Monday, August 12, 2013

بجلی کی تقسیم کس طرح کی جائے

اگر آپ باغ کے مالک سے پھل اور گوالہ سے دودھ براہ راست لیں تو قیمت کم ترین ہوگی۔ جیسے جیسے بیچ میں کوئی آتا جائے گا، ریٹ بڑھتا جائے گا۔ بیچ میں آنے والے کو وچولہ، دلال، آڑھتی، بیوپاری، کمشن ایجنٹ، یا ذخیرہ اندوز کہتے ہیں۔ وہ طرفین کا استحصال کرتا ہے۔ اگر وہی کام حکومت کرے تو اسے کیا کہیں گے؟
جب واپڈا خود بجلی پیدا کرتا اور ہم تک پہنچاتا تھا تو اس وقت بھی چوری ہوتی تھی لیکن اتنا نقصان نہیں ہوتا تھا ۔ پھر دہائی-1990 میں منتخب (مگر غیرجمہوری) حکومتوں کا دور آیا اور ہمارے خود ساختہ نمائندوں کو کھل کھیلنے کا موقع ملا۔ ان کے ساتھ نجی سرمایہ کاری کے نام پر عالمی لٹیرے بھی مل گئے۔ واپڈا سے کہا گیا کہ وہ آبی وسائل تک محدود ہو جائے۔ اس کا بجلی سے کوئی تعلق۔ نہ ہوگا۔ (ہمارے میڈیہ کو ابھی تک اس کی خبر نہیں ملی۔ وہ واپڈا ہی کو بجلی کے مسائل کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔)
بجلی کے لیئے کئی وچولے پیدا کر لیئے گئے۔ کئی نئی کمپنیاں بنائی گئیں۔ ان میں بجلی پیدا کرنے کے لیئے تھیں: پیپکو (پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی)، جینکو 1 (جام شورو پاور جنریشن کمپنی)، جینکو 2 (سنٹرل پاور جنریشن کمپنی)، جینکو 3 (ناردرن پاور جنریشن کمپنی) اور جینکو 4 (لاکھڑہ پاور جنریشن کمپنی)۔ بجلی کی ترسیل کے لیئے نیشنل ٹرانسمشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی بنائی گئی۔ بجلی صارفین تک پہنچانے کے لیئے آٹھ ڈسکو (ڈسٹریبیوشن کمپنیاں) بنائی گئیں۔ کیسکو (کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی) کی پہلے ہی نج کاری کی جا چکی تھی۔
ان سب سے بالا نیپرا بنائی گئی، یعنی نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی۔ یہی لائسنس جاری کرتی اور یہی بجلی کے ریٹ طے کرتی ہے۔ کہنے کو تو عوام کے مفاد کے تحفظ کے لیئے ہے لیکن دراصل سرمایہ کاروں کے لیئے کام کرتی ہے۔
واپڈا کے پاور ونگ کی تنظیم نو سے ملکی اور غیر ملکی لٹیروں کے لیئے راستہ صاف کرنے کا آغاز کیا گیا۔ اس وقت تو ساری کمپنیوں کی مالک مرکزی حکومت ہے۔ چونکہ سب لمیٹڈ کمپنیاں ہیں، حکومت کسی وقت بھی کہہ سکتی ہے کہ ان کی ناقص کارکردگی کی بنا پر انھیں نجی تحویل میں دے دیا جائے گا۔ چونکہ ملکی سرمایہ کار اتنی بڑی کمپنیاں نہیں خرید پائیں گے، غیرملکی میدان میں آ جائیں گے۔ کیسکو (کراچی الیکٹرک کمپنی) کے معاملہ میں یہی ہوا۔ نجکاری کے بعد غیرملکی سرمایہ کار کو کھلی چھٹی ہے، جو چاہے صارفین سے سلوک کرے۔ لوگ چیخ پکار کر رہے ہیں لیکن حکومت نہ کمپنی واپس اپنی تحویل میں لے سکتی ہے اور نہ اصلاح احوال کر سکتی ہے۔
فی الحال، یہ شوشہ چھوڑا گیا ہے کہ بجلی کی تقسیم صوبوں کو دے دی جائے۔ اس کا مطلب ہے مرکزی حکومت میں سیاست کار اور بیوروکریٹ جو کچھ کر رہے ہیں، وہ ان کے صوبائی ہم عصر بھی کریں۔ گویا یک نہ شد، دو شد -- بلکہ پنج شد۔ ہندوستان نے یہی کیا۔ اب وہاں صوبوں کے بجلی بورڈ خسارہ میں چلتے ہیں۔ یہی نہیں۔ ایک دوسرے کی بجلی چوری بھی کرتے ہیں۔
