Monday, July 15, 2013

نکلنا چاند کا سنتے تھے لیکن ۔ ۔ ۔

رمضآن کی 29 تھی۔ میں کولمبو میں ایک بڑے سرکاری افسر کے پاس تھا۔ ہماری گفتگو ابھی ختم نہ ہوئی تھی کہ دفتر بند ہونے کا وقت ہو گیا۔ میں نے کہا، "ہو سکتا ہے کل عید ہو جائے۔ اس لیئے باقی گفتگو پرسوں کریں گے۔" "نہیں، کل بھی ملاقات ہو سکتی ہے۔ عید پرسوں ہوگی۔" مجھے حیران دیکھ کر انھوں نے وضاحت کی کہ کیسے انھیں علم ہے کہ عید پرسوں ہی ہوگی۔
ہمارے ہاں تو چودھویں کا چاند صرف رخ زیبا سے تشبیہ کے لیئے ہوتا ہے لیکن بدھ مت میں اس کا بڑا تقدس ہے۔ چاند کی چودھویں کو یوم پویہ کہتے ہیں۔ اس دن عبادت کی جاتی ہے۔ چنانچہ سارے ملک میں چھٹی ہوتی ہے۔ یہ چھٹی ہر ماہ ہوتی ہے۔ سال کے شروع ہی میں بارہ مہینوں کے پویہ دنوں کی تاریخیں دے دی جاتی ہیں۔ چونکہ لنکا کی 85 فی صد آبادی بودھ ہے، اس لیئے ان تاریخوں کا بالکل صحیح ہونا لازمی ہے۔ اگر غلطی ہو جائے تو حکومت کے لیئے بڑا مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ چونکہ عیدین پر بھی سرکاری چھٹی ہوتی ہے۔ اس لیئے ان کی تاریخوں کا بھی پہلے سے ہی اعلان کر دیا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں بھی عرصہ تک حکومت کی طرف سے عیدین، محرم، وغیرہ کی چھٹیوں کا اعلان سال کے شروع ہی میں کر دیا جاتا تھا۔ تاہم اتمام حجت کے لیئے کیلنڈر کے نیچے نوٹ دے دیا جاتا تھا کہ چھٹی کا انحصار چندا نظر آنے پر ہے۔ ہوتا یہ تھا کہ چھٹیوں کی تاریخیں طے کرنے سے پہلے ماہرین فلکیات سے معلوم کر لیا جاتا کہ چاند کس کس تاریخ کو دکھائی دے گا۔
کہتے ہیں نہ ہلے کو ہلائو مت اور ہلے ہوئے کو چھڑائو مت۔ ہمارے حکمرانوں کو پہلا حصہ یاد نہ رہا اور اب دوسرے حصہ پر عمل کرنا مشکل لگتا ہے۔ وزیر مذہبی امور، مولانا کوثر نیازی، نے وزیر اعظم بھٹو سے کہہ کر علما کو ایسے کاموں پر لگا دیا، جن سے ان کی انا کی تسکین ہوتی تھی۔ پہلے 1974 میں احمدیوں کو غیرمسلم قرار دیئے جانے کے بعد علما کو اختیار دیا گیا کہ وہ سعودی عرب جانے والوں کو مسلمان ہونے کا تصدیق نامہ دیا کریں اور اس کی فیس لیا کریں۔ بہت سوں کو رویت ہلال کمیٹیوں میں شامل کر کے چاند دیکھنے پر لگا دیا گیا۔ یہ کمیٹیاں نہ صرف صوبوں بلکہ اضلاع میں بھی بنائی گئیں۔
جب علما چاند کمیٹیوں میں شامل ہو گئے تو اپنے پیر مضبوط کرنے لگے۔ امریکی تو صرف چاند پر چہل قدمی پر اتراتے ہیں لیکن ہمارے چاند دیکھنے والے علما میں اتنی اہلیت ہے کہ وہ چاہیں تو چاند کو افق پر نظر آنے سے پہلے ہی دیکھ لیں۔ بلکہ چاہیں تو نئے چاند کو دو مختلف دنوں میں نکلا ہوا ثابت کر دیں۔ اس معاملہ میں صوبہ خیبر کے علما پوری صوبائی خودمختاری استعمال کرتے ہیں۔ بلکہ کچھ سال پہلے صوبائی اسمبلی نے قرارداد منظور کر دی کہ مرکزی روئت ہلال کمیٹی ہی توڑ دی جائے۔ کھیلن کو مانگے چاند۔
چاند کا دیکھنا بھی اپنی جگہ کمال دید ہے۔ 2006 میں سرحد کے صوبائی وزیر مذہبی امور، امان اللہ حقانی، نے کہا کہ 40 افراد نے عید کا چاند دیکھا۔ وہ کیسا چاند ہوگا، جسے صوبہ کے 20 ملین سے زیادہ لوگ نہ دیکھ پائے؟ یہ کوئی برقع پوش چاند چہرہ ہوگا، جس نے 40 نیک پاک افراد کے دروازے باری باری کھٹکھٹائے، ہر ایک کو اپنا چہرہ چند لمحوں کے لیئے دکھایا اور آگے بڑھ گیا۔ (اس سے پہلے اس نے معلوم کرلیا ہوگا کہ وہ سب افراد شرعی طور پر چاند کی گواہی دینے کے اہل ہیں۔)
مرکزی روئت ہلال کمیٹی بھی عینک اور دوربین سے چاند ایسے دیکھتی ہے جیسے چاند دیکھنا نہ ہوا تلاش گمشدہ ہوگئی۔ وہ چاند کیا ہوا جو کروڑوں لوگوں میں سے صرف کمیٹی اور چند گواہوں ہی کو نظر آئے۔
کمیٹی نے اس دفعہ پہلے روزہ کا اعلان غروب آفتاب کے تقریبا دو گھنٹے بعد کیا۔ ہمارے ہاں موبائل فون کنیکشن کل آبادی کے دوتہائی کے برابر ہیں۔ چنانچہ دوردراز علاقوں سے بھی چند منٹ میں اطلاع مل جاتی ہے۔ کمیٹی کیوں اتنی دیر انتظار کرتی رہی؟ اسے کیوں احساس نہ ہوا کہ اس نے سارے ملک کو انتظار کی سولی پر لٹکایا ہوا ہے؟
سوال یہ ہے کہ صرف چاند دیکھ کر ہی روزہ رکھنے اور افطار کرنے پر کیوں زور  دیا جاتا ہے؟ یہ بھی تو قرآن مجید میں کہا گیا ہے کہ سحر میں کالے اور سفید دھاگے کا فرق نظر آنے تک کھا پی سکتے ہیں۔ کیا ایسا کیا جاتا ہے؟ افطار سورج غروب ہونے پر کرنا ہوتا ہے۔ کیا چھت پر جا کر سورج کو ڈوبتے ہوئے دیکھا جاتا ہے؟
گھڑی دیکھ کر صرف سحر اور افطار ہی نہیں کیا جاتا۔ نمازوں کے اوقات بھی اسی طرح طے کیئے جاتے ہیں۔ اس طرح اوقات کیوں نہیں مقرر کیئےجاتے، جیسے ہزار بارہ سو سال پہلے گھڑیوں کے بغیر کیئے جاتے تھے؟
