Tuesday, August 20, 2013

علم کے کنویں کو پیاسوں تک کیسے لے جائیں

غالب نے کہا تھا، "بے درودیوار کا اک گھر بنایا چاہیئے۔" غالب کی خاہش تو پوری نہ ہو سکتی تھی لیکن آج کے دور میں جس طرح کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے بہت سے کاموں میں ہمیں زمان و مکان کی قید سے آزاد کر دیا، اسی طرح ان کی مدد سے بے درودیوار کی جامعہ ضرور بنائی جا سکتی ہے۔ یہ جامعہ اپنے کنویں کو علم کے پیاسوں کے گھروں تک لے جائے گی۔
آغاز اس طرح ہو کہ اعلا تعلیم کمشن تمام تسلیم شدہ سرکاری و غیرسرکاری یونیورسٹیوں کو پابند کرے کہ وہ جو ڈگری کورس طلبہ کو اپنے کیمپس میں پڑھائیں، بالکل وہی آن لائین بھی آفر کریں۔ جب احساس ہو کہ کیمپس میں جا کر پڑھنے والوں کی تعداد وقت گزرنے کے ساتھ اتنی کم ہو گئی ہے کہ اب وہاں تعلیم جاری رکھنا مالی طور پر ممکن نہیں رہا تو جامعات صرف آن لائین کورس ہی پڑھائیں۔ اس وقت عمارتوں کی کمی کی بنا پر زیادہ طلبہ داخل نہیں ہو سکتے۔ مجوزہ صورت میں طلبہ کی تعداد لامحدود ہو جائے گی۔ فاصلاتی تعلیم، جو اس وقت علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور ورچوئل یونیورسٹی دے رہی ہیں، سب جامعات سے ملنے لگے گی۔ اس طرح ملازمت کرنے والوں کے لیئے بھی مزید تعلیم حاصل کرنا ممکن ہو جائے گا۔
جامعات اپنے استادوں کے لیکچر اور دوسرا تعلیمی مواد رکارڈ کرنے اور اسے انٹرنیٹ پر دستیاب کرنے کے لیئے نجی شعبہ سے ضروری سہولتیں حاصل کریں گے۔
طلبہ داخلہ کے لیئے آن لائین فارم میں تمام کوائف درج کریں گے۔ جو جامعہ کے معیا پر پورے اتریں انھیں داخلہ مل جائے گا۔ لیپ ٹاپ سپلائی کرنے والی کمپنیوں سے معاہدے کیئے جائیں گے تاکہ وہ ملک بھر میں اپنے مقامی ڈیلروں کے ذریعہ داخلہ پانے والے طلبہ کو لیپ ٹاپ قسطوں پر مہیا کریں۔ قسط میں لیپ ٹاپ کی دیکھ بھال، مرمت اور براڈبینڈ انٹرنیٹ کنیکشن کا خرچ شامل ہوگا۔ قسطوں کی وصولی ڈیلروں کے ذریعہ ہوگی تاکہ وہ سروس دینے میں کوتاہی نہ کریں۔ قسطیں ڈگری کورس مکمل ہونے تک ادا کی جاتی رہیں گی۔ طالب علم کو اختیار ہوگا کہ وہ کسی بھی کمپنی کے ڈیلر سے لیپ ٹاپ لے۔
جامعہ استادوں سے کہے گی کہ وہ اپنے اپنے مضمون کے لیکچر تیار کریں۔ مضمون کا نصاب وہی ہوگا جو اعلا تعلیم کمشن نے مقرر کیا ہو۔ لیکچر دینے والے کی شکل ابتدائی چند منٹ کے بعد دکھائی نہ دے۔ اس کی جگہ لیپ ٹاپ کی سکرین پر نقشے، خاکے، تصویریں، ویڈِیو، وغیرہ نظر آئیں گے تاکہ لیکچر بہتر طور پر سمجھ میں آ سکے۔ آخر میں مزید مطالعہ کے لیئے اضافی مواد کی نشاندہی ہوگی، جو اعلا تعلیم کمشن کی ویب سائیٹ پر تمام جامعات کے طلبہ کے لیئے بلا قیمت دستیاب ہوگا۔ اس میں جرنل اور کتابیں بھی شامل ہوں گی۔ اس وقت بھی اعلا تعلیم کمشن کی طرف سے ہزارہا جرنل اور کتابیں انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔
ہر طالب لیپ ٹاپ پر روزانہ لیکچر سنا کرے گا۔ اس کے بعد لیکچر میں تجویز کیئے گئے اضافی مواد کا مطالعہ کرے گا۔ ہر لیکچر کے آخر میں سوالات ہوں گے، جن کے جواب دینے سے معلوم ہوگا کہ طالب علم لیکچر کہااں تک سمجھ سکا ہے۔ جوابات انٹرنیٹ کے ذریعہ چیک کیئے جائیں گے۔ اگر جوابات غیرتسلی بخش ہوں گے تو طالب سے لیکچر دوبارہ سن کر جوابات دینے کے لیئے کہا جائے گا۔ اگر لیکچر میں کوئی بات واضح یا درست نہ ہو تو طالب اس کی نشان دہی کر سکے گا۔ لیکچر دینے والا استاد جواب دینے کا پابند ہوگا۔
طلبہ جامعہ کو معمولی ماہانہ فیس ادا کیا کریں گے، جو اعلا تعلیم کمشن طے کرے گا۔ یہ فیس بظاہر بہت کم لیکن درحقیقت کافی ہوگی۔ ہر مضمون کے استاد کو اس کے لیکچروں پر رائلٹی ملا کرے گی۔ اگر فی طالب دس روپے ملیں اور جامعہ کے 10 ہزار طلبہ اس کا لیکچر سنیں تو اسے ایک لاکھ روپے ماہانہ ملیں گے۔ اگر اس کے لیکچر دوسری جامعات بھی اپنے طلبہ کو دیں تو رائلٹی اسی حساب سے بڑھ جائے گی۔ لیکچر تو ایک ہی دفعہ رکارڈ ہوں گے۔ اس کے بعد استاد انھیں طلبہ کی رائے کے مطابق  جاءے ھبہتر اور زیادہ واضح بنائے گا۔ وہ ریسرچ کر کے تازہ ترین معلومات شامل کرتا رہے گا۔ مفید اضافی مواد کی نشاندہی بھی کرتا رہے گا۔ جامعہ سائنسی تجربات کے لیئے کسی نزدیکی ڈگری کالج یا جامعہ کی لیب میں انتظام کرائے گی۔
اگر کسی جامعہ کے طلبہ اتنے کم ہوں کہ ان کی فیس اس کے اخراجات کے لیئے ناکافی ہو تو وہ یا تو زیادہ طلبہ کو داخلہ کے لیئے راغب کرے گی، کسی اور جامعہ مِیں مدغم ہو جائے گی یا بند کر دی جائے گی۔ ایک وقت ایسا بھی آ سکتا ہے جب جامعات کے ادغام سے ڈگری کورسوں کے لیئے ایک ہی جامعہ وجود میں آ جائے۔ باقی جامعات صرف ایم۔ فل۔ اور پی۔ ایچ۔ ڈی۔ کے لیئے مخصوص ہو جائیں۔
جامعہ ہر مضمون کے لیئے استاد رکھے گی۔ وہ ہر لیکچر کے بارے میں طلبہ کے سوالوں کے جوابات ای میل سے دیا کریں گے۔ اگر بہت ضروری ہو تو سکائیپ، گوگل، وغیرہ کے ذریعہ سوال جواب ہو سکیں گے، جن پر کال کا کوئی خرچ نہ ہوگا۔ تاہم ایک وقت میں زیادہ کالیں سننا ممکن نہ ہوگا۔ جامعہ کے استاد اپنے اپنے شعبہ کے طلبہ کے لیئے تحقیقی مضامین بھی لکھا کریں گے اور انھیں ای میل سے بھیجا جائے گا یا جامعہ کی ویب سائیٹ پر رکھا جائے گا۔ اس طرح ریسرچ جرنل چھاپنے اور طلبہ تک پہنچانے کے اخراجات نہیں ہونگے۔ وہ اسی طرح تحقیقی کتابیں بھی لکھ کر مہیا کریں گے۔

طلبہ اپنی سہولت کے مطابق گھر بیٹھے وہی تعلیم حاصل کریں گے، جن کے لیئے انھیں اس وقت جامعہ جانا پڑتا ہے، ہزاروں روپے ماہانہ فیس دینی پڑتی ہے، درسی کتابیں خریدنی پڑتی ہیں، سینکڑوں روپے آنے جانے پر خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ اس طرح اعلا تعلیم اتنی سستی اور آسان ہو جائے گی کہ نہ طلبہ کو وظائف دینے کی ضرورت رہے گی، نہ حکومت کو اعلا تعلیم کے لیئے امداد دینی ہوگی۔ یوں کنواں چل کر علم کے تمام پیاسوں تک پہنچے گا۔ صرف پیاس شرط ہوگی۔ 
21 اگست 2013

No comments:

Post a Comment