کراچی اور لاہور میں ہوتے ہیں۔ چنانچہ سارا زور بجٹ تقریر کے تجزیہ پر ہوتا ہے۔ وہ بھی سب پوری طرح اور اطمینان سے نہیں سن پاتے۔
ٹیلیویژن چینل بھی مشکل کا شکار ہوتی ہیں۔ وزیر خزانہ کی تقریر ختم ہونے کے کچھ ہی دیر بعد ٹاک شو کرنا ہوتا ہے۔ نہ میزبان کے پاس تفصیلات جاننے اور ماہرین کی رائے لینے کا زیادہ وقت ہوتا ہے اور نہ مہمانوں کو سوچ بچار اور تیاری کے لیئے کافی مہلت ملتی ہے۔ پھر بجٹ اور اقتصادیات کے ماہرین بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔ چنانچہ انھیں بلانے کے لیئے ٹاک شو میزبانوں میں کھینچا تانی ہوتی ہے۔
چینل والوں کا مالی نقصان بھی ہوتا ہے۔ شام کا وقت ان کا پرائیم ٹائیم ہوتا ہے، جس میں لوگوں کی زیادہ دلچسپی والے پروگرام ہوتے ہیں۔ ان کے لیئے اشتہار بھی زیادہ ملتے ہیں۔ بجٹ تقریر کے دوران تو اشتہار بالکل نہیں چل سکتے۔ اس پر تبصرے کے دوران بھی زیادہ اشتہار نہیں چل سکتے، کیونکہ بیشتر ناظرین تفریحی چینلوں کا رخ کر لیتے ہیں۔ اس سے چینلوں کا مالی نقصان ہوتا ہے۔
اخباروں کو ایک اور مشکل درپیش ہوتی ہے۔ اتوار کی اشاعت میں باقی دنوں کے مقابلہ میں سب سے زیادہ اشتہار ہوتے ہیں۔ اس بنا پر اتنی جگہ نہیں ہوتی کہ بجٹ کی ضروری تفاصیل بھی آسانی سے دی جا سکیں۔ بجٹ تقریر کا متن بھی بعض اوقات دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ اتوار کی اشاعت میں پڑھنے کے لیئے میگزین کی شکل میں عام دنوں کی نسبت کہیں زیادہ مواد ہوتا ہے، جس سے پڑھنے والوں کی توجہ بجٹ سے ہٹ جاتی ہے۔
مسئلہ کا حل یہ ہے کہ
مرکزی وزیر خزانہ اتوار کی صبح دس بجے کے لگ بھگ بجٹ پیش کیا کریں۔ اس وقت سب لوگ گھروں میں ہوتے ہیں۔ اس لیئے اطمینان سے ان کی تقریر سن سکتے ہیں۔ تبصرہ اور تجزیہ کرنے والوں کو، اخبار کے ہوں یا چینل کے، کافی وقت مل جائے گا۔ اخبار بجٹ کو زیادہ جگہ دے سکیں گے کیوں کہ ایک تو اتوار کو ویسے ہی چھٹی کی وجہ سے خبروں کی کمی ہوتی ہے۔ پھر پیر کی اشساعت میں اشتہار بھی زیادہ نہیں ہوتے۔
بجٹ دستاویزوں میں خفیہ رکھنے والی معلومات نہیں ہوتیں۔ (خفیہ تفصیلات صرف تقریر میں ہوتی ہیں، خاص طور پر ٹیکسوں کی تفصیل۔) اسی لیئے انھیں کئی دن پہلے ہی کتابی شکل میں چھاپ لیا جاتا ہے۔ ان کا مقصد بجٹ کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں پس منظر اور تفصیلات بتانا ہوتا ہے۔ یہ دستاویزیں دو تین دن پہلے تمام اخباروں اور چینلوں کو دی جا سکتی ہیں تاکہ وہ یکسوئی سے مطالعہ کر کے تجزیہ کر سکیں۔ ان دنوں وزارت خزانہ بجٹ دستاویزوں کی ڈسک بنا لیتی ہے۔ یہ ڈسک سب کو 72 گھنٹے پہلے پہنچائی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہدائت ہو کہ بجٹ تقریر سے پہلے کوئی تفصیل ظاہر نہ کی جائے۔ اگر کوئی ادارہ پابندی کی خلاف ورزی کرے تو اسے بطور سزا ہر قسم کی سرکاری مراعات، معلومات وغیرہ سے چھ مہینے سال کے لیئے محروم کر دیا جائے۔
