Sunday, August 11, 2013

سڑکیں ہو جائیں سونی --- کس کے لیئے؟

مشہور لوک داستان کی صاحباں چاہتی تھی کہ گلیاں سنسان ہو جائیں تاکہ بگی گھوڑی پر سوار مرزا یار بلا کسی رکاوٹ کے اس کے پاس آ سکے۔ کچھ اسی طرح کی خواہش کار والوں کی بھی ہے۔ وہ بھی چاہتے ہیں کہ سڑکوں پر صرف کاریں ہی ہوں تاکہ فراٹے بھرتی ہوئی آ جا سکیں۔
سڑکیں کاروں کے لیئے نہیں بنی تھیں۔ ان پر زیادہ تر بگیاں، ٹانگے اور بیل گاڑیاں چلتی تھیں۔ کہتے ہیں نواز شریف نے جب لاہور سے راولپنڈی اور پھر آگے پشاور تک موٹروے بنانے کا فیصلہ کیا تو کسی خوشامدی نے کہا، "میاں صاحب آپ کا کارنامہ تو شیر شاہ سوری سے بھی بڑا ہے۔" انھوں نے پوچھا، "اس نے کیا کیا تھا؟" "اس نے ہندوستان کی سب سے بڑی سڑک بنائی۔" "اس کی لمبائی کتنی تھی؟" تقریبا ڈھائی ہزار کلومیٹر۔" میاں صاحب مسکرائے اور کہا، "پھر تو اس نے بڑا مال بنایا ہوگا!"
شیر شاہ سوری سے پہلے بھی سڑک موجود تھی اور کابل سے چٹاگانگ تک جاتی تھی۔ اس نے اسے نئے سرے سے بنوایا۔ انگریزوں نے اس کا نام "گرانڈ ٹرنک روڈ" رکھا۔ ہمارے ہاں اب بھی اسے "جی۔ ٹی۔ روڈ" کہتے ہیں، حالانکہ اب یہ لاہور سے کراچی کی طرف مڑ جاتی ہے اور اسے "شاہراہ پاکستان" کہتے ہیں۔اس کا سرکاری نام "نیشنل ہائی وے، این-5" ہے۔ ہندوستان میں بھی اسے سرکاری طور پر "نیشنل ہائی وے" ہی کہا جاتا ہے۔ گویا اب "جی۔ ٹی۔ روڈ" صرف تاریخ کا حصہ ہے۔
جب درمیانی طبقہ کی آمدنی بڑھی تو کار نے پر پرزے نکالے اور دوسری سواریوں کے پر کاٹے جانے لگے۔ ٹانگہ شہر کے مضافات تک محدود کر دیا گیا۔ کراچی میں گھوڑا گاڑی یا وکٹوریہ ختم ہو گئی۔ اسلام آباد میں تو رکشہ بھی ممنوع ہے۔ وزیر اعظم شوکت عزیز کے دور میں شرح سود اتنی کم کر دی گئی کہ کاریں لیز یعنی قسطوں پر لینا آسان ہو گیا۔ چنانچہ ان کا ہجوم ہونے لگا۔ جو سڑکیں سست رفتار گاڑیوں کو نکالے جانے کے بعد کھلی کھلی لگنے لگی تھیں ایک بار پھر تنگ محسوس ہونے لگیں۔ اس پر ٹریفک کی روانی کے نام پر کار والوں کے لیئے بہت کچھ ہونے لگا۔ سڑکیں چوڑی ہونے لگیں۔ ٹریفک کے اشارے کم سے کم کیئے جانے لگے۔ سڑک کو دو حصوں میں تقسیم کے لیئے بنائی گئی رکاوٹ میں کٹ کم سے کم کر دیئے گئے۔ سڑکوں پر، بقول "حسب حال" کے عزیزی، "پل اگ آئے ہیں۔" کہیں سڑک کے اوپر سے سڑک گزر رہی ہے اور کہیں نیچے سے۔
کاروں کی تعداد مسلسل بڑھتی رہی تو وہ وقت آ جائے گا، جو دنیا کے کئی شہروں میں آ چکا ہے۔ کہیں پابندی ہے کہ کار کے رجسٹریشن نمبر کا آخری ہندسہ جفت ہے تو ایک دن گاڑی سڑک پر نہ لائیں اور طاق ہے تو اگلے دن گھر پر رکھیں۔ بعض شہروں کے مرکزی حصوں میں داخلہ کے لیئے ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ بعض جگہوں پر کاروں کا داخلہ ہی بند ہے۔ جگہ جگہ پارکنگ بنا کر میٹر لگا دیئے گئے ہیں۔
