Monday, July 15, 2013

نکلنا چاند کا سنتے تھے لیکن ۔ ۔ ۔

رمضآن کی 29 تھی۔ میں کولمبو میں ایک بڑے سرکاری افسر کے پاس تھا۔ ہماری گفتگو ابھی ختم نہ ہوئی تھی کہ دفتر بند ہونے کا وقت ہو گیا۔ میں نے کہا، "ہو سکتا ہے کل عید ہو جائے۔ اس لیئے باقی گفتگو پرسوں کریں گے۔" "نہیں، کل بھی ملاقات ہو سکتی ہے۔ عید پرسوں ہوگی۔" مجھے حیران دیکھ کر انھوں نے وضاحت کی کہ کیسے انھیں علم ہے کہ عید پرسوں ہی ہوگی۔
ہمارے ہاں تو چودھویں کا چاند صرف رخ زیبا سے تشبیہ کے لیئے ہوتا ہے لیکن بدھ مت میں اس کا بڑا تقدس ہے۔ چاند کی چودھویں کو یوم پویہ کہتے ہیں۔ اس دن عبادت کی جاتی ہے۔ چنانچہ سارے ملک میں چھٹی ہوتی ہے۔ یہ چھٹی ہر ماہ ہوتی ہے۔ سال کے شروع ہی میں بارہ مہینوں کے پویہ دنوں کی تاریخیں دے دی جاتی ہیں۔ چونکہ لنکا کی 85 فی صد آبادی بودھ ہے، اس لیئے ان تاریخوں کا بالکل صحیح ہونا لازمی ہے۔ اگر غلطی ہو جائے تو حکومت کے لیئے بڑا مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ چونکہ عیدین پر بھی سرکاری چھٹی ہوتی ہے۔ اس لیئے ان کی تاریخوں کا بھی پہلے سے ہی اعلان کر دیا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں بھی عرصہ تک حکومت کی طرف سے عیدین، محرم، وغیرہ کی چھٹیوں کا اعلان سال کے شروع ہی میں کر دیا جاتا تھا۔ تاہم اتمام حجت کے لیئے کیلنڈر کے نیچے نوٹ دے دیا جاتا تھا کہ چھٹی کا انحصار چندا نظر آنے پر ہے۔ ہوتا یہ تھا کہ چھٹیوں کی تاریخیں طے کرنے سے پہلے ماہرین فلکیات سے معلوم کر لیا جاتا کہ چاند کس کس تاریخ کو دکھائی دے گا۔
کہتے ہیں نہ ہلے کو ہلائو مت اور ہلے ہوئے کو چھڑائو مت۔ ہمارے حکمرانوں کو پہلا حصہ یاد نہ رہا اور اب دوسرے حصہ پر عمل کرنا مشکل لگتا ہے۔ وزیر مذہبی امور، مولانا کوثر نیازی، نے وزیر اعظم بھٹو سے کہہ کر علما کو ایسے کاموں پر لگا دیا، جن سے ان کی انا کی تسکین ہوتی تھی۔ پہلے 1974 میں احمدیوں کو غیرمسلم قرار دیئے جانے کے بعد علما کو اختیار دیا گیا کہ وہ سعودی عرب جانے والوں کو مسلمان ہونے کا تصدیق نامہ دیا کریں اور اس کی فیس لیا کریں۔ بہت سوں کو رویت ہلال کمیٹیوں میں شامل کر کے چاند دیکھنے پر لگا دیا گیا۔ یہ کمیٹیاں نہ صرف صوبوں بلکہ اضلاع میں بھی بنائی گئیں۔
جب علما چاند کمیٹیوں میں شامل ہو گئے تو اپنے پیر مضبوط کرنے لگے۔ امریکی تو صرف چاند پر چہل قدمی پر اتراتے ہیں لیکن ہمارے چاند دیکھنے والے علما میں اتنی اہلیت ہے کہ وہ چاہیں تو چاند کو افق پر نظر آنے سے پہلے ہی دیکھ لیں۔ بلکہ چاہیں تو نئے چاند کو دو مختلف دنوں میں نکلا ہوا ثابت کر دیں۔ اس معاملہ میں صوبہ خیبر کے علما پوری صوبائی خودمختاری استعمال کرتے ہیں۔ بلکہ کچھ سال پہلے صوبائی اسمبلی نے قرارداد منظور کر دی کہ مرکزی روئت ہلال کمیٹی ہی توڑ دی جائے۔ کھیلن کو مانگے چاند۔
چاند کا دیکھنا بھی اپنی جگہ کمال دید ہے۔ 2006 میں سرحد کے صوبائی وزیر مذہبی امور، امان اللہ حقانی، نے کہا کہ 40 افراد نے عید کا چاند دیکھا۔ وہ کیسا چاند ہوگا، جسے صوبہ کے 20 ملین سے زیادہ لوگ نہ دیکھ پائے؟ یہ کوئی برقع پوش چاند چہرہ ہوگا، جس نے 40 نیک پاک افراد کے دروازے باری باری کھٹکھٹائے، ہر ایک کو اپنا چہرہ چند لمحوں کے لیئے دکھایا اور آگے بڑھ گیا۔ (اس سے پہلے اس نے معلوم کرلیا ہوگا کہ وہ سب افراد شرعی طور پر چاند کی گواہی دینے کے اہل ہیں۔)