اگر ہم ہجری کیلنڈر اپنانا چاہیں تو پہلی تاریخ طے کرنے کے لیئے ہر ماہ کی 29 تاریخ کو چاند دیکھنے سے کام نہیں چلے گا۔ جن عرب ملکوں میں ہجری کیلنڈر استعمال ہوتا ہے، وہاں کوئی روئت ہلال کمیٹی نہیں ہوتی۔ علم فلکیات سے نہ صرف نئے چاند کا بلکہ اگلے ہزار سال کے تمام قمری مہینوں کی پہلی تاریخ معلوم کی جا سکتی ہے۔
جو علما اصرار کریں کہ صرف آنکھ سے دیکھنے پر ہی چاند کا فیصلہ ہونا چاہیئے، حکومت ان کی مسجدوں میں کلاک اور سپیکروں کے استعمال پر پابندی لگا دے۔ وہ پرانے طریقوں سے نمازکے اوقات طے کیا کریں۔ موذن مینار پر چڑھ کر آذان دیا کرے۔ (مینار اذان ہی کے لیئے بنائے جاتے تھے۔) بجلی بھی کاٹ دی جائے تاکہ روشنی کے لیئے تیل کے چراغ جلائے جائیں۔ حج اور عمرہ کے لیئے ان کے قافلے اونٹوں اور گھوڑوں پر ایران اور عراق کے راستے جایا کریں۔ ان پابندیوں کے بعد ان علما کا آنکھوں سے چاند دیکھنے پر اصرار ختم ہو جائے گا۔
مسئلہ کا حل یہ ہے کہ حکومت تمام روئت ہلال کمیٹیاں توڑ دے۔ کوئی قیامت نہیں ٹوٹے گی۔ چند روز اخباروں میں بیانات شائع ہوں گے۔ جمعہ کی نماز پڑھ کر نکلنے والوں کو احتجاجی مظاہرین کا نام دیا جائے گا۔ اس کے بعد مسئلہ ختم ہو جائے گا۔ عوام سکھ کا سانس لیں گے۔
اگلے قدم کے طور پر حکومت ہر سال کے شروع ہی میں ماہرین کے مشورے سے نہ صرف رمضان و عیدین بلکہ تمام قمری مہینوں کی تاریخوں کا اعلان کر دیا کرے۔ ٹیلی ویژن چینلوں اور اخبارات کو سختی سے تاکید کر دی جائے کہ وہ چاند کے بارے میں صرف سرکاری اعلان نشر کیا کریں۔ سرکاری اعلان کے خلاف اگر کوئی عید کی نماز بھی پڑھائے تو اس کی خبر نہ دی جائے۔ دہشت گردوں کی طرح فساد فی الدین پیدا کرنے والے بھی انا کی تسکین کے لیئے پبلسٹی چاہتے ہیں۔ یہ انھیں نہیں ملنی چاہیئے۔
آخر میں ایک لطیفہ:
"ہمارے کس علاقہ کے لوگوں کی نظر سب سے تیز ہے؟"
"خیبر پختون خوا کے چاند دیکھنے والے علما کی۔"
"وہ کیسے؟"

"وہ رمضان اور عید کا چاند باقی ملک سے ایک دن پہلے ہی دیکھ لیتے ہیں۔"
15 جولائی 2013

سڑک پار کرنے کے لیئے پل یا زیر سڑک رستے؟

شہروں کی سڑکوں پر بڑھتے ہوئے ٹریفک کی بنا پر انھیں پار کرنا زیادہ مشکل ہوتا جا رہا ہے اور خطرناک بھی۔ از راہ تفنن، بعض لوگ کہتے ہیں، جو سڑک کی جس طرف پیدا ہوا، اسی طرف رہے تو بہتر ہوگا۔
سڑک پار کرنے کا سب سے آسان اور محفوظ طریقہ زیبرہ کراسنگ سے گزرنا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اشارہ اتنی دیر آپ کے موافق رہے جتنا وقت آپ کو سڑک پار کرنے میں لگے گا۔ پھر آپ کراسنگ کے قریب بھی ہوں۔ اگر اگلا اور پچھلا چوک دونوں خاصے دور ہوں اور آپ نے بالکل سامنے سڑک کے پار جانا ہے تو پھر جان ہتھیلی پر رکھ کر قدم بڑھائیں۔ اگر قسمت نے یاوری کی تو دونوں طرف کی ٹریفک آپ کو گزرنے دے گی۔ اگر کسی گاڑی کی رفتار کم نہ کی گئی تو پھر آپ جہاں ہیں وہیں کھڑے رہیں گے یا پھر، اللہ نہ کرے، کسی بیڈ پر پٹیوں میں لپٹے ہوئے پڑے ہوں گے۔
اگر پیدل چلنے والے سڑک پار نہ کر سکیں تو ان کے لیئے دو متبادل ہیں، بشرطیکہ حکومت خرچ برداشت کرنے پر رضامند ہو جائے۔ جو متبادل اکثر اپنایا جاتا ہے وہ سڑک پر پل ہوتا ہے۔ لیکن جہاں کہیں بھی یہ پل ہیں ان پر سے بہت کم لوگ گزرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ لوگوں کو جان پیاری نہیں ہوتی لیکن پل پر چڑھنا بڑا دشوار لگتا ہے۔ ان کی سوچ میں وزن ہے۔ پل کی اونچائی لازمی طور پر اتنی رکھنی پڑتی ہے کہ ہر قسم کی موٹر گاڑی نیچے سے گزر جائے۔ یہ نہ ہو کہ کوئی لبا لب بھرا ٹرک پل کے نیچے سے گزرتے ہوئے اس سے ٹکراِ جائے۔ اتنی اونچائی عام انسانی قد سے تین گنا کے قریب ہوتی ہے۔ جب پیدل چلنے والا ایک نظر پل پر ڈالتا ہے تو اس کی ہمت نہیں پڑتی کہ سیڑھیاں چڑھ کر اتنی بلندی تک جائے اور پھر اتنی ہی سیڑھیاں اترے۔
پیدل چلنے والوں میں ضعیف اور ناتواں مرد، عورتیں اور بچے بھی ہوتے ہیں۔ ان کے لیئے سیڑھیاں چڑھنا بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اگر پاس کچھ سامان ہو تو مزید مشکل ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی نفسیاتی طور پر سیڑھیاں چڑھنا اترنے سے زیادہ مشکل لگتا ہے۔ اگرچہ دوسری طرف اتنی ہی سیڑھیاں اترنی بھی ہوتی ہیں لیکن وہ تو بعد کی بات ہے۔
