Monday, August 12, 2013

صحیح طریقہ عوام کی شکایات دور کرنے کا

کسی پڑھے لکھے دیہی نوجوان کو تھانیدار نے کسی وڈیرہ کے کہنے پر بلاقصور چھترول کر دی۔ نوجوان اور تو کچھ نہ کر سکا وزیر اعلی کے نام درخاست دے دی، جس میں تفصیل لکھنے کے بعد تھانیدار کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا۔ درخاست صوبائی پولیس افسر (آئی۔ جی۔) سے ہوتے ہوئے اسی تھانیدار کے پاس "مناسب کاروائی کے لیئے" پہنچ گئی۔ اس نے نوجوان کو بلایا اور درخاست دکھا کر کہا، "بتائو، اب تمھارے ساتھ وہی سلوک کروں جو پہلے کیا تھا؟" نوجوان حیران بھی تھا اور پریشان بھی۔ وہ تو سوچ رہا تھا کہ تھانیدار کی معطلی کا حکم آئے گا۔ پھر انکوائری ہوگی، جس مین اسے بیان دینے کے لیئے بلایا جائے گا۔ آخر میں ایک شریف اور بے قصور شہری پر بلاجواز تشدد کرنے کی بنا پر تھانیدار کو برخاست کر دیا جائے گا۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہو گیا۔ تھانیدار نے مزید کچھ کرنے کی بجائے نوجوان سے کہا، "اپنی درخاست پر لکھ کر دو کہ تھانیدار نے مجھے مطمئن کر دیا ہے۔ اب میری شکائت پر مزید کاروائی نہ کی جائے۔" نوجوان بھاری قدموں سے چلتے ہوئے جانے لگا تو تھانیدار نے کہا، "آئندہ اگر کوئی شکائت ہو تو سیدھے میرے پاس آنا۔ افسران بالا کو زحمت دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔"
سرکاری اہل کاروں کے خلاف شکائتوں پر عام طور پر ایسی ہی کاروائی ہوا کرتی ہے۔ کبھی کبھی کوئی حکمران خود کو خادم خلق ثابت کرنے کے لیئے شکائت سیل کھول دیتا ہے۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگ شکائتیں لے کر آنے لگتے ہیں۔ میڈیہ کے لوگ پاس بیٹھ جاتے ہیں اور عوامی دلچسپی کی شکایات کی خبریں بناتے رہتے ہیں۔ اہل کار ہر درخاست کو متعلقہ محکمہ یا شعبہ کو مارک کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد اہل کاروں کو پتہ نہیں چلتا کہ اس پر کیا کاروائی ہوئی۔ انھیں تو نئی درخاستوں کا ڈھیر نپٹانے ہوئے سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی۔ کچھ عرصہ کے بعد شکایات سیل بند کر دیا جاتا ہے۔
اصل میں مسئلہ درخاست کاغذ پر لکھے جانے سے پیدا ہوتا ہے۔ کسی افسر کے لیئے ممکن نہیں کہ وہ کاروائی کے لیئے نیچے بھیجی جانے والی ساری درخاستوں کا رکارڈ اور ان کی نقلیں اپنے دفتر میں رکھے۔ چنانچہ اصل درخاست ہی چلتی جاتی ہے، جب تک چل پائے۔ راستہ میں کوئی اسے گم کر دے تو سائل کی بدقسمتی۔
مسئلہ کا حل یہ ہے کہ کاغذ پر لکھی درخاست وصول ہی نہ کی جائے۔ ایک اندازہ کے مطابق اس وقت ہمارے ہاں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے افراد 30 ملین کے قریب ہیں۔ یہ تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔ بہت سے عرضی نویسوں کے پاس بھی کمپیوٹر ہیں۔ کوئی نہ کوئی جاننے والے بھی آسانی سے مل سکتا ہے  جس کے پاس کمپیوٹر ہو۔ چنانچہ اگر درخاستیں صرف ای میل سے یا ویب سائیٹ پر آن لائین وصول کی جائیں گی تو سائلوں کو زیادہ زحمت نہیں ہوگی۔
ضرورت الیکٹرانی درخاستوں پر الیکٹرانی طریقہ سے کاروائی کرنے کی ہے۔ یہ کس طرح ہوگا؟ ہر وزیر اعلا کے دفتر میں شعبہ شکایات کھولا جائے، جو شکایات صرف اپنے ای میل پتہ پر وصول کیا کرے۔ فرض کریں کہ اس بار کوئی پڑھا لکھا دیہاتی اپنے تھانیدار کے خلاف درخاست بھیجتا ہے۔ شعبہ شکایات خودکار طریقہ سے درخاست پر نمبر لگاتا ہے اور کاروائی رپورٹ پہنچانے کی آخری تاریخ لکھتا ہے۔ ایک کاپی صوبائی پولیس افسر کو ای میل سے بھیجتا ہے اور دوسری سائل کو۔ صوبائی پولیس افسر کے دفتر میں شکایات نپٹانے والا شعبہ درخاست کو متعلق ضلع پولیس افسر کو بھیجتا ہے اور مقررہ دنوں میں کاروائی کی رپورٹ طلب کرتا ہے۔ ضلع پولیس افسرون تک تو سب کے پاس کمپیوٹر ہونگے اور ای میل بھی۔ اس سے نیچے ابھی وقت لگے گا۔ چنانچہ ضلع کا شعبہ شکایات ہر شکائت اور اس پر ضلع پولیس افسر کے حکم کا پرنٹ نکال کر متعلق تھانیدار کو بھیجے گا اور مقررہ دنوں میں کاروائی اور اس کی مفصل رپورٹ بھیجنے کے لیئے کہے گا۔ ایک نقل ڈی ایس پی کو بھی بھیج جائے گی۔
تھانیدار سائل کو تو گولی دے سکتا ہے لیکن افسران بالا کو نہیں کیونکہ غلط بیانی پر وہ برخاست ہو سکتا ہے۔ تحریری رپورٹ ضلع افسر کو جائے گی تو وہ ای میل سے صوبائی افسر کو بھیج دے گا، جہاں سے ای میل سے ہی وزیر اعلا کے دفتر جائے گی۔ سارے عمل کا رکارڈ کمپیوٹر میں ہوگا۔ اس طرح نہ فائل گم ہوگی اور نہ درخاست ضائع ہوگی۔ اگر کاروائی پوری طرح نہ ہوئی یا بروقت مکمل نہ ہوئی تو رپورٹ ہوگی۔
پولیس ہی کی طرح، دوسرے محکموں کے بارے میں شکایات بھی پہلے محکمہ کے سکیرٹری کو اور وہاں سے اس کے ضلعی افسر کے پاس جائے گی۔ وہ نیچے سے رپورٹ لے کر سیکرٹری کو بھیجے گا، جو اسے وزیر اعلا کے دفتر پہنچائے گا۔ ہر محکمہ کا سربراہ ہر شکائت پر بروقت تسلی بخش کاروائی کرانے کا ذمہ دار ہوگا۔ اگر کاروائی مکمل نہ ہو یا غیرضروری تاخیر ہو تو وزیر اعلا کو رہورٹ دی جائے گی۔ وزیر اعلا کی پرسش پر سیکرٹری اپنی سبکی کی سزا ان ماتحتوں کو دے گا، جنھون نے تسلی بخش کاروائی نہ کی یا غیرضروری تاخیر کی۔
تمام صوبوں کے وزراء اعلا کی طرح وزیر اعظم بھی اپنے دفتر میں شکایات سیل بنائیں اور اسی طرح مرکزی حکومت کے بارے عوام کی شکایات دور کریں۔ وہ مرکزی حکومت کے خودمختار اور نیم خودمختار اداروں کے بارے میں بھی شکایات دور کرائیں۔
ای میل سے شکائت وہ سارے مسائل ختم کر دے گی، جو کاغذ پر لکھی درخاست پیدا کرتی ہے۔ کسی رجسٹر کی ضرورت نہ ہوگی، جس پر شکائت کا اندراج کیا جائے۔ شکائت متعلق اہل کاروں تک پہنچنے میں دنوں کی بجائے منٹ لگیں گے۔ رپورٹ کے لیئے یاددہانی کے خط بار بار نہیں لکھنے پڑیں گے۔ شکائت یا رپورٹ کے راستے میں گم ہونے کا امکان نہیں رہے گا۔
مجوزہ طریقہ سے ایک بہت بڑا فائدہ ہوگا۔ چونکہ ہر شکائت براہ راست وزیر اعلا یا وزیر اعظم کے دفتر جائے گی، ہر وزارت، محکم، شعبہ، وغیرہ کے سربراہ سے نیچے تک سب کو دھڑکہ لگا رہے گا کہ پتہ نہیں کس کوتاہی یا بدعنوانی پر شکائت ہو جائے۔ چنانچہ سب افسر اور اہلکار پوری کوشش کریں گے کہ کوئی شکائت پیدا ہی نہ ہو۔
13 اگست 2013

No comments:

Post a Comment