آپ آسانی سے سوچ سکتے ہیں کہ بجلی کی تقسیم صوبوں کے کنٹرول میں آنے کے بعد کیا ہوگا۔ جو بھی پارٹی برسراقتدار ہوگی، اس کے حامی صنعت کار اور تاجر دھڑلہ سے بجلی چوری کریں گے۔ جو نہیں کریں گے وہ بل دینا ضروری نہیں سمجھیں گے۔ وزیروں اور لیڈروں سے ارکان اسمبلی بھی پیچھے نہیں رہیں گے۔ ان کے منظور نظر بھی کھل کھیلیں گے۔ بجلی کی چوری بہت بڑھ جائے گی اور بلوں کی نادہندگی بھی۔ لوڈ شیڈنگ بھی ہوگی اور بجلی بھی مہنگی ہوتی جائے گی۔
جب پانی سر سے گزرنے لگے گا تو عوام کو طفل تسلی دی جائے گی کہ تقسیم کار کمپنیوں کی نج کاری کی جائے گی، جس سے سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔ نئے مالک فرسودہ تاریں، کھمبے اور ٹراسفارمر تبدیل کریں گے، نئے گرڈ سٹیشن بنائیں گے، بجلی چوری ختم کر دیں گے اور بجلی بھی سستی کر دیں گے۔
تقسیم کار کمپنیوں کی نج کاری کرنا نائی کے ہاتھ میں داڑھی دینا ہوگا۔ کراچی کے عوام کو نج کاری کا بڑا تلخ تجربہ ہے، جہاں کیسکو اپنے بجلی گھر بند رکھ کر معاہدہ کے تحت تقریبا 750 میگاواٹ باقی ملک سے لیتی رہی ہے کیوں کہ سستی پڑتی تھی۔ عوام لے دے کے نیپرا سے رجوع کریں گے لیکن اس نے کراچی والوں کی کون سی مشکل آسان کی ہے جو باقی ملک کی کرے گی؟
تقسیم کار کمپنیاں بجلی سستی کرنے کی بھی کوشش نہیں کریں گی۔ آخر بجلی گھروں والے بھی تو انھی کے بھائی بند ہوں گے، جو مبینہ طور پر 35 سے 45 فی صد تک منافع کما رہے ہیں۔ وہ اس میں سے کچھ حصہ تقسیم کار کمپنیوں کو دے دیا کریں گے۔ نجی کمپنی مرضی کی مالک ہوگی، مہنگی بجلی خریدے یا سستی۔ کوئی اسے مجبور نہ کر سکے گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تقسیم کار کمپنیاں اپنے بجلی گھر بنالیں، جن سے سستی بجلی لے کر مہنگی بیچیں۔ یہ مت بھولیں کہ سرمایہ دار پیسہ کمانے کے لیئے پیسہ لگاتا ہے، عوام کی بھلائی کے لیئے نہیں۔ جب حکومت عوام کے مفاد کے لیئے کام نہیں کرتی تو سرمایہ کار سے کیسے اس کی توقع کی جا سکتی ہے؟
مسئلہ کا حل یہ ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو صارفین کے حوالہ کر دیا جائے۔ ہر کنیکشن والے کو ایک حصہ برائے نام قیمت پر دے دیا جائے۔ کمپنی کا سربراہ مرکزی پبلک سروس کمشن پوری طرح چھان پھٹک کے بعد نامزد کرے۔ تاہم وہ چھ ماہ کے بعد کمپنی کے حصہ داروں (صارفین) سے اعتماد کا ووٹ لے۔ پھر ہر 12 ماہ کے بعد اعتماد کا ووٹ لینا ہوگا۔ جب تک عوام اس سے مطمئن ہوں، وہ کام کرتا رہے۔

اگر تقسیم کار کمپنیوں کی نج کاری کی گئی تو بڑی تباہی ہوگی۔ اگر نجکاری کے عمل میں ہمارے دشمن ملکوں نے غیرملکی سرمایہ کاری کی آڑ میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا کنٹرول لے لیا تو ملکی معشت کو اتنی تباہی کا سامنا ہوگا کہ پھر، بقول پرویز مشرف، پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہوگا۔
24 جولائی 2013 

No comments:

Post a Comment