اگر پل کی بجائے زیر سڑک راستہ (انڈر پاس) بنایا جائے تو کیا فرق ہوگا؟ پہلا فرق تو یہ ہوگا کہ لاگت بہت کم ہوگی۔ زیر سڑک راستہ بنانے میں بڑا کام کھدائی کر کے مٹی نکالنا ہوتا ہے۔ یہ مشینوں سے نہ ہو تو کدالوں سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ ٹھیک ہے اس میں وقت زیادہ لگے گا اور اس کے نتیجہ میں مزدوروں کو اجرت زیادہ دینی ہوگی۔ لیکن مزدور کی اجرت ہوتی کتنی ہے؟ اگر موجودہ حکومت کے وعدہ کے مطابق اجرت 15 ہزار روپے ماہانہ ہو تو بھی کھدائی کا مجموعی خرچ چند لاکھ سے زیادہ نہیں ہوگا۔ اس کے بعد اندر سے پختہ کرنا ہوگا۔ دونوں سروں پر سیڑھیاں بنانی ہوں گی۔ ان کی تعداد بھی پل کے مقابلہ میں ایک تہائی ہوگی۔ تھوڑا سا خرچ ہوا اور بارش کے پانی کے اخِراج کا انتظام کرنے پر ہوگا۔ ایک بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ لوہے کا استعمال زیادہ نہیں ہوگا۔
زیر سڑک رستہ پر پیدل چلنے والوں کو پہلے نیچے جانی والی سیڑھیاں اترنی ہوں گی۔ جیسا کہ ذکر ہو چکا، پہلے اوپر چڑھنے سے نیچے اترنا کہیں زیادہ آسان لگتا ہے۔ اگر سیڑھیوں کی ڈھلوان زیادہ رکھ لی جائے تو ہر سیڑھی کی اونچائی کم کی جا سکتی ہے۔ اس سے سب کو، خاص طور پر ضعیف لوگوں کو، بڑی آسانی ہوگی۔ پل کی بلندی کی نسبت زیر سڑک رستہ کی اونچائی ایک تہائی کے قریب ہوگی۔ وجہ یہ ہے کہ پل تو پورے لدے ہوئے ٹرکوں، وغیرہ، کے مطابق اونچا رکھنا ہوتا  ہے۔ اس کے برعکس زیر سڑک رستہ میں سب سے زیادہ اوانچائی گزرنے والوں کی اپنی ہوگی، جو عام طور پر زیادہ سے زیادہ دومیٹر کے لگ بھگ ہوگی۔ رستہ اس سے تھوڑا سا ہی زیادہ بلند ہوگا۔ یوں لاگت کم ہوگی۔
زیر سڑک رستہ ماحول کے لحاظ سے پل سے کہیں بہتر ہوگا۔ پل تو دور سے نظر آتا ہے اور آنکھوں کو بھلا نہیں لگتا۔ جتنے زیادہ پل کسی سڑک پر ہوں گے، اتنے ہی زیادہ دیکھنے والوں کو ناگوار گزریں گے۔ اس کے برعکس زیر سڑک رستے اوپر سے بالکل نظر نہیں آئیں گے۔ بلک راہ چلتے لوگوں کو بھی سائین بورڈ لگا کر بتانا پڑے گا کہ یہاں سے گزر کر سڑک کے پار جا سکتے ہیں۔
بہت سے لوگ سائیکلوں اور موٹر سائیکلوں پر سوار ہوتے ہیں۔ انھیں بھی سڑک پار کرنی ہوتی ہے۔ لاہور میں رنگ روڈ پر بنائے گئے پلوں کے ساتھ ان کے لیئے ڈھلوان بنائی گئی ہے۔ پیدل چلنے والوں کی سیڑھیوں کے دوسری طرف بنائی گئی یہ ڈھلوانیں اضافی خرچ کراتی ہیں، چاہے انھیں استعمال کرنے والے زیادہ نہ ہوں۔ گنجان آبادی کی سڑکوں پر پل بھی زیادہ بنانے پڑتے ہیں۔ ان کے ساتھ سائیکلوں اور موٹر سائیکلوں کے لیئے بھی اتنی ہی ڈھلوانیں اضافی خرچ سے بنانی ہوں گی۔ زیر سڑک رستہ میں سیڑھیوں کے دونوں طرف ڈھلوانیں بنائی جائیں گی، جن پر نہ صرف سائیکل اور موٹر سائیکل، بلکہ بچہ گاڑیاں بھی گزاری جا سکیں گی۔
لاہور میں میٹرو بس کے رستہ کے دونوں طرف جنگلہ نے سڑک پار کرنا بہت مشکل بنا دیا ہے۔ جہاں بھی میٹرو بس ہوگی، یہی مشکل پیش آئے گی۔ بہت کم جگہوں پر کٹ رکھے گئے ہیں تاکہ بسوں کو رکاوٹ نہ ہو۔ پل تو ہیں لیکن پیدل چلنے والوں کے لحاظ سے دو سٹیشنوں کے درمیان فاصلہ زیادہ ہے۔ اگر پلوں کی بجائے زیادہ تعداد میں زیر سڑک رستے بنا دیئے جائیں تو دونوں طرف کے لوگوں کے لیئے آسانی ہو جائے گی۔
زیر سڑک رستہ میں ایک اتنا بڑا فائدہ ہے، جسے سامنے رکھا جائے تو آئندہ کوئی مقامی حکومت پل نہیں بنائے گی۔ بلکہ بنے ہوئے پل بھی گرا دیں گی۔ رستہ میں آنے جانے والوں کے لیئے کافی جگہ چھوڑی جائے گی۔ ان کے ساتھ سائیکلوں اور موٹر سائیکلوں کے لیئے بھی گنجائش رکھی جائے گی۔ اس کے بعد مزید کھدائی کر کے رستہ کے دونوں طرف دکانیں بنائی جائیں۔ یہ دکانیں بیچنے کی بجائے کرایہ پر دی جائیں۔ اس سے یہ ہوگا کہ مقامی حکومت کو رستہ کی لاگت پوری ہونے کے بعد آمدنی کا مستقل ذریعہ مل جائے گا۔ اگر دکانیں بیچی جائیں تو وقتی طور پر معقول آمدنی ہوگی اور اہلکاروں کو کچھ رشوت بھی مل جائے گی لیکن بعد میں کچھ نہیں ملے گا۔ کرایہ کی صورت میں کچھ رقم مرمت اور دیکھ بھال پر خرچ ہوگی اور باقی مقامی حکومت کی آمدنی ہوگی۔

مالی فائدہ کے پیش نظر، مقامی حکومتیں شہروں میں جہاں کہیں سڑک پار کرنے میں دشواری ہوگی وہاں پلوں کی بجائے زیر سڑک رستے بنایا کریں گی۔ جہاں پل بنے ہوئے ہیں انھیں بھی گرا کر رستے بنا دیں گی۔ اوپر کی بجائے نیچے کی طرف توجہ کرنا مہنگا نہیں بلکہ منافع کا سودہ ہوگا۔
13 جولائی 2013

لوڈ شیڈنگ برداشت کرنے کے 12 طریقے

لوڈ شیڈنگ تو ختم ہوتے ہوتے ہوگی۔ دریں اثنا، اسے برداشت کرنا پڑے گا۔ لوڈشیڈنگ پچھلے حکمرانوں کی نااہلی کا نتیجہ ہے۔ صدر ضیاء نے صرف جنرل فضل حق، گورنر سرحد، کی مخالفت کی بنا پر کالاباغ بند کی تعمیر شروع نہ کی، جب کہ ساری تیاری مکمل تھی۔ (فضل حق سمجھتے تھے کہ مخالفت سے وہ صوبہ میں مقبول ہو جائیں گے اور سبک دوشی کے بعد سیاست کر سکیں گے۔)
