Monday, August 12, 2013

گلی کون سی،مکان کدھر ہے؟

ہمارے دیہات میں مکانوں کے نمبر نہیں ہوتے۔ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں۔ جہاں ہر کوئی ہر کسی کو جانتا ہو، وہاں نمبروں کی ضرورت نہیں پڑتی۔ آپ گائوں میں جائیں اور جس کے پاس جانا ہے اس کا نام لیں۔ کوئی نہ کوئی آپ کو اس کے گھر لے جائے گا۔
گائوں میں خط پہنچانے کے لیئے بھی مکان نمبر کی ضرورت نہیں پڑتی۔ پتہ اس طرح لکھا جاتا ہے: ضلع فلاں، تحصیل فلاں، ڈاک خانہ فلاں (اگر گائوں ہی میں ڈاک خانہ ہو تو ڈاک خانہ خاص)، موضع فلاں اور آخر میں فلاں ولد فلاں کو ملے۔ (مکتوب الیہ کی ولدیت اس لیئے کہ ایک نام کے دو یا زیادہ اشخاص ہو سکتے ہیں۔) البتہ حیرانی والی بات یہ ہے کہ شہروں میں مکانوں اور دکانوں کے نمبر تو ہوتے ہیں لیکن ترتیب وار نہیں۔ اس کی وجہ بھی گائوں سے ہے۔
اگر کوئی گائوں میں نیا مکان زیر کاشت اراضی پر بنانا چاہے تو مالک سے جگہ خریدتا ہے۔ مالک پٹواری سے کہتا ہے کہ اس کے کھیت میں سے خریدی گئی جگہ کی نشاندہی کر دے۔ پٹواری اپنے رکارڈ میں اس کی کھتونی، خسرہ نمبر وغیرہ کا اندراج کر کے گائوں کے نقشہ میں اسے "جائے سکنی" ظاہر کرتا ہے، یعنی رہائشی جگہ۔ چونکہ جائے سکنی میں کاشت نہیں ہو سکتی، پٹواری ربیع اور خریف کی گرداوری میں اسے شامل نہیں کرتا۔ گرداوری میں بتایا جاتا ہے کہ کس کھیت میں کون سی فصل کاشت کی گئی ہے تاکہ اس کے مطابق مالیہ اور آبیانہ وصول کیا جائے۔
جائے سکنی کا اندراج گائوں کی طرح شہروں میں بھی ہوتا رہا ہے۔ آزادی کے وقت صرف چند شہروں کی آبادی لاکھوں میں تھی۔ باقی ہزاروں میں تھے۔ ہر شہر کے اردگرد دیہات تھے، جن کے اپنے پٹواری تھے۔ جو شہری نیا مکان بنانا چاہتا وہ گائوں کا کوئی کھیت یا اس کا کچھ حصۃ خرید لیتا۔ پٹواری گائوں کی طرح اسے بھی اپنے رکارڈ میں جائے سکنی ظاہر کرتا۔ جب خریدار مقامی بلدیہ سے مکان یا دکان کی تعمیر کے لیئے اجازت لیتا تو اسے اجازت ناموں کے رجسٹر کے نمبر شمار کی ترتیب سے نمبر دے دیا جاتا۔ یہی مکان یا دکان کا نمبر ہوتا۔ سڑک کے دونوں طرف جس ترتیب سے دکانیں یا مکان بنتے، اسی ترتیب سے ان کے نمبر ہوتے۔
ظاہر ہے کہ تعمیرات ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ نہ ہوتیں۔ اگر ایک کا نمبر 61 ہے تو ساتھ والی کا 97 کیوں کہ اس کا نمبر ان کے بعد آیا، جو سڑک پر مختلف اوقات میں تعمیر ہو چکی تھیں۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا، یہاں تک کہ سڑک کے دونوں طرف ساری زمین پر مکان، دکانیں اور دوسری عمارتیں بن گئیں۔
اب ضرورت ہے کہ ہر سڑک کی تمام تعمیرات کو ترتیب وار نمبر دِیئے جائیں۔ لیکن ابھی تک مقامی حکومتوں نے توجہ نہیں دی۔ البتہ نئئِ آبادیوں میں پلاٹ بنائے گئے، جنھیں ترتیب وار نمبر دیئے گئے۔ اس میں بھی کوتاہی ہو گئی۔ نقشہ پر تو سارے پلاٹ نظر آتے ہیں لیکن زمین پر کئی دفعہ پتہ نہیں چلتا کہ ایک قطار کے بعد دوسری کے نمبر کہاں سے شروع ہوتے ہیں۔