چینل والوں کو بھی بے جا مسابقت کی بجائے آپس میں اشتراک کرنا چاہیئے۔ سرکاری طور پر بجٹ کی وضاحت کرنے کے اہل بہت کم افراد ہوتے ہیں۔ انھیں اپنے اپنے پروگرام میں گھسیٹنے کی بجائے چینل ایک مشترکہ پروگرام کریں، جس میں ان کے میزبان حکام سے اپنے اپنے سوالات کریں۔ اس طرح مہمانوں کو مختلف چینلو٘ں پر اپنی باتیں دہرانی نہیں پڑیں گی۔ ناظرین کو بھی پوری تفصیل ایک ہی پروگرام سے مل جائے گی۔
پاکستان ٹیلی ویژن قومی چینل ہونے کی بنا پر دو گھنٹے کے پروگرام کا میزبان ہو اور خبروں کے تمام چینلوں کو دعوت دے کہ وہ بلا معاوضہ اس میں شرکت کریں۔ وزیر خزانہ، سیکرٹری خزانہ، اور دوسرے اعلی سرکاری اہل کار بھی اس پروگرام میں شرکت کو ترجیح دیں۔ اشتراک کرنے والے چینل ایک ایک نمائندہ بھیجیں۔ اگر چینل زیادہ ہوں تو کچھ کے نمائندے پہلے گھنٹے میں اور باقی دوسرے گھنٹے میں شریک ہوں۔ چینل پروگرام براہ راست نشر کریں۔ مقررہ وقت پر وقفوں کے دوران ہر چینل اپنے اپنے اشتہار چلائے۔ پروگرام آٹھ بجے سے دس بجے تک نشر ہو۔ مہمانوں سے درخاست کی جائے کہ وہ اگلے 24 یا 48 گھنٹے کسی اور چینل کے پروگرام میں شریک نہ ہوں تاکہ اشتراک نہ کرنے والوں کو محرومی کا احساس ہو۔
اگلے دن پاکستان ٹیلی ویژن پر اسی انداز میں تین گھنٹے کی زیادہ مفصل نشست ہو۔ اس طرح اس تماشہ کی ضرورت نہیں ہوگی، جو بجٹ کے  بارے میں نیوز کانفرنس کی شکل میں ہر سال بجٹ تقریر سے اگلے دن ہوتا ہے۔
مجوزہ تبدیلیوں سے بجٹ تقریر زیادہ آسانی اور توجہ سے سنی جائے گی اور وزیر خزانہ حکومت کی ترجیحات اور منصوبوں کی تفصیل زیادہ لوگوں تک پہنچا سکیں گے۔ موجودہ صورت میں پوری تفصیلات معلوم نہ ہونے کی بنا بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں، جن کی سرکاری ترجمان کئی دنوں تک وضاحت کرتے پھرتے ہیں۔ حکومت کشکول تو پتہ نہیں کب توڑے گی کم از کم اس سال سے دور غلامی کی روائت ہی توڑ دیے۔ 
4 جون 2013 

بجلی کا مسئلہ بڑی آسانی سے حل ہو سکتا ہے

نہ صرف لوڈ شیڈنگ ختم ہو سکتی ہے اور بجلی سستی کی جا سکتی ہے، بلکہ بجلی کی مستقبل کی ضرورت بھی بلا تاخیر پوری کی جا سکتی ہے۔
پہلا قدم یہ ہوگا کہ ملک بھر میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو پبلک لمیٹڈ کمپنیوں میں تبدیل کر دیا جائے۔ ہر تقسیم کار کمپنی کے حصص سرمایہ کاروں کو خریدنے کی اجازت نہ ہوگی، جن کا مقصد صرف منافع کمانا ہوتا ہے۔ ایسے سرمایہ کار زیادہ سے زیادہ  ،منافع کی خاطر نہ بجلی سستی کرنے دیں گے اور نہ سروس بہتر کرنے پر خرچ کرنے دیں گے۔
اس لیئے تقسیم کار کمپنی کے حصص صرف اس کے صارفین کو دیئے جائیں گے۔ یہاں بھی سرمایہ داروں کے غلبہ سے بچنے کے لیئے بجلی کے ہر کنیکشن پر صرف ایک حصہ دیا جائے گا۔ اس طرح سب سے زیادہ حصص عوام کے پاس ہوں گے۔ کمپنی کسی صنعت کار یا کاروباری ادارہ سے ترجیحی سلوک نہیں کر سکے گی کیونکہ اس کا کنٹرول عوام کے پاس ہوگا۔ ایک حصہ کی قیمت دس روپے ہوگی، جو بجلی کے بل کے ساتھ وصول کر لی جائے گی۔