بعد میں کئی عناصر کالا باغ کی مخالفت میں شامل ہو گئے۔ ان میں نجی تھرمل بجلی گھرتھے، جو سستی بجلی کا مقابلہ نہ کر پاتے، سندھ کے وہ وڈیرے، جو دریا کے کناروں پر سیلاب سے سیراب ہونے والی اراضی سے مفت میں فصلیں لیتے ہیں، چند چھوٹی چھوٹی صوبائی سیاسی جماعتیں، جن کی سیاست پنجاب دشمنی پر مبنی ہے، علاقائی زبانوں کے بعض اخبارات، جو ہندوستان کی امداد کے سہارے چلتے ہیں، ذاتی فائدہ کی خاطر نجی بجلی گھروں سے ناواجب شرطوں پر معاہدے کرنے والے حکمران اور وہ بداندیش، جنھیں ملک کی بھلائی اچھی نہیں لگتی۔
اب سیاست کار کہتے ہیں کہ کالاباغ بند اتفاق رائے سے بننا چاہیئے۔ کیا وارسک، منگلہ، تربیلہ، دیامر بھاشہ وغیرہ کسی بھی بند کی تعمیر پر صوبوں کی رائے لی گئی؟ رہیں صوبائی اسمبلیوں کی قراردادیں، تو جب قومی اسمبلی کی قراردادیں ہوا میں اڑا دی جاتی ہیں، تو صوبائی قراردادوں کی کیا وقعت ہے؟ تعمیر پر سارا خرچ مرکزی حکومت کرتی ہے۔ صوبے خرچ کچھ نہیں کرتے، صرف استفادہ کرتے ہیں۔ یا پھر سیاست کرتے ہیں۔
1990 کی دہائی میں جب پہلی بار تھرمل بجلی گھروں کے معاہدے ہوئے تو واپڈا کے کسی افسر نے کہا، "ان معاہدوں کے نتیجہ میں آخرکار اگر آُپ کو بجلی دس روپے یونٹ بھی مل گئی تو سمجھیں سستی ہے۔"
صدر پرویز مشرف نے جب مخالفت سے گھبرا کر پہلے کسی اور بند کی تعمیر شروع کرنی چاہی تو پتہ چلا کہ کسی بھی حکومت نے واپڈا کو کسی اور بند کی تعمیر کی تیاری کے لیئے کبھی نہ کہا۔ خود ان کے اپنے ساتھیوں کی کوتاہ اندیشی کا یہ حال تھا کہ جب وہ 2006 میں کالاباغ بند کی تعمیر کا فیصلہ کرنے لگے تو کہتے ہیں چودھری شجاعت نے مشورہ دیا کہ 2007 میں ہونے والے انتخابات کے بعد فیصلہ کریں ورنہ ق لیگ کو سیاسی طور پر نقصان ہوگا۔
کوتاہ اندیشی شوکت عزیز نے بھی دکھائی۔ انھوں نے شرح سود نہائت کم کردی۔ اس سے لیزنگ کو بہت فروغ ہوا اور قسطوں پر برقی آلات بڑی تعداد میں لیئے جانے لگے۔ اس سے بجلی کی کھپت منصوبہ سے کئی سال پہلے ہی پیداوار سے بڑھ گئی۔ ورنہ لوڈ شیڈنگ شروع نہ ہوتی۔
یہی نہیں۔ شوکت صاحب نے چینی کمپنی کو واپس جانے پر مجبور کر دیا، جو تھر میں بجلی کا فی یونٹ ریٹ پونے چھ امریکی سینٹ مانگ رہی تھی جبکہ شوکت صاحب سوا پانچ سینٹ سے زیادہ دینے کو تیار نہ تھے۔ اگر کمپنی اسے قبول کر لیتی تو اسے کچھ نہ بچتا۔
موجودہ حکومت نے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے بارے الیکشن سے پہلے دعوے تو بہت کیئے۔ اب دیکھیں عمل کب اور کہاں تک ہوتا ہے۔ دریں اثنا، سڑنے کڑھنے اور حکمرانوں کو برا بھلا کہنے سے کچھ نہ ہوگا۔ قہر درویش بر جان درویش کے مصداق ہمیں جیسے تیسے لوڈ شیڈنگ برداشت کرنی ہی ہوگی۔ اس کے بہت سے طریقے ہو سکتے ہیں، کچھ آسان، کچھ ذرا مشکل۔ ان میں سے 12 پیش خدمت ہیں:
-- اپنے روزمرہ کاموں کی ترتیب بدل دیں۔ مثلا، چائے پینے، کھانا کھانے یا گھومنے کے لیئے تبھی وقت نکالیں جب بتی نہ ہو۔
-- کھڑکی کے قریب سورج کی روشنی میں بیٹھیں۔ اگر صبح کا اخبار پڑھ چکے ہوں تو کوئی کتاب اٹھا لیں، جو آپ مدت سے پڑھنا چاہتے تھے لیکن اس کے لیئے وقت نہیں ملتا تھا۔ مطالعہ میں محویت سے آپ کو لوڈشیڈنگ کا احساس اس وقت ہوگا جب بتی آ جائے گی! دستی پنکھہ پاس رکھیں کہ اسی سے کچھ راحت ملے گی۔
-- دفتر میں اپنے کسی ساتھی کو پاس بلا لیں یا اس کے پاس چلے جائیں اور چائے کی پیالی پر ان امور پر یک سوئی سے بات کریں، جو ملتوی ہوتے چلے آ رہے ہوں۔ جب بتِی آ جائے تو پھر سے اپنے اپنے کام میں لگ جائیں
-- ریڈیو سنیں (بیٹری والا یا موبائل فون والا)۔ ٹیلی ویژن والی تصویریں تو نہ ہوں گی لیکن موسیقی سننے میں لطف آئے گا۔ بھولے بسرے گانے آپ کو ماضی کی یادوں میں لے جائیں گے۔ اگر ڈرامہ ہو رہا تو آپ حیران ہوں گے کہ صرف آواز سے کیفیت اور تاثرات آپ تک پہنچ رہے ہیں۔ دور دراز ملکوں کے حالات ان کے ریڈیو سٹیشنوں سے جانیں۔ غیرملکی موسیقی کا لطف لیں۔
-- میوزک پلیئر سنیں۔ ریڈیو تو وہی سنائے گا جو اس کے پروگرام میں ہے۔ اپنی پسند کی موسیقی سننے کے لیئے میوزک پلیئر کھولیں۔ اپنے پاس نہیں ہے تو کسی بچے سے مانگ لیں۔ تلاوت اور درس قرآن بھی سن سکتے ہیں۔
-- عزیزوں اور دوستوں کے ہاں جائیں۔ پہلے پتہ کر لیں کہ جہاں جا رہے ہیں وہاں بتی ہے۔ پھر اچانک جا پہنچیں۔ وہاں جانے کی وجہ ہرگز نہ بتائیں۔ ورنہ پھر کبھی خوش دلی سے آپ کا استقبال نہیں ہوگا!
-- نزدیکی مارکیٹ کا چکر لگائیں۔ گھر والوں کو بھی ساتھ لے لیں۔ اگر کچھ لینا نہیں تو ونڈو شاپنگ کریں۔ بچوں کو کھلائیں پلائیں۔ اگر گرمی زیادہ ہو تو کسی شاپنگ پلازہ میں چلے جائیں، جہاں سب کچھ ٹھنڈہ ہوتا ہے۔ واپسی پر گھر کے اس فرد کے لیئے کچھ نہ کچھ ضرور لیتے جائیں، جسے آپ رکھوالی کے لیئے گرمی اور اندھیرے میں چھوڑ آئے تھے!