یہ سب عارضی حل ہیں۔ ہمیں اس حال تک پہنچنے سے پہلے ہی مستقل حل اپنا لینے چاہیئیں۔ ان میں سے چند یہ ہوں گے:
اول، تمام بڑی سڑکوں کو ایک ہی دفعہ اتنا چوڑا کر دیا جائے کہ ان کی دونوں طرف چپہ برابر یا ایک مربع سنٹی میٹر جگہ بھی کچی نہ رہے۔ وہ زمانہ لد گیا جب سڑکوں کے کنارے چھڑکائو کیا جاتا تھا۔ چنانچہ اب جب کسی گاڑی کا بائیں طرف والا پہیہ کچہ پر اترتا ہے تو گرد کا غبار چاروں طرف چھا جاتا ہے۔ سڑک کو تھوڑا تھوڑا چوڑا کرنا ترک ہونا چاہیئے، کیونکہ اس سے صرف ٹھیکیداروں اور ان سے رشوت لینے والے سرکاری عملہ کو فائدہ ہوتا ہے۔
دوم، ہر بڑی سڑک کے دونوں طرف فٹ پاتھ بنائے جائیں۔ ان پر اگر تہ بازاری، چھابڑی یا کوئی اور تجاوز ہو تو ٹریفک وارڈن کو سزا دی جائے۔ اسی صورت میں پیدل چالنے والے فٹ پاتھ استعمال کر پائیں گے۔
سوم، ہر بڑی سڑک پر فٹ پاتھ کے ساتھ والی لین پبلک ٹرانسپورٹ کے لیئے مخصوص کر دی جائے۔ عام طور پر سڑک پر لین کی نشاندہی ٹوٹی ہوئی چوڑی لکیر سے کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ گاڑی اشارہ دے کر دوسری لین میں جا سکتی ہے۔ جب پٹی سالم ہو تو اس لین میں دوسری لین والا داخل نہیں ہو سکتا۔ ایسی ہی سالم پٹی پبلک ٹرانسپورٹ والی لین کو علیحدہ کرے۔ اس لین میں صرف بسیں اور ویگنیں چلیں۔ سامنے کوئی اور گاڑی نہ ہونے سے ان کی رفتار تیز ہو سکے گی اور ساتھ والی لین میں کاروں کا رستہ بھی نہیں رکے گا۔
چہارم، کارساز کمپنیوں کو تین پہیوں اور دو سیٹوں والی کاریں بنانے کے لیئے کہا جائے اور ان پر ہر قسم کے ٹیکسوں سے استثنا دیا جائے۔ یہ کاریں بیشتر ضرورتوں کے لیئے 800 سی سی والی کاروں کی جگہ لے لیں گی۔ چھوٹی باڈی کی بنا پر ان کی لاگت رکشہ کے لگ بھگ برابر ہوگی۔ پٹرول کی کھپت بھی بہت کم ہوگی۔ اگر ہماری زندگی میں بجلی سستی ملنے لگی تو انھیں بیٹری سے بھی چلایا جا سکے گا۔
پنجم، کار خریدنے سے پہلے اجازت نامہ ضروری قرار دیا جائے۔ حکومت طے کر لے کہ ہر ضلع میں سال بھر میں کتنی نئی کاروں کو سڑکوں پر آنے دیا جائے گا۔ مثلا، شہر میں جتنی کاریں چل رہی ہوں ان کی پانچ فی صد کے برابر نئی کاروں کی اجازت دی جائے۔ یہ پرمٹ پرکشش رجسٹریشن نمبروں کی طرح نیلام کیئے جائیں۔ اس طرح کاروں کی مانگ کم ہو جائے گی۔ کاریں بنانے والے پابندی پر احتجاج کریں گے۔ ان سے کہا جائے کہ اپنی کوالٹی اور قیمت عالمی معیار پر لا کر کاریں دوسرے ملکوں کو برامد کریں۔

ان تمام تجویزوں پر پوری طرح عمل سے سڑکیں پھر سے سونی تو نہیں ہوں گی البتہ ان پر ٹریفک خاصہ کم ہو جائے گا۔ رہا مرزا یار، تو اسے سونی گلیوں یا سڑکوں کی ضرورت نہیں۔ اب وہ کبھی کبھار اور چھپ چھپ کر ملنے کی بجائے موبائل فون پر جب چاہے جتنی دیر چاہے اپنی صاحباں سے باتیں کر سکتا ہے۔ 
8 اگست 2013

No comments:

Post a Comment