Monday, August 12, 2013

سیاچن اور فاٹا کا حل یہ ہے

جنگ اور امن کے فیصلے حکومت ہی کیا کرتی ہے۔ فوج تو صرف دشمن سے لڑتی ہے۔ پچھلی حکومتوں کی نااہلی اور کوتاہ اندیشی کی بنا پر سیاچن اور فاٹا میں فوجی آپریشن کیئے گئے، جو ابھی تک ختم نہیں ہوئے۔
سیاچن کا مسئلہ اپریل 1984 میں پیدا ہوا جب پتہ چلا کہ مقبوضہ کشمیر میں کسی مقامی فوجی کمانڈر نے سیاچن گلیشیئر کے کچھ حصہ پر قبضہ کر لیا ہے۔ ویران برفانی زمین پر کس نے مزاحمت کرنی تھی۔ ہندوستانی کمانڈر صرف فتح کا جھنڈہ لہرانا چاہتا تھا۔
شملہ معاہدہ (1972) میں کنٹرول لائین کی نشان دہی کی گئی۔ نقشہ پر چوٹی NJ9842 سے آگے مشرق اور شمال مشرق میں چینی سرحد تک لائین جنگ بندی لائین قرار دی گئی لیکن موقع پر نشان دہی نہ کی گئی۔
جب خبر شائع ہوئی تو ہمارے ہاں ہر طرف سے جوابی کاروائی کا مطابہ ہونے لگا۔ فوجی حکمران عوامی رد عمل کا سامنا کرنے کے عادی نہیں ہوتے۔ چنانچہ جنرل ضیاء الحق نے گھبرا کر سیاچن پر فوج بھیجنے کا حکم دے دیا۔ ساتھ ہی پیپلز پارٹی والوں کے بارے میں کہا کہ وہ "ایک بنجر اور پتھریلے گلیشیئر کے لیئے مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں جہاں گھاس کا پتہ تک نہیں اگتا۔" مطلب تھا کہ بے آب و گیاہ جگہ پر قبضہ ختم بھی کرا لیا تو عملی طور پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ دوسری طرف، ہندوستانی فوج بھی مقبوضہ علاقہ خالی کرنے میں سبکی سمجھتی، چاہے وہاں بیٹھے رہنے سے بھاری مالی اور جانی نقصان ہوتا رہے۔
سیاچن میں 2003 میں جنگ بندی تو ہو گئی لیکن فوجوں کی واپسی پر اتفاق نہ ہوا۔ ہندوستان نے مظالبہ کیا کہ نقشہ پر متنازعہ علاقہ کو اس کا مقبوضہ دکھایا جائے۔ پاکستان کا کہنا تھا کہ جب کنٹرول لائین طے ہوئی تو علاقہ پر ہندوستان کا قبضہ نہ تھا۔ اب اس کی جارحیت کو کیسے تسلیم کیا جائے؟
بتایا گیا ہے کہ اپریل 1984 سے پچھلے سال اپریل تک آٹھ ہزار فوجی ہلاک ہوئے۔ پانچ ہزار ہندوستانی تھے۔ جنگ بندی کے بعد سے دونوں طرف بیشتر اموات سردی سے ہوئیں۔ اندازہ ہے کہ ہمیں تقریبا 5٫4 بلین روپے سالانہ اور ہندوستان کو 30 بلین روپے سالانہ خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ اپریل 2012 میں ہمارے 150 کے قریب جوان برف کے تودہ تلے دب گئے۔ اس حادثہ نے صورت حال کی سنگینی کو اجاگر کر دیا۔
مسئلہ کا حل یہ ہے کہ ہماری پارلیمنٹ ایک قرارداد منظور کر کے حکومت سے کہے کہ سیاچن گلیشیئر سے اپنی فوج یک طرفہ طور پر واپس بلا لے۔ ہندوستان ظاہر ہے اپنی فوج وہیں رکھے گا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا؟ مقبوضہ جموں و کشمیر بھی تو اس کے قبضہ میں چلا آ رہا ہے۔ اگر ہم وہاں ہندوستان کے سات لاکھ تک فوجی اور نیم فوجی برداشت کرتے چلے آ رہے ہیں تو محض پانچ ہزار کی سیاچن میں موجودگی بھی کر سکتے ہیں۔ جب پوری ریاست مذاکرات یا جنگ کے نتیجہ میں آزاد ہو جائے گی تو سیاچن بھی اس میں شامل ہوگا۔ اس وقت تک ہندوستانی فوج خوش ہوتی رہے کہ اس کا قبضہ ہے۔