-- کچھ وقت کسی ٹھنڈی جگہ گزاریں، جہاں آپ کے بیٹھنے پر کسی کو اعتراض نہ ہو۔ ایسی جگہوں میں بینک، سپرمارکیٹ، بڑی دکانیں اور لائبریریاں شامل ہیں۔ اگر چائے کی پیالی بوجھ نہ ہو تو کسی ریسٹورینٹ میں بیٹھ سکتے ہیں۔
-- کار میں گھومنے جائیں۔ بیوی بچوں کو بھی ساتھ لے لیں۔ ایسی جگہ جائیں، جہاں آنے جانے میں لوڈ شیڈنگ کا وقت گزر جائے۔
-- رات کو جب بتی جائے تو گھر والوں کو اکٹھا کر لیں۔ اگر کھانے کا وقت نہ ہو تو گپ شپ کریں۔ ہر ایک سے باری باری پوچھیں کہ ان دنوں کیا ہو رہا ہے۔ جنھیں شکائت ہو کہ آپ انھیں کافی وقت نہیں دیتے، ان پر خاص توجہ دیں۔ حالات حاضرہ پر رائے پوچھیں۔ (لوڈ شیڈنگ کے بارے میں ہرگز نہیں کہ وہ دکھتی رگ کو چھیڑنا ہوگا!)
-- فون بک نکالیں اور ان دوستوں اور عزیزوں کو کال کریں، جن سے عرصہ سے بات نہیں ہوئی۔ وہ آپ کے بغیر کسی مقصد کے فون کرنے پر بڑے خوش ہوں گے۔ انھیں یہ ہرگز نہ بتائیں کہ آپ وقت گزاری کر رہے ہیں!
-- جب کرنے کو کچھ نہ ہو تو ٹیک لگا کر بیٹھ جائیں یا بستر پر لیٹ جائیں اور روزمرہ کے امور سے لے کر زندگی کے بنیادی سوالوں تک سب پر غور کریں۔ خاموشی اور اندھیرا ہوگا تو آپ سکون سے سوچ سکیں گے۔ انگریز مصنف، برنارڈ شا، نے کہا تھا، "جو شخص پورے ایک ہفتہ میں کسی موضوع پر صرف 15 منٹ لگاتار سوچے تو اسے فلسفی سمجھنا چاہیئے۔" ہفتہ میں جتنے گھنٹے بجلی جاتی ہے اس دوران غور و فکر کرتے رہیں تو آپ آسانی سے بڑے عظیم فلسفی بن سکتے ہیں! 
11 جولائی 2013

Friday, July 5, 2013

ریلوے کی اراضی بیچیں گے تو کیا ہوگا

معقول لوگ بھی بعض اوقات عقل سے عاری بات کرتے ہیں۔ آج کل ریلوے کے خسارہ کا بڑا چرچا ہے۔ کئی لوگ تجویز کر رہے ہیں کہ اسے ختم کرنے کے لیئے ریلوے کی اراضی بیچ دی جائے۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ آج کا خسارہ سابق ریلوے وزیر، حاجی غلام احمد بلور، اور ان کے ٹولہ کی بدعنوانیوں کی وجہ سے پیدا ہوا۔ عین ممکن ہے کہ کل کو اسی طرح کا کوئی اور ٹولہ آ جائے اور پھر سے اتنا ہی خسارہ پیدا کر دے۔ آج اگر اراضی بیچ دیں گے تو اس وقت کیا کریں گے؟ وہ وقت آنے پر جو کچھ کریں گے وہ ابھی کیوں نہ کیا جائے؟
ڈیڑھ سو سال پہلے جب ریلوے ہمارے ہاں بچھائی گئی تو اراضی کی قیمت برائے نام ہوتی تھی۔ چنانچہ اس وقت کی ضرورت سے کہیں زیادہ لے لی گئی تاکہ مستقبل میں مشکل نہ ہو۔ سوچ یہ تھی کہ نئی ضرورتیں ہمیشہ پیدا ہوتی رہیں گی اور انھیں پورا کرنے کے لیئے اراضی بھی درکار ہوگی۔
ریلوے کی اراضی بیچنے کی تجویز نئی نہیں۔ جب کبھی آمدنی سے اخراجات پورے نہ ہوتے، ریلوے کے وزیر اور افسر اراضی بیچنے کے لیئے سرگرم ہو جاتے۔ دعوی تو کرتے کہ خسارہ پورا کرنا چاہتے ہیں لیکن اصل مقصد کچھ اور ہوتا۔ اراضی کی مقررہ قیمت تو ہوتی نہیں۔ خریدار اپنی اسطاعت کے مطابق طے کرتا ہے۔ چنانچہ خریدار سے بڑی آسانی سے سودہ بازی کی جا سکتی اور ادا شدہ قیمت کے ساتھ خاصی رقم بطور رشوت مانگ لی جاتی، جس میں ہر ایک کا حصہ بقدر جثہ ہوتا۔ خوش قسمتی سے اکثر اوقات یا تو کوئی نہ کوئی بیچنے سے روک دیتا یا زیادہ رقبہ فروخت نہ ہو پاتا۔
بدعنوانی کی یہ شکل صرف ریلوے تک مخصوص نہ تھی۔ کسی زمانہ میں گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس چلا کرتی تھی۔ مقصد یہ تھا کہ ریلوے لائیں سے دور دیہات اور قصبات کے لوگ اس سے نزدیکی سٹیشن پہنچ جائیں اور وہاں سے گاڑی پکڑ لیں۔ ان کی سہولت کے لیئے کئی جگہوں پر بس اڈہ ریلوے سٹیشن کے ساتھ ہوتا۔
عرصہ تک نجی بس سروس بہت محدود تھی۔ ہر فرم کا اڈہ شہر ہی میں کسی جگہ ہوتا، جہاں سے چند بسیں چلتیں۔ مثلا، ْ1960 کی دہائی میں لاہور سے صرف دو فرموں کی بسیں سرگودھہ جاتیں۔ ایک فرم کی دن میں صرف دو بسیں چلا کرتیں۔ اس زمانہ میں بڑی سڑکیں بھی اتنی کم چوڑی ہوتی تھیں کہ صرف ایک بس چل سکتی۔ اگر دوسری طرف سے بھی کوئی آ جاتی تو دونوں کو ایک طرف کے پہیئے سڑک سے اتارنے پڑتے۔ کم بسیں چلنے کی ایک وجہ تو کم آبادی اور اس کی ٹرانسپورٹ کی کم ضرورت تھی اور دوسری پابندی کہ ہر روٹ کا پرمٹ حکومت سے لینا پڑتا۔ یہ رشوت کا ایک بڑا ذریعہ تھا۔ چنانچہ بارسوخ لوگ پرمٹ لے لیتے اور کمشن پر بس مالکوں کو دے دیتے۔ صدر ایوب خاں کے دور روٹ پرمٹ ختم کر دیئے گئے۔
دوسرے شعبوں کی طرح نجی ٹرانسپورٹ بھی لالچ کی بنیاد پر چلتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی دھن میں ناجائز حربوں سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ جب آبادی بڑھنے اور بیشتر سڑکیں زیادہ چوڑی ہونے سے زیادہ بسیں چلنے لگیں تو آپس میں بھی مقابلہ ہونے لگا اور گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس سے بھی۔ موخر الذکر سے مقابلہ کرنے کی بجائے سب مل کر اسے فیل کرنے میں لگ گئے۔ بدعنوانی، نااہلی اور کام چوری کے نتیجہ میں آخرکار سرکاری بس سروس بند کرا دی گئی۔ اسی پر بس نہ کیا گیا۔ اس کے اڈے بھی، جو شہروں کے مرکزی علاقوں میں تھے، رسوخ رکھنے والوں کے ہاتھ بیچ ڈالے گئے۔ اگر اڈے ہی باقی رکھے جاتے تو خود نجی بس والوں کو بڑا فائدہ ہوتا۔ سب انھیں استعمال کرتے، جس طرح سب ایئرلائین ایک ہی ہوائی اڈہ استعمال کرتی ہیں۔ انھیں شہر سے باہر بھی نہ نکالا جاتا۔ مسافروں کو بھی سہولت ہوتی۔ اب وہ جتنا کرایہ شہر سے باہر بس اڈہ تک دیتے ہیں اس سے کم میں دوسرے شہر پہنچ جاتے ہیں۔
جو بس سروس کے ساتھ ہوا، وہی پچھلی حکومت کے دور میں ریلوے کے ساتھ کیا گیا۔ ریلوے نجی بسوں سے تو اچھی طرح مقابلہ نہ کر سکتی لیکن اس کی مال گاڑیاں ٹرکوں سے کہیں کم خرچ، محفوظ اور تیز رفتار تھیں۔ چنانچہ حاجی بلور کچھ مسافر گاڑیاں تو جیسے تیسے چلاتے رہے لیکن مال گاڑیاں ساری کی ساری بند کر دیں۔ اس کے نتیجہ میں ظاہر ہے آمدنی بہت کم رہ گئی۔ حاجی صاحب کی ساری توجہ مختلف بہانوں سے حکومت سے زیادہ سے زیادہ رقوم اینٹھنے پر تھی۔ یہ خسارہ اب نئی حکومت کو ختم کرنا ہے۔ ضرورت ہے کہ اراضی بیچنے کی بجائے انجن مرمت کیئے جائیں، مال اور مسافر گاڑیاں کم از کم پہلے جتنی چلائی جائیں، بدعنوانی اور کام چوری روکی جائے اور اراضی بیچنے کا خیال سختی سے رد کر دیا جائے۔