پبلک لمیٹڈ کمپنی بننے کے بعد تقسیم کار کمپنی حکومت کو کوئی ادائگی نہیں کرے گی کیوں کہ اس کے اثاثے عوام کی ملکیت ہوں گے اور حکومت بھی عوام ہی کی امانت دار ہوتی ہے۔ اگر حکومت نے کوئی قرضہ دیا تھا تو وہ معاف کر دیا جائے گا تاکہ کمپنی آسانی سے نیا دور شروع کر سکے۔ اگر عبوری دور میں کسی تقسیم کار کمپنی کو مالی مدد کی ضرورت ہو تو مرکزی حکومت پوری کرے گی۔
ہر تقسیم کار کمپنی کا سربراہ حکومت مقرر نہیں کرے گی۔ اس کے انتخاب کے لیئے وفاقی پبلک سروس کمشن اشتہار دے گا اور مناسب ترین امیدوار کا انتخاب کر کے کمپنی کا سربراہ مقرر کر دے گا۔ حکومت کا اس میں کوئی دخل نہ ہوگا اور نہ ہی اس کی منظوری کی ضرورت ہوگی۔
تقسیم کار کمپنی کا سربراہ چارج سنبھالتے ہی اپنے اگلے تین ماہ کا منصوبہ اگلے ماہ کے بل کے ساتھ صارفین کو بھیجے گا۔ چوتھے ماہ کے بل کے ساتھ وہ پچھلے تین ماہ کی کارکردگی کی رپورٹ اور اگلے تین ماہ کا منصوبہ سب کو بھیجے گا۔ ہر سال جولائی کے بل کے ساتھ ایک فارم ہوگا، جس پر صارفین کمپنی کی ہر شعبہ میں کارکردگی کے بارے میں اپنی رائے دیں گے۔
فارم کے آخر میں صارف بتائے گا کہ وہ کمپنی کی کارکردگی سے مجموعی طور پر مطمئن ہے یا نہیں۔ اگر ہر سال 70 فی صد سے زیادہ صارفین مطمئن ہوں تو سربراہ کام کرتا رہے گا۔ ورنہ فارغ ہو جائے گا۔
کمپنی کے لیئے کسی بورڈ آف ڈائریکٹرز کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ڈائریکٹر عام طور پر اپنے یا دوسروں کے مفاد کے لیئے ہی کوشاں رہتے ہیں۔ صارفین کی بہتری ان کے لیئے زیادہ اہم نہیں ہوتی۔ چونکہ سربراہ منتظم ہوگا، انجینیئر یا مالیاتی ماہر نہیں، اس لیئے جب کبھی فنی، مالیاتی، منصوبہ بندی اور دوسرے امور میں ضروت ہوگی تو وہ اشتہار دے کر اہل مشیروں کا چند ماہ کے لیئے تقرر کر سکے گا۔
تقسیم کار کمپنیوں کے پبلک لمیٹڈ بن جانے کے بعد وفاقی حکومت بجلی کی خریداری کے تمام معاہدے ختم کر دے گی۔ بجلی سے متعلقہ ادارے، جیسے نیپرا، پیپکو، ختم کر دیئے جائیں گے۔ حکومت کے ملکیتی بجلی گھروں کی نجکاری کر دی جائے گی یا انھیں نجی انتظامیہ کے حوالہ کر دیا جائے گا۔
تمام نجی اور سرکاری بجلی گھروں سے کہا جائے گا کہ وہ تقسیم کار کمپنیوں سے الگ الگ معاہدے کریں۔ ظاہر ہے کہ انھیں کم سے کم ریٹ دینے ہوں گے۔ ان کی بجلی نیشنل گرڈ کے ذریعہ سپلائی ہوگی، جسے چلانے والی نیشنل ٹرانسمشن و ڈسپیچ کمپنی کا کنٹرول حکومت تقسیم کار کمپنیوں کو دے دے گی، جو اسے مشترکہ طور پر چلائیں گی۔ ہر کمپنی کا حصہ برابر ہوگا۔