مرکزی روئت ہلال کمیٹی بھی عینک اور دوربین سے چاند ایسے دیکھتی ہے جیسے چاند دیکھنا نہ ہوا تلاش گمشدہ ہوگئی۔ وہ چاند کیا ہوا جو کروڑوں لوگوں میں سے صرف کمیٹی اور چند گواہوں ہی کو نظر آئے۔
کمیٹی نے اس دفعہ پہلے روزہ کا اعلان غروب آفتاب کے تقریبا دو گھنٹے بعد کیا۔ ہمارے ہاں موبائل فون کنیکشن کل آبادی کے دوتہائی کے برابر ہیں۔ چنانچہ دوردراز علاقوں سے بھی چند منٹ میں اطلاع مل جاتی ہے۔ کمیٹی کیوں اتنی دیر انتظار کرتی رہی؟ اسے کیوں احساس نہ ہوا کہ اس نے سارے ملک کو انتظار کی سولی پر لٹکایا ہوا ہے؟
سوال یہ ہے کہ صرف چاند دیکھ کر ہی روزہ رکھنے اور افطار کرنے پر کیوں زور  دیا جاتا ہے؟ یہ بھی تو قرآن مجید میں کہا گیا ہے کہ سحر میں کالے اور سفید دھاگے کا فرق نظر آنے تک کھا پی سکتے ہیں۔ کیا ایسا کیا جاتا ہے؟ افطار سورج غروب ہونے پر کرنا ہوتا ہے۔ کیا چھت پر جا کر سورج کو ڈوبتے ہوئے دیکھا جاتا ہے؟
گھڑی دیکھ کر صرف سحر اور افطار ہی نہیں کیا جاتا۔ نمازوں کے اوقات بھی اسی طرح طے کیئے جاتے ہیں۔ اس طرح اوقات کیوں نہیں مقرر کیئےجاتے، جیسے ہزار بارہ سو سال پہلے گھڑیوں کے بغیر کیئے جاتے تھے؟
اگر ہم ہجری کیلنڈر اپنانا چاہیں تو پہلی تاریخ طے کرنے کے لیئے ہر ماہ کی 29 تاریخ کو چاند دیکھنے سے کام نہیں چلے گا۔ جن عرب ملکوں میں ہجری کیلنڈر استعمال ہوتا ہے، وہاں کوئی روئت ہلال کمیٹی نہیں ہوتی۔ علم فلکیات سے نہ صرف نئے چاند کا بلکہ اگلے ہزار سال کے تمام قمری مہینوں کی پہلی تاریخ معلوم کی جا سکتی ہے۔
جو علما اصرار کریں کہ صرف آنکھ سے دیکھنے پر ہی چاند کا فیصلہ ہونا چاہیئے، حکومت ان کی مسجدوں میں کلاک اور سپیکروں کے استعمال پر پابندی لگا دے۔ وہ پرانے طریقوں سے نمازکے اوقات طے کیا کریں۔ موذن مینار پر چڑھ کر آذان دیا کرے۔ (مینار اذان ہی کے لیئے بنائے جاتے تھے۔) بجلی بھی کاٹ دی جائے تاکہ روشنی کے لیئے تیل کے چراغ جلائے جائیں۔ حج اور عمرہ کے لیئے ان کے قافلے اونٹوں اور گھوڑوں پر ایران اور عراق کے راستے جایا کریں۔ ان پابندیوں کے بعد ان علما کا آنکھوں سے چاند دیکھنے پر اصرار ختم ہو جائے گا۔
مسئلہ کا حل یہ ہے کہ حکومت تمام روئت ہلال کمیٹیاں توڑ دے۔ کوئی قیامت نہیں ٹوٹے گی۔ چند روز اخباروں میں بیانات شائع ہوں گے۔ جمعہ کی نماز پڑھ کر نکلنے والوں کو احتجاجی مظاہرین کا نام دیا جائے گا۔ اس کے بعد مسئلہ ختم ہو جائے گا۔ عوام سکھ کا سانس لیں گے۔
اگلے قدم کے طور پر حکومت ہر سال کے شروع ہی میں ماہرین کے مشورے سے نہ صرف رمضان و عیدین بلکہ تمام قمری مہینوں کی تاریخوں کا اعلان کر دیا کرے۔ ٹیلی ویژن چینلوں اور اخبارات کو سختی سے تاکید کر دی جائے کہ وہ چاند کے بارے میں صرف سرکاری اعلان نشر کیا کریں۔ سرکاری اعلان کے خلاف اگر کوئی عید کی نماز بھی پڑھائے تو اس کی خبر نہ دی جائے۔ دہشت گردوں کی طرح فساد فی الدین پیدا کرنے والے بھی انا کی تسکین کے لیئے پبلسٹی چاہتے ہیں۔ یہ انھیں نہیں ملنی چاہیئے۔
آخر میں ایک لطیفہ:
"ہمارے کس علاقہ کے لوگوں کی نظر سب سے تیز ہے؟"
"خیبر پختون خوا کے چاند دیکھنے والے علما کی۔"
"وہ کیسے؟"

"وہ رمضان اور عید کا چاند باقی ملک سے ایک دن پہلے ہی دیکھ لیتے ہیں۔"
15 جولائی 2013

No comments:

Post a Comment