یہ قبضہ بھی زیادہ دیر تک نہیں رہے گا۔ جب صرف ہندوستانی فوج سیاچن پر رہے گی تو اس ملک کی اپوزیشن اور میڈیہ شور مچائیں گے کہ ان کے فوجی بلامقصد کیوں مر رہے ہیں اور بلین ہا روپوں کا سالانہ نقصان کیوں کیا جا رہا ہے۔ ہندوستانی فوج کے پاس یہ جواز بھی نہ رہے گا کہ وہاں لڑائی ہو سکتی ہے۔ اگر وہ گلیشیئر سے اتر کر آزاد کشمیر کے میدانی علاقہ میں آ جاتی ہے تو وہاں ہماری فوج اس کا "پرجوش استقبال" کرے گی۔ جب اندرونی سخت دبائو کی بنا پر ہندوستانی فوج بھی واپس چلی جائے گی تو مسئلہ خود بخود ختم ہو جائے گا۔
سیاچن ہی کی طرح عملیت پسندی سے کام لیتے ہوئے فاٹا کا مسئلہ بھی حل کیا جا سکتا ہے۔ فاٹا کے لیئے مقامی حکومتوں کا قانون دس سال سے تیار ہے۔ مرکزی حکومت یہ قانون فاٹا میں نافذ کر کے انتخابات کرا دے۔ ایجنسی ناظمین اور کونسلر اپنے اپنے علاقہ سے پوری طرح آگاہ ہوں گے۔ وہ ملکی اورغیرملکی دہشت گردوں کی شناخت کر کے انھیں نکل جانے پر مجبور کر سکیں گے۔ اگر کسی جگہ مزاحمت زیادہ ہو تو فوج سے مدد لی جا سکتی ہے۔
مقامی حکومتوں کے قیام سے بحالی اور ترقی کے سارے کام بھی ہو سکیں گے۔ جب فاٹا میں سیاسی جماعتوں کو کام کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے اور قومی اسمبلی کے لیئے ان کے نمائندے براہ رسات چنے جاتے ہیں تو وہاں مقامی حکومتیں کیوں قائم نہیں ہو سکتیں؟
ایک کام، جو بہت پہلے ہونا چاہیئے تھا، اب بھی کیا جا سکتا ہے۔ پارلیمنٹ قرارداد منظور کرے کہ ہم نیٹو، امریکہ اور افغانستان کی طالبان سے جنگ میں شریک نہیں، نہ تھے۔ سرحد کی حفاظت ہم بالکل کریں گے لیکن وہاں اتنی ہی فوج رکھیں گے جتنی دوسری طرف ہوگی۔ اپنی طرف اتنی ہی سرحدی چوکیاں رکھی جائیں گی جتنی دوسری طرف ہوں گی۔ ویزہ کے بغیر آنا جانا نہیں ہوگا۔ سرحد کی نگرانی کی جتنی ذمہ داری دوسری طرف کی ہے، ہماری اس سے زیادہ نہیں۔ اس قرارداد کو نظرانداز نہیں کیا جا سکے گا۔ آخر امریکی حکومت بھی تو اپنی کانگرس کی قرارداوں کی پابند ہوتی ہے۔
ہماری طرف سے افغان طالبان کی کسی بھی قسم کی مدد پر اعتراض ہو تو آئرلینڈ کی مثال دی جا سکتی ہے۔ جب آئرش ریپبلیکن آرمی شمالی آئرلینڈ میں جدوجہد کر رہی تھی، آئرلینڈ کی حکومت نے اسے کوئی مدد نہ دی۔ لیکن آئرلینڈ کے عوام اس کی ہر طرح سے مدد کرتے رہے کیونکہ وہ ان کے ہم مذہب تھے۔ اگر ہماری طرف کے پٹھان افغانستان کے طالبان کی مدد کرتے ہیں تو اس پر کیسے اعتراض ہو سکتا ہے؟
اگر پھر بھی افغانستان کی جنگ میں پہلے کی طرح تعاون پر اصرار کیا جائے تو جواب دیا جائے کہ پہلے افغانستان ڈیورنڈ لائین کو تسلیم کرے۔ جب انگریزوں کے دور میں یہ سرحد تسلیم کی جاتی رہی تو قیام پاکستان کے ساتھ ہی کیوں نامنظور ہو گئی؟ اگر وہ تسلیم نہیں کرتا تو ہم کس سرحد کے پار کاروائی کے لیئے تعاون کریں؟
31 جولائی 2013

No comments:

Post a Comment