کوئی تقسیم کار کمپنی اہنا بجلی گھر نہ بنائے گی اور نہ کوئی موجودہ چلائے گی۔ اس کی کئی وجوہ ہوں گی: اپنا بجلی گھر لگانے میں سرمایہ پھس جائے گا، جبکہ اسے بجلی کی تقسیم کا نظام بہتر بنانے پر خرچ ہونا چاہیئے۔ بجلی گھر کی دیکھ بھال اور اسے بہتر بنانے پر بھی ہر سال خرچ کرنا پڑے گا۔ اگر کسی وجہ سے بجلی گھر کی فی یونٹ لاگت دوسروں سے زیادہ ہو تو اس کا بوجھ صارفین پر پڑے گا۔
چنانچہ تقسیم کار کمپنی ساری بجلی نجی بجلی گھروں سے لیا کرے گی۔ ہر بجلی گھر متعلقہ تقسیم کار کمپنی سے شرائط طے کر کے سپلائی کرے گا۔ حکومت کی طرف سے سرمایہ کاروں کو کھلی اجازت ہوگی کہ وہ جہاں چاہیں، جس طرح چاہیں بجلی پیدا کر کے تقسیم کار کمپنیوں کو سپلائی کریں۔ کوئی سرمایہ کار کوئلہ سے بجلی بنائے گا، کوئی ہوا سے، اور کوئی شمسی توانائی سے۔ کچھ سرمایہ کار دریائوں اور نہروں سے بجلی بنانا چاہیں گے۔ انھیں دریائوں پر نئے ڈیم بنانے کے لیئے حکومت سے منظوری لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ واپڈا انھیں قابل عمل ہونے کی پہلے سے تیار شدہ رپورٹیں دے گا تاکہ وہ فورا تعمیر کا کام شروع کر سکیں۔
ہر سال جون میں تقسیم کار کمپنی بجلی گھروں سے اگلے سال کے لیئے بجلی کی قیمت طے کرے گی۔ جو بجلی گھر سب سے کم ریٹ دے گا، اسے ترجیح دی جائے گی۔ جیسے جیسے سستی بجلی دینے والے بجلی گھر میدان میں آتے جائیں گے، مہنگی بجلی والے فارغ ہوتے جائیں گے۔ فرنس تیل اور گیس سے بجلی پیدا کرنے والے متبادل ایندھن استعمال کرنے پر مجبور ہوں گے ورنہ بند ہو جائیں گے۔
ہر تقسیم کار کمپنی نیشنل گرڈ سے ضرورت کے مطابق بجلی لیا کرے گی، چاہے اسے پیدا کرنے والا بجلی گھر ملک میں کہیں بھی ہو۔ اس طرح کمپنی کے اپنے علاقہ میں موجود بجلی گھر گٹھ جوڑ کر کے بجلی مہنگی نہیں کر پائیں گے۔ پھر تقسیم کار کمپنی کسی ایک کی بجائے کئی بجلی گھروں سے بجلی لیا کرے گی تاکہ کسی ایک کے ناجائز دبائو پر یا اس میں فنی خرابی کی بنا پر صارفین کو لوڈ شیڈنگ کا سامنا نہ ہو۔
بجلی کی چوری اور نادہندگی بالکل بند ہو جائے گی۔ سرکاری افسروں اور سیاست کاروں کا کسی بھی طرح کا دخل نہیں ہوگا۔ اس لیئے وہ چوری یا نادہندگی کے لیئے اپنا اثر استعمال نہیں کر پائیں گے۔ خود تقسیم کار کمپنی کے لیئے ممکن نہیں ہوگا کہ وہ کسی کو بجلی چوری کرنے دے یا نادہند ہونے دے۔ اگر ایسا ہوا تو شور مچ جائے گا اور صارفین، جو کمپنی کے حصہ دار ہوں گے، سربراہ کو ہٹا سکیں گے۔ یہ بہت بڑی ضمانت ہوگی کہ کمپنی کسی کو ناجائز فائدہ نہیں لینے دے گی۔
تقسیم کار کمپنی بجلی کی اصل لاگت کے ساتھ بل میں کچھ اضافہ کرے گی تاکہ عملہ، بجلی کی سپلائی اور سروس کی بہتری کے لیئے سرمایہ ملتا رہے۔ اس طرح تاریں، کھمبے، ٹرانسفارمر، میٹر، وغیرہ بر وقت تبدیل ہوتے رہیں گے۔ اگر منافع ہوگا تو بجلی کا نظام بہتر بنانے اور بہتر خدمت پر صرف ہوگا۔ اس طرح سارا منافع کسی سیٹھ کی جیب میں نہیں جائے گا بلکہ صارفین کے فائدہ کے لیئے خرچ کیا جائے گا۔
24 مئی 2013