مسئلہ دو طریقوں سے حل کیا جا سکتا ہے۔ اول، سروے آف پاکستان سے ہر شہر کے بڑے سکیل پر نقشے بنوائے جائیں، جیسے 1:5000، یعنی نقشہ پر ایک سنٹی میٹر برابر ہو 5000 سنٹی میٹر یا 50 میٹر۔ دوسری صورت یہ ہے کہ گوگل ارتھ پروگرام سے سب سے بڑے سکیل پر ہر شہر کے نقشے لے لیئے جائیں۔ ان میں ہر ضلع حکومت ہر شہر کے تمام مکانوں، دکانوں، عمارتوں کے نمبر درج کر دے۔ یہی نمبر اس کے اپنے رکارڈ میں درج کیئے جائیں۔ مالکان سے کہا جائے کہ آئندہ نئے نمبر استعمال کریں۔
جب نئے سرے سے نمبر لگائے جائیں تو سڑک کے ایک طرف نمبر طاق اور دوسری طرف جفت ہوں۔ طاق والی طرف 21، 23، 25، وغیرہ اور جفت والی طرف 22، 24، 26، وغیرہ ہوں۔ آپ نے جس دکان یا دفتر میں جانا ہے، اس کا نمبر طاق ہے تو آُپ شروع ہی میں طاق نمبروں والی طرف ہو لیں۔ یہ نہ ہو کہ قریب پہنچ کر پتہ چلے کہ جہاں جانا ہے وہ سڑک کے دوسری طرف ہے اور آپ کو چلتے ٹریفک میں سے سڑک پار کرنی پڑے۔
مکانوں، دکانوں، وغیرہ، کو ترتیب وار نمبر دینے سے بڑے فائدے ہوں گے: آُپ سڑک پر کہیں بھی ہوں، آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ جہاں جانا ہے وہ وہاں سے کتنی دور ہے۔ مثلا، آُپ نمبر 37 کے پاس کھڑے ہیں اور منزل نمبر 75 ہے، تو آُپ اندازہ لگالیں گے کہ فاصلہ کتنا ہوگا۔ اگر آُپ کو پتہ ہو کہ مکان نمبر 41 کہاں ہے تو آپ فورا سمجھ جائیں گے کہ 56 نمبر کہاں ہوگا۔ ڈاکیہ نمبروں کے مطابق اپنی ڈاک ترتیب دے لے گا اور پتوں میں نمبروں کے لحاظ سے لفافے، پیکٹ، وغیرہ، پہنچاتا جائے گا۔ کوریئر اور دوسرے ڈلیوری والوں کو بھِی یہی سہولت ہوگی۔ پیدل چلنے والے کو نمبر معلوم ہوگا تو وہ کسی سے پتہ پوچھے بغیر منزل تک پہنچ جائے گا۔
کبھی کبھار پڑنے والی ضرورت پوری کرنے میں بھی آسانی ہوگی۔ اگر الیکشن کمشن کو الیکشن کرانے کے لیئے ووٹر لسٹوں کی گھر گھر تصدیق کرانی ہو تو اس کے اہل کاروں کو آسانی ہوگی۔ کوئی مکان ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوگا۔ جب مردم شماری کا وقت آئے گا تو اہل کاروں کو خانہ شماری کرنے میں میں آسانی ہوگی۔ سب باتوں کی ایک بات کہ زندگی میں ترتیب ہونی چاہیئے۔
جب بالترتیب نمبروں میں اتنے فائدے ہیں تو شہروں کے ساتھ کیوں نہ گائوں میں بھی لگائے جائیں؟ یہ ناممکن ہے۔ نمبر اسی صورت میں دیئے جا سکتے ہیں جب مکان کا نقشہ منظور شدہ ہو۔ یہ تبھی ہو سکتا ہے جب گائوں کے سارے مکان نئی جگہ پر نئے سرے سے بنیں اور ہر مکان دوسروں سے الگ ہو۔ اس وقت تک یہی صورت رہے گی کہ آپ کو ایک پرانی فلم کے الفاظ میں پوچھنا پڑے گا، "پلٹ تیرا دھیان کدھر ہے؟ گلی کون سی، مکان کدھر ہے؟" 
26 جولائی 2013

No comments:

Post a Comment