مسئلہ کا حل یہ ہے کہ ریلوے کی اراضی پر جہاں کہیں ناجائز قبضہ ہے اسے ختم کیا جائے۔ جن افسروں کے ذ٘مہ یہ کام ہو ان کا بہانہ نہ سنا جائے کہ ناجائز قابضین مزاحمت کرتے ہیں یا عدالتوں نے حکم امتناعی دے رکھا ہے۔ اس عذر لنگ کا سہارا وہ لیتے ہیں، جو خود رشوت لے کر ناجائز قبضہ کراتے ہیں اور پھر اسے برقرار رکھتے ہیں۔ ریلوے سپریم کورٹ سے حکم جاری کرائے کہ کوئی عدالت کسی ناجائز قابض کو حکم امتناعی نہ دے۔ اس کے برعکس جو مزاحمت کرے اس سے سختی سے نپٹا جائے اور اسے قانون کے تحت سزا دی جائے۔ جو اراضی واگزار کرا لی جائے یا اس وقت استعمال میں نہیں ہے اسے پارکوں میں تبدیل کر دیا جائے تاکہ اس پر عوام کھلی فضا میں سانس لیں۔
زمین کی ضرورت دو قسم کی ہو سکتی ہے۔ اول، ریلوے اپنے ملازموں کے لیئے تین چار منزلہ فلیٹ بنائے اور انھیں برائے نام کرایہ پر دے۔ اس طرح بننے والی کالونی میں موجودہ ملازموں کی سبکدوشی پر نئے آنے والے ملازموں کو بھی رہائش ملتی رہے گی۔ دوسرے، کالونی میں ملازمین کے لیئے فلاحی ادارے بنائے، جیسے ہسپتال اور سکول۔
ریلوے کی زمین پر عمارتیں بنائی جائیں، جن میں مرکزی اور صوبائی حکومتیں اپنے دفاتر بنا سکیں، جو اس وقت شہر بھر میں بکھرے ہیں اور اپنی جگہ نہ ہونے کی بنا پر کرایہ کے گھروں میں بنائے گئے ہیں۔ ریلوے ان کا کرایہ وصول کرے۔ جب ان عمارتوں کی لاگت پوری ہو جائے تو مستقل آمدنی کا ذریعہ بن جائے گا۔
سیاسی طالع آزمائوں کو روکنے کے لیئے قانون بنایا جائے کہ ریلوے کی اراضی کہیں بھی، کبھی بھی، کسی کو بھی نہیں بیچی جائے گی۔ اگر خدشہ ہو کہ قانون کافی نہیں یا حاجی بلور جیسا وزیر اس میں کسی بھی وقت من مانی سے ترمیم کرا لے گا، تو آئین میں ترمیم کرنی ہوگی۔
اگر آئین میں ترمیم کی نوبت آئے تو پابندی لگا دی جائے کہ کسی بھی قسم کی سرکاری اراضی، شہری ہو یا دیہی، زرعی ہو یا غیرزرعی، کسی بھی حالت میں کسی کو بھی فروخت کرنے اجازت نہ ہو۔ اراضی ریاست کی ملکیت ہوتی ہے اور حکومت اس کی امین ہوتی ہے۔ اسے صرف اجتماعی مفاد کے لیئے استعمال ہونا چاہیئے، کسی فرد یا ادارہ کے فائدہ کے لیئے نہیں۔
7 جولائی

احترام رمضان کا قانون کیوں منسوخ ہونا چاہیئے

میرے ایک عزیز دوست کو پڑھنے لکھنے کے سرکاری کام کے لیئے میری مدد کی ضرورت پڑی۔ رمضان کے دن تھے۔ ایک دن ان کا اردلی کئی لنچ بکس اٹھائے میرے کمرہ میں داخل ہوا۔ جونھی اس کی نظر مجھ پر پڑی، الٹے پائوں لوٹ گیا اور باس سے کہا، "سر، اس کمرہ میں حمید صاحب بیٹھے ہیں۔ ان کا تو روزہ ہوتا ہے۔"
باس نے سمجھایا، "ان کا روزہ دوسروں کو کھاتے پیتے دیکھ کر مکروہ نہیں ہوتا ۔ اسی لیئے تمھیں وہاں لے جانے کے لیئے کہا تھا۔" تھوڑی دیر میں وہ اور چند افسر میرے کمرے میں آ گئے۔ وہ لنچ کرتے رہے اور میں گپ شپ کرتا رہا۔
سیدھی بات تھی کہ کسی کو کھاتے پیتے دیکھ کر میرا دل کیوں خراب ہو؟ جب میں نے طے کر لیا کہ سحر سے افطار تک کچھ نہیں کھانا پینا تو پھر میرا فیصلہ کسی کو کچھ کھاتے دیکھ کر کیوں کمزور ہو؟ روزہ تو برداشت سکھاتا ہے۔ اگر اتنی بھی برداشت نہیں تو مجھے روزہ رکھنا ہی نہیں چاہیئے۔ اگر کسی ریستوران میں پردہ کے پیچھے کچھ لوگ کھانا کھا رہے ہیں یا کوئی کھانے پینے کی چیزیں خرید کر گھر لے جا رہا ہے تو مجھے کیوں اعتراض ہو؟
روزہ کی طرح نماز بھی فرض ہے۔ اگر کوئی مسجد میں جا کر نماز ادا کرتا ہے لیکن دیکھتا ہے کہ بیشتر لوگ نہیں جا رہے بلکہ بہت سے تو اذان کے دوران نہ رکتے ہیں اور نہ ہی خاموش رہتے ہیں تو کیا اس کا مطالبہ جائز ہوگا کہ ان سب کو کوڑے مارے جائیں یا جرمانہ کیا جائے؟ افغانستان میں طالبان کے ایک لیڈر نے کہا، "ہم نے عبادات میں بہت سختی کی، جس کے نتیجہ میں لوگوں کی حمائت کھو بیٹھے اور ہماری حکومت کا خاتمہ آسان ہو گیا۔"
صدر ضیاء الحق نے سطحی سوچ رکھنے والوں کے مطالبہ پر احترام رمضان کا قانون نافذ کر دیا۔ لوگ اس سے پہلے بھِی سرعام کھانے پینے سے گریز کیا کرتے تھے۔ قانون نے صرف یہ کیا کہ بہت سے لوگوں کے لیئے مشکل پیدا کر دی۔
نتیجہ یہ ہوا کہ ریستوران اور کھانے پینے کی دکانیوں سے وابستہ لاکھوں لوگ ایک مہینہ کے لیئے بے روزگار ہو گئے۔ دوسرے، قیمتیں چڑھ گئیں کیونکہ دکانداروں نے سارے دن کی بجائے صرف سحر اور افطار کے وقت فروخت سے آمدنی میں کمی پوری کرنی ہوتی۔ تیسرے، قانون کے نفاذ کے باوجود روزہ داروں کی تعداد میں اضافہ نہ ہوا۔ جو کسی شرعی عذر یا کسی اور وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتے وہ بدستور دوپہر کو کھانا کھاتے رہے۔ چوتھے، قانون کے نفاذ کے بعد رشوت لینے کا ایک اور موقع پیدا ہو گیا۔
آرڈیننس کا خلاف آئین ہونا بڑی بات نہیں کیونکہ آئین ہمارا ہی بنایا ہوا ہے اور ہم اس میں جب چاہیں ترمیم کر سکتے ہیں (اور کرتے رہتے ہیں)۔ لیکن اس کا خلاف اسلام ہونا یقینا تشویش ناک ہے۔ ہمارے دین میں جبر نہیں۔ ہمیں خوش خلقی سے راہ راست پر لانے کا حکم ہے۔ ایک دفعہ امام حسن نے دیکھا کہ ایک بدو غلط طریقہ سے وضو کر رہا ہے۔ انھوں نے اسے ڈانٹنے اور شرمندہ کرنے کی بجائے کہا، "آپ بزرگ ہیں۔ آپ کو زیادہ علم ہوگا۔ میں وضو کرتا ہوں۔ اگر کوئی غلطی ہو تو بتا دیں۔" بدو خاموشی سے دیکھتا رہا اور صحیح طریقہ سیکھ لیا۔
احترام رمضان قانون میں ہے کیا؟ آئیں دیکھیں کہ آرڈینینس کی مختلف دفعات کس قدر ناقص اور ناقابل عمل ہیں۔
دفعہ 2 میں "پبلک پلیس" کی تعریف میں ہوٹل ریستوران، کینٹین، گھر، کمرہ، خیمہ، احاطہ، ذیلی سڑک، پل اور ایسی جگہیں، جس تک پبلک کی رسائی ہو، شامل کیا گیا ہے۔ کیا گھر اور کمرہ بھی عام لوگوں کی رسائی کی جگہیں ہو سکتی ہیں؟
دفعہ 3 کے مطابق روزہ کے اوقات میں کسی شخص کے پبلک پلیس میں کھانے پینے ہی نہیں، سگرٹ پینے پر بھی پابندی ہوگی، بشرطیکہ شریعت کے مطابق اس پر روزہ فرض ہو۔ کون طے کرے گا کہ کھانے پینے والے پر روزہ فرض ہے یا نہیں؟ کوئی وضاحت نہیں۔
دفعہ 5 کے تحت ہسپتال، ریلوے سٹیشن، ریل گاڑی، ہوائی اڈہ، ہوائی جہاز، بندرگاہ اور بس اڈہ پر پابندی نہیں ہے۔ کیا بس، ویگن، یا کسی اور موٹر گاڑی میں کھانے پینے کی اجازت ہے؟ وضاحت نہیں۔
دفعہ 6 کے تحت سینما، تھیئٹر اور ان جیسی جگہیں افطار کے بعد تین گھنٹے تک بند رہیں گی۔ کیا اس طرح فلم یا ڈرامہ دیکھنے والے تراویح کے لیئے چلے جائیں گے؟ اگر وہ ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ جائیں تو کیا تمام چینل تین گھنٹے  کے لیئے بند کر دیئے جائِیں؟
دفعہ 7 کے تحت اگر شک ہو کہ قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہے توپبلک پلیس  میں داخل ہونے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو گرفتار کرنے کی اجازت ان افراد کو ہے: میجسٹریٹ، ضلع کونسل، میونسپل کمیٹی یا ٹائون کمیٹی کا چیئرمین، میونسپل کارپوریشن کا میئر، زکات و عشر کمیٹی کا چیئرمین یا رکن۔ انتظامی میجسٹریٹ کا عہدہ ختم ہونے کے بعد اب جوڈیشنل میجسٹریٹ صرف عدالتی کاروائی کر سکتا ہے۔ اسے موقع پر کسی کو گرفتار کرنے کا اختیار نہیں۔ مقامی حکومتوں کے نظام کے 2001 میں نافذ ہونے کے بعد سے دوسرے تمام عہدے ختم ہو چکے ہیں۔ صرف زکات و عشر کی کمیٹیاں رہ گئی ہیں۔ اب گرفتاری کا اختیار کس کے پاس ہے؟
دفعہ 8 کے تحت کوئی عدالت کاروائی نہیں کرے گی جب تک گرفتاری کا اختیار رکھنے والا تحریری شکائت نہ کرے۔
حیران کن امر یہ ہے کہ پولیس کو کسی پبلک پلیس میں داخل ہونے یا کسی کو گرفتار کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا۔ جس تھانہ میں گرفتاری کا اختیار رکھنے والا کسی خلاف ورزی کرنے والے کو لے کر آئے۔ وہاں کا صرف تھانیدار عدالت میں 24 گھنٹے میں شکایت درج کرا سکتا ہے۔
دفعہ 9(2) میں کہا گیا ہے کہ دفعہ 5 کے تحت کینٹین، ریستوران اور ڈائیننگ کار میں روزہ کے اوقات میں کھانے پینے کی اشیا اور سگرٹ دینے کی اجازت ہے، بشرطیکہ پردہ کا انتظام کیا گیا ہو تاکہ لوگوں کی نظر نہ پڑے۔ جب پردہ کی اجازت ہے تو پابندی کا مطلب؟
کیا یہ قانون قرآن و سنت کے مطابق ہے؟ آئین کی دفعہ 227 کے مطابق تمام موجودہ قوانین کو اسلامی تعلیمات کے مطابق بنایا جائے گا، جیسا کہ قرآن مجید اور سنت میں صراحت کی گئی ہے اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی نیا قانون بنایا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی نظریاتی کونسل سے اس آرڈینینس کی منظوری لی گئی، نافذ کرنے سے پہلے یا بعد میں؟ کیا یہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے؟
آرڈیننس اب بے معنی ہو چکا ہے۔ اس میں وضاحت نہیں کہ کون طے کرے گا کہ روزہ رکھنا کس پر فرض ہے، گھر اور کمرہ میں کھانے پینے پر پابندی ہو، سینما اور تھیئٹر پر افطار کے بعد بھی تین گھنٹے بند رکھنے کی پابندی ہو۔ قانون کا نفاذ ممکن نہیں رہا کیوں کہ گرفتاری کا اختیار رکھنے والے تمام عہدیدار ختم ہو چکے ہوں، ۔ تو کیوں نہ اسے منسوخ کر دیا جائے؟
یقین رکھیں قانون منسوخ ہونے کے باوجود لوگ رمضان کا احترام کرتے رہیں گے، جیسے صدیوں سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ صرف یہ ہوگا کہ بہت سے لوگوں کی پریشانی ختم ہو جائے گی اور بہت سوں کا روزگار چلتا رہے گا۔ سب سے بڑی بات یہ ہوگی کہ منافقت ختم ہو جائے گی۔ اسلام میں منافقت حرام ہے، فرض نہیں۔
3 جولائی
THE EHTRAM-E-RAMAZAN ORDINANCE, 1981
(XXIII OF 1981)
CONTENTS
1. Short title, extent and commencement
2. Definition
3. Prohibition of eating, etc, in public places
4. Prohibition of serving eatables in certain public places
5. Exemptions
6. Cinema-houses, theatres, etc., to remain closed during Ramazan
7. Power to enter and arrest
8. Cognizance of offences and procedure
9. Power to make rules
10. Ordinance to override other laws
TEXT THE EHTRAM-E-RAMAZAN ORDINANCE, 1981
(XXIII OF 1981)
[25th June, 1981]
An Ordinance
to provide for measures observe the sanctity of the month of Ramazan
Preamble.— Whereas, in view of the tenets of Islam, it is necessary to provide for measures to observe the sanctity of the month of Ramazan;
And whereas the President is satisfied that circumstance exist which render it necessary to take immediate action;
Now, therefore, in exercise of the powers conferred by Article 89 of the Constitution, read the Provisional Constitution Order, 1981 (C.M.L.A. Order No. 1 of 1981), the President is pleased to make and promulgate the following Ordinance:-
1. Short title, extent and commencement.— 1) This Ordinance may be called the Ehtrame-Ramazan Ordinance, 1981.
(2) It extends to the whole of Pakistan.
(3) It shall come into force at once.
2. Definition.— In this Ordinance, unless there is anything repugnant in the subject or context, “public place” include any hotel, restaurant, canteen, house, room, tent, enclosures, road lane, bridge or other place to which the public have access.
3. Prohibition of eating, etc, in public places.— (1) No person who, according to the tenets of Islam, is under an obligation to fast shall eat, drink or smoke in a public place during fasting hours in the month of Ramazan.
(2) Whoever contravenes the provisions of sub-section (1) shall be punishable with simple imprisonment for a term which may extend to three months, or with fine which may extend to five hundred rupees, or with both.
4. Prohibition of serving eatables in certain public places.— No proprietor, manager, servant, or other person in charge of a hotel, restaurant or canteen, or other public place, shall knowingly and willfully offers or serve or cause to be offered or served any eatable during fasting hours in the month of Ramazan to any person who, according to the tenets of Islam, is under an obligation to fast.
(2) Whoever contravenes the provisions of sub-section (1) shall be punishable with simple imprisonment for a ten which may extend to three months, or with fine which may extend to five hundred rupees, or with both.
5. Exemptions.— Nothing contained in section 4 shall apply in respect of --
(a) a canteen or kitchen maintained in a hospital for serving food to patient;
1[(b) A restaurant, or canteen, stall or wheel-barrow, or the holder of vending contract, within the premises of a railway station or in a train or a restaurant or canteen within the premises of an airport, seaport, or bus stand or in an aircraft;]
(c) A kitchen or dining-car of a train; or
(d) a kitchen or canteen meant for children within the premises of a primary school.
6. Cinema-houses, theatres, etc., to remain closed during Ramazan.—
(1) All cinema-houses, theatres and similar other establishments or institutions shall remain closed during the month of Ramazan from the time of sunset to the expiration of three hours thereafter.
(2) If the proprietor, manager, servant or other person in charge of a cinema-house, theatre or similar other establishment or institution contravenes the provisions of sub section (1), he shall be 1 Clause (b) Subs. by the Ehtram-e-Ramzan (Amendment), XXIX of 1981. punishable with imprisonment for a term which may extend to six months, or with fine which may extend to five thousand rupees or with both.
7. Power to enter and arrest.— 1)any Magistrate, the Chairman of a District Council or a Municipal Committee or a Town Committee, the Mayor of a Municipal Corporation, or the Chairman or a member of a District Zakat and Ushr Committee has reason to believe that any offence punishable under may enter the public place and arrest such person.
(2) Where the Magistrate arresting any person under sub-section. (1) is for the time being empowered to try in a summary way the offences specified in sub-section (1) of section 260 of the Code of Criminal Procedure, 1898 (Act V of 1898), such Magistrate may try such person at the place where lie is arrested in accordance with the provisions contained in sections 262 to 265 of the said Code.
8. Cognizance of offences and procedure.— (1) Save as provided in sub section (2) of section 7 no court shall take cognizance of any offence punishable under this Ordinance except on a complaint in writing made by a person authorized to arrest under sub section (1) of that section or by the officer in charge of the police station in whose jurisdiction the offence is alleged to have been committed.
(2) Any Magistrate empowered for the time being to try in a summary way the offences specified in sub section (1) of section 260 of the Code of Criminal Procedure, 1898 (Act V of 1898) may try any offence punishable under the Ordinance in accordance with the provisions contained in sections 262 to 265 of the said Code.
(3) The officer in charge of the police station to which a person arrested is forwarded under sub section (3) of section 7 shall make a complain to a Magistrate within twenty four hours to the time on which such person is brought to the police station.
(4) The trial of an offence punishable under this Ordinance shall be taken up on a priority basis and shall be concluded as expeditiously as may be administratively possible.
9. Power to make rules.— (1) The Federal Government may make rules for carrying out the purposes of this Ordinance.
(2) In particular and without prejudice to the generality of the foregoing provisions such rules may provide that in a canteen restaurant or dining car referred to in clause (1), (b), (c) or (d) of section 5 eatables or articles of smoking shall only be served at a place protected form public view by means of a curtain or otherwise and specify the classes of persons who may be admitted to any such canteen, restaurant, or dining car during fasting hours in the month of Ramazan.
(3) A person contravening any rule made under sub section (1) shall be deemed to be guilty of an offence punishable under section 4 and shall be punishable accordingly.
10. Ordinance to override other laws.— The provisions of this Ordinance shall have effect،notwithstanding anything contained in any other law for the time eing in force.