Tuesday, August 20, 2013

آواز اور تصویر کا ملاپ ہونا چاہیئے

ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم کی حیثیت سے جو چاہتے کر گزرتے۔ لیکن پاکستان ٹیلی ویژن والوں نے ایسا چکر چلایا کہ اپنے معاملہ میں ان کی نہ چلنے دی۔
جب پاکستان ٹیلی ویژن نے 1964 میں نشریات شروع کیں تو بھٹو ایوب خاں کی کابینہ میں وزیر تھے۔ جب وہ دسمبر 1971 میں خود برسراقتدار آئے تو ٹیلی ویژن ابھی پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ چنانچہ ان کا عوام سے پہلا خطاب چک لالہ میں ایک بیرک سے ہوا، جہاں ان دنوں پاکستان ٹیلی ویژن کا "راولپنڈی – اسلام آباد مرکز" کام کر رہا تھا۔
بھٹو نے فیصلہ کیا کہ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کو ملا کر ایک ادارہ بنا دیا جائے۔ اس کا نام "پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن" تجویز کیا گیا۔ ابتدائی کاروائی ہو رہی تھی کہ پاکستان ٹیلی ویژن والوں نے کچھ ایسا کیا کہ ادغام ہوتے ہوتے رہ گیا۔ بعد میں کسی حکومت نے اس پر توجہ نہ دی۔
جس ملک میں ریڈیو پہلے سے موجود تھا، وہاں ٹیلی ویژن کو اس کا حصہ بنایا گیا۔ بعد میں ٹیلی ویژن کا دائرہ بہت بڑھ گیا تو بھی انتظامی طور پر دونوں ایک ہی ادارہ میں رہے۔ ہمارے ہاں ریڈیو سرکاری محکمہ کے طور پر چلایا جا رہا تھا جبکہ ٹیلی ویژن کے لیئے کارپوریشن بنا دی گئی۔ پھر بھی دونوں کو ایک کرنا اتنا مشکل نہ تھا۔ تاہم مشکلات کا عذر تراش کر ادغام رکوا دیا گیا۔ صرف اتنا ہوا کہ ریڈیو پاکستان کا نام پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن ہو گیا۔
مسئلہ کا حل یہ ہے کہ پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن کی تشکیل نو کی جائے اور ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن اس کے دو ڈویژن ہوں۔ ادغام ابتدا میں بالائی سطح پر ہو، یعنی دونوں کا ایک ہی بورڈ اور ایک ہی چیئرمین ہو۔ ان کے نیچے ایک ایم۔ ڈی۔ اور چیف ایڈیٹر ریڈیو کے لیئے اور دوسرے ٹیلی ویژن کے ہوں۔ دونوں ڈویژنوں کا ایک کیڈر ہو۔ جو موجودہ ملازم اسے قبول کریں ان کا تبادلہ ایک ڈویژن سے دوسرے میں ہو سکے۔ جو قبول نہ کریں وہ سبک دوشی تک وہیں کام کرتے رہیں جہاں ہیں۔ وقت کے ساتھ کیڈر کو قبول کرنے والوں سبھی ہو جائیں گے۔ دونوں ڈویژنوں کی انتظامیہ میں بھی ہم آہنگی آتی جائے گی۔
ادغام کے بڑے فائدے ہوں گے۔ کچھ کا ذکر ہم کر دیتے ہیں:
اول، دونوں کے رپورٹر ملا کر مجموعی تعداد بہت بڑھ جائے گی۔ ایک ہی رپورٹر آڈیو اور ویڈیو میں خبریں دیا کرے گا۔ ریڈیو کے رپورٹروں کو بھی تھوڑی سی تربیت سے اس قابل بنایا جا سکتا ہے کہ کم از کم گزارہ لائق ویڈیو بنا کر بھیج سکیں۔ اس طرح زیادہ مقامات سے خبریں آنے لگیں گی۔
دوم، ریڈیو پاکستان کے تمام سٹیشنوں ہی میں ٹیلی ویژن کے بھی مرکز بن سکتے ہیں۔ یہاں سے صبح سے سہ پہر تک مقامی دلچسپی کی نشریات ہو سکتی ہیں۔ عمارت تو پہلے سے موجود ہوگی اور ٹرانسمٹر کے لیئے ٹاور بھی۔ صرف ایک چھوٹا سا سٹوڈیو بنانا ہوگا۔ چونکہ اس وقت ریڈیو سٹیشن 20 سے زیادہ ہیں، ٹیلی ویژن مرکزوں کی تعداد بھی بہت کم خرچ سے کئی گنا ہو جائے گی۔ مقامی نشریات بڑی دلچسپی سے دیکھی جائیں گی۔
سوم، بہت سے مقامی فنکار چھوٹے مرکزوں تک آسانی سے پہنچ سکیں گے، جہاں ان کی آڈیشن اور ابتدائی تربیت ہو جائے گی۔ جن میں صلاحیت زیادہ ہوگی وہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے بڑے مرکزوں پر جا سکیں گے۔
چہارم، ٹیلی ویژن پر خبریں پڑھنے والوں اور ڈراموں میں کام کرنے والوں کی پہلی تربیت ریڈیو پر ہوگی۔ یہاں وہ آواز کے زیر و بم اور تلفظ سیکھیں گے۔ جب آواز پر پورا عبور ہو جائے گا تو ٹیلی ویژن پر کام کرنا آسان ہو جائے گا۔
پنجم، ہر قسم کی تقریبات کی رکارڈنگ کے لیئے ایک ہی ٹیم کافی ہوگی۔ بیرونی دوروں پر صدر اور وزیر اعظم کے ساتھ بھی ایک ہی ٹیم جایا کرے گی۔ کھیلوں کے لیئے بھی یہی صورت ہوگی۔
ششم، ٹیلی ویژن کی آواز کو ریڈیو بہت دور تک لے جا سکتا ہے۔ ہر ٹیلی ویژن مرکز اپنی آڈیو کی موجودہ فریکوئنسی کے ساتھ ریڈیو کی ایف ایم کی آڈیو فریکوئںسی بھی الاٹ کرا سکتا ہے، اسے ریلے کرنے کے لیئے ریڈیو کے ٹرانسمٹروں کے ساتھ ٹیلی ویژن کے ایف ایم ٹرانسمٹر لگائے جا سکیں گے۔ اس طرح کار میں سفر کرنے والے، لوڈ شیڈنگ کے مارے ہوئے اور دوردراز علاقوں کے رہائشی اپنے ریڈیو پر کم از کم ٹیلی ویژن کی آواز سن سکیں گے۔ ریڈیو بوسٹر کے ساتھ ٹیلی ویژن بوسٹر بھی لگائے جا سکیں گے۔
ہفتم، ٹیلی ویژن کی آمدنی سے ریڈیو کے اخراجات بھی پورے ہو جایا کریں گے۔ اس وقت ٹیلی ویژن لائسنسن فیس بھی لیتا ہے اور اشتہارات بھی، جبکہ ریڈیو کی لائسنس فیس عرصہ ہوا ختم کی جا چکی ہے۔ ترقیاتی کاموں کے لیئے حکومت امداد دیا کرے، جیسے نئی عمارت، نئی مشینری، نئے مرکز۔
ہشتم، پاکستان ٹیلی ویژن اپنا ذیلی ادارہ،۔ شالیمار ٹیلی ویژن نیٹ ورک، جو ٹھیکہ پر دے دیا گیا تھا، واپس لے سکتا ہے اور اس کے سٹیشنوں سے تیسری چینل چلائی جائی سکتی ہے۔ انھی سٹیشنوں سے ریڈیو کے نئے چینل شروع کیئے جا سکتے ہیں۔ یہ سب زمینی سٹیشن ہیں، جو کیبل کے بغیر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ سیٹلائیٹ کی ضرورت نہ ہونے کی بنا پر بہت کم خرچ سے چینل چلائی جا سکتی ہے۔
نہم، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ایم۔ ڈی۔ صرف انتظامی اور فنی امور دیکھیں گے جبکہ چیف ایڈیٹر نشر ہونے والے مواد پر نظر رکھے۔ چیف ایڈیٹر صاحب ذوق و ادب ہوگا، جس کی توقع انتظامی افسروں سے نہیں کی جا سکتی۔ اس طرح، خبریں، تبصرے، ڈرامے، موسیقی، غرض جو کچھ بھی نشر ہوگا اعلا معیار کا ہوگا۔ چیف آیڈیٹر اور اس کا ماتحت عملہ کسی ایم۔ ڈی۔ کے ماتحت کسی انتظامی عہدہ پر متعین نہیں ہوگا، کیوں کہ وہ اس کے اہل نہیں ہوں گے۔ ہر ایک کا ذاتی سکیل ہوگا، جس میں ہر سال خود بخود ترقی ملتی جائے گی۔ ترقی نہ بھی ہو تو بھی فرق نہیں پڑے گا۔

آواز اور تصویر کا ملاپ نہ صرف دونوں اداروں کے فائدہ مند ہوگا بلکہ عوام کو بھی نہائت اعلا معیار کی نشریات ملیں گی، جس کی توقع نجی چینلوں سے نہیں کی جا سکتی۔
18 اگست 2013

علم کے کنویں کو پیاسوں تک کیسے لے جائیں

غالب نے کہا تھا، "بے درودیوار کا اک گھر بنایا چاہیئے۔" غالب کی خاہش تو پوری نہ ہو سکتی تھی لیکن آج کے دور میں جس طرح کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے بہت سے کاموں میں ہمیں زمان و مکان کی قید سے آزاد کر دیا، اسی طرح ان کی مدد سے بے درودیوار کی جامعہ ضرور بنائی جا سکتی ہے۔ یہ جامعہ اپنے کنویں کو علم کے پیاسوں کے گھروں تک لے جائے گی۔
آغاز اس طرح ہو کہ اعلا تعلیم کمشن تمام تسلیم شدہ سرکاری و غیرسرکاری یونیورسٹیوں کو پابند کرے کہ وہ جو ڈگری کورس طلبہ کو اپنے کیمپس میں پڑھائیں، بالکل وہی آن لائین بھی آفر کریں۔ جب احساس ہو کہ کیمپس میں جا کر پڑھنے والوں کی تعداد وقت گزرنے کے ساتھ اتنی کم ہو گئی ہے کہ اب وہاں تعلیم جاری رکھنا مالی طور پر ممکن نہیں رہا تو جامعات صرف آن لائین کورس ہی پڑھائیں۔ اس وقت عمارتوں کی کمی کی بنا پر زیادہ طلبہ داخل نہیں ہو سکتے۔ مجوزہ صورت میں طلبہ کی تعداد لامحدود ہو جائے گی۔ فاصلاتی تعلیم، جو اس وقت علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور ورچوئل یونیورسٹی دے رہی ہیں، سب جامعات سے ملنے لگے گی۔ اس طرح ملازمت کرنے والوں کے لیئے بھی مزید تعلیم حاصل کرنا ممکن ہو جائے گا۔
جامعات اپنے استادوں کے لیکچر اور دوسرا تعلیمی مواد رکارڈ کرنے اور اسے انٹرنیٹ پر دستیاب کرنے کے لیئے نجی شعبہ سے ضروری سہولتیں حاصل کریں گے۔
طلبہ داخلہ کے لیئے آن لائین فارم میں تمام کوائف درج کریں گے۔ جو جامعہ کے معیا پر پورے اتریں انھیں داخلہ مل جائے گا۔ لیپ ٹاپ سپلائی کرنے والی کمپنیوں سے معاہدے کیئے جائیں گے تاکہ وہ ملک بھر میں اپنے مقامی ڈیلروں کے ذریعہ داخلہ پانے والے طلبہ کو لیپ ٹاپ قسطوں پر مہیا کریں۔ قسط میں لیپ ٹاپ کی دیکھ بھال، مرمت اور براڈبینڈ انٹرنیٹ کنیکشن کا خرچ شامل ہوگا۔ قسطوں کی وصولی ڈیلروں کے ذریعہ ہوگی تاکہ وہ سروس دینے میں کوتاہی نہ کریں۔ قسطیں ڈگری کورس مکمل ہونے تک ادا کی جاتی رہیں گی۔ طالب علم کو اختیار ہوگا کہ وہ کسی بھی کمپنی کے ڈیلر سے لیپ ٹاپ لے۔
جامعہ استادوں سے کہے گی کہ وہ اپنے اپنے مضمون کے لیکچر تیار کریں۔ مضمون کا نصاب وہی ہوگا جو اعلا تعلیم کمشن نے مقرر کیا ہو۔ لیکچر دینے والے کی شکل ابتدائی چند منٹ کے بعد دکھائی نہ دے۔ اس کی جگہ لیپ ٹاپ کی سکرین پر نقشے، خاکے، تصویریں، ویڈِیو، وغیرہ نظر آئیں گے تاکہ لیکچر بہتر طور پر سمجھ میں آ سکے۔ آخر میں مزید مطالعہ کے لیئے اضافی مواد کی نشاندہی ہوگی، جو اعلا تعلیم کمشن کی ویب سائیٹ پر تمام جامعات کے طلبہ کے لیئے بلا قیمت دستیاب ہوگا۔ اس میں جرنل اور کتابیں بھی شامل ہوں گی۔ اس وقت بھی اعلا تعلیم کمشن کی طرف سے ہزارہا جرنل اور کتابیں انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔
ہر طالب لیپ ٹاپ پر روزانہ لیکچر سنا کرے گا۔ اس کے بعد لیکچر میں تجویز کیئے گئے اضافی مواد کا مطالعہ کرے گا۔ ہر لیکچر کے آخر میں سوالات ہوں گے، جن کے جواب دینے سے معلوم ہوگا کہ طالب علم لیکچر کہااں تک سمجھ سکا ہے۔ جوابات انٹرنیٹ کے ذریعہ چیک کیئے جائیں گے۔ اگر جوابات غیرتسلی بخش ہوں گے تو طالب سے لیکچر دوبارہ سن کر جوابات دینے کے لیئے کہا جائے گا۔ اگر لیکچر میں کوئی بات واضح یا درست نہ ہو تو طالب اس کی نشان دہی کر سکے گا۔ لیکچر دینے والا استاد جواب دینے کا پابند ہوگا۔
طلبہ جامعہ کو معمولی ماہانہ فیس ادا کیا کریں گے، جو اعلا تعلیم کمشن طے کرے گا۔ یہ فیس بظاہر بہت کم لیکن درحقیقت کافی ہوگی۔ ہر مضمون کے استاد کو اس کے لیکچروں پر رائلٹی ملا کرے گی۔ اگر فی طالب دس روپے ملیں اور جامعہ کے 10 ہزار طلبہ اس کا لیکچر سنیں تو اسے ایک لاکھ روپے ماہانہ ملیں گے۔ اگر اس کے لیکچر دوسری جامعات بھی اپنے طلبہ کو دیں تو رائلٹی اسی حساب سے بڑھ جائے گی۔ لیکچر تو ایک ہی دفعہ رکارڈ ہوں گے۔ اس کے بعد استاد انھیں طلبہ کی رائے کے مطابق  جاءے ھبہتر اور زیادہ واضح بنائے گا۔ وہ ریسرچ کر کے تازہ ترین معلومات شامل کرتا رہے گا۔ مفید اضافی مواد کی نشاندہی بھی کرتا رہے گا۔ جامعہ سائنسی تجربات کے لیئے کسی نزدیکی ڈگری کالج یا جامعہ کی لیب میں انتظام کرائے گی۔
اگر کسی جامعہ کے طلبہ اتنے کم ہوں کہ ان کی فیس اس کے اخراجات کے لیئے ناکافی ہو تو وہ یا تو زیادہ طلبہ کو داخلہ کے لیئے راغب کرے گی، کسی اور جامعہ مِیں مدغم ہو جائے گی یا بند کر دی جائے گی۔ ایک وقت ایسا بھی آ سکتا ہے جب جامعات کے ادغام سے ڈگری کورسوں کے لیئے ایک ہی جامعہ وجود میں آ جائے۔ باقی جامعات صرف ایم۔ فل۔ اور پی۔ ایچ۔ ڈی۔ کے لیئے مخصوص ہو جائیں۔
جامعہ ہر مضمون کے لیئے استاد رکھے گی۔ وہ ہر لیکچر کے بارے میں طلبہ کے سوالوں کے جوابات ای میل سے دیا کریں گے۔ اگر بہت ضروری ہو تو سکائیپ، گوگل، وغیرہ کے ذریعہ سوال جواب ہو سکیں گے، جن پر کال کا کوئی خرچ نہ ہوگا۔ تاہم ایک وقت میں زیادہ کالیں سننا ممکن نہ ہوگا۔ جامعہ کے استاد اپنے اپنے شعبہ کے طلبہ کے لیئے تحقیقی مضامین بھی لکھا کریں گے اور انھیں ای میل سے بھیجا جائے گا یا جامعہ کی ویب سائیٹ پر رکھا جائے گا۔ اس طرح ریسرچ جرنل چھاپنے اور طلبہ تک پہنچانے کے اخراجات نہیں ہونگے۔ وہ اسی طرح تحقیقی کتابیں بھی لکھ کر مہیا کریں گے۔

طلبہ اپنی سہولت کے مطابق گھر بیٹھے وہی تعلیم حاصل کریں گے، جن کے لیئے انھیں اس وقت جامعہ جانا پڑتا ہے، ہزاروں روپے ماہانہ فیس دینی پڑتی ہے، درسی کتابیں خریدنی پڑتی ہیں، سینکڑوں روپے آنے جانے پر خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ اس طرح اعلا تعلیم اتنی سستی اور آسان ہو جائے گی کہ نہ طلبہ کو وظائف دینے کی ضرورت رہے گی، نہ حکومت کو اعلا تعلیم کے لیئے امداد دینی ہوگی۔ یوں کنواں چل کر علم کے تمام پیاسوں تک پہنچے گا۔ صرف پیاس شرط ہوگی۔ 
21 اگست 2013

Monday, August 12, 2013

اثاثوں کی اصل مالیت کیسے ظاہر کرائی جائے

الیکشن کمشن اسمبلیوں کے ارکان سے ہر سال اثاثوں کے گوشوارے طلب کرتا ہے۔ گوشوارے جمع نہ کرائے جائیں تو رکنیت معطل کی جا سکتی ہے۔ لیکن ارکان اثاثوں کی تفاصیل سے قانون کا مذاق اڑاتے ہیں۔ الیکشن کمشن کے لیئے بھی ممکن نہیں کہ وہ ایک ایک اثاثہ کی پڑتال کرے اور اس کی صحیح مالیت کا تعین کرے۔ مسئلہ کا حل یہ ہے کہ الیکش کمشن اثاثوں کے بارے میں سچ اگلوانے کے لیئے ایک ایسا طریقہ اپنائے، جس سے مقصد صحیح طور پر پورا ہو جائے۔
کمشن ہر رکن کے اثاثوں کا گوشوارہ پورے کا پورا اپنی ویب سائیٹ پر ڈال دے۔ اس کے بعد دعوت عام دے کہ جو شہری سمجھتا ہے کہ کسی اثاثہ کی حقیقی مالیت ظاہر نہیں کی گئی وہ اسے خریدنے کی پیشکش کر دے۔ وہ ظاہر کردہ مالیت سے کم از کم 20 فی صد زیادہ دینے کو تیار ہو تو مرکزی حکومت رقم کی وصولی کے بعد اس کے نام منتقلی کا حکم جاری کر دے۔ وہ یہ حکم نامہ دکھا کر ضلع کچہری میں اپنے نام رجسٹری کرا لے۔ مالیت بہت کم ظاہر ہونے کی بنا پر کئی لوگ اثاثہ خریدنے کی خاہشمند ہوں گے۔ ایسی صورت میں کھلے عام بولی لگائی جائے۔ جو سب سے زیادہ بولی دے، اثاثہ اس کے نام کر دیا جائے۔ بولی میں جو زیادہ سے زیادہ قیمت لگے اس میں سے رکن اسمبلی کی ظاہر کردہ مالیت اسے دے دی جائے اور باقی رقم سرکاری خزانہ میں جمع کرا دی جائے۔ اگر ایسا اثاثہ نکل آئے جو ظاہر نہ کیا گیا ہو وہ ویسے ہی ضبط کر لیا جائے۔
ممکن ہے کہ رکن اسمبلی ظاہر کردہ مالیت سے 20 فی صد زیادہ رقم دے کر خود ہی خریدنا چاہے۔ اول تو اس کی کامیابی کا امکان کم ہے کیونکہ کہیں زیادہ رقم دینے والے کئیِ لوگ ہوں گے۔ پھر بھی پابندی لگائی جا سکتی ہے کہ رکن اسمبلی خود یا اس کا کوئی قریبی عزیز نہ خرید سکے۔ اس طرح جو بھی خریدے گا وہ ادا کردہ قیمت سے کم پر رکن اسمبلی کو اثاثہ منتقل نہیں کر سکے گا۔
جب ارکان اسمبلی اثاثے ہاتھ سے جاتے رہنے کے ڈر سے گوشوارہ میں اصل قیمت دکھائیں گے تو ان کے لیئے ایک اور مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔ ایف۔ بی۔ آر۔ (فیڈرل بیورو آف ریونیو) نوٹس جاری کر کے پوچھے گا کہ اثاثوں پر کتنا ٹیکس دیا گیا۔ اگر پورا ٹیکس دیا بھی گیا تو وہ ثبوت مانگے گا کہ اثاثہ واقعی جائز آمدنی سے خریدا گیا تھا۔ اگر کالا پیسہ تھا تو اس پر ٹیکس مع جرمانہ وصول کیا جائے گا۔
اثاثے ظاہر کرنے کی پابندی سرکاری ملازموں پر بھی ہے۔ ان کے گوشوارے بھی ایف۔ بی۔ آر۔ کی ویب سائیٹ پر ڈال دیئے جائیں۔ ارکان اسمبلی کے اثاثوں کی طرح سرکاری ملازموں کے اثاثے خریدنے کے لیئے بھی دعوت عام دی جائے۔ جو سب سے زیادہ بولی لگائے یا کم از کم ظاہر کردہ مالیت سے 20 فی صد زیادہ دے، اثاثہ اس کے نام منتقل کر دیا جائے۔
ایک قدم اور اٹھا کر تمام انکم ٹیکس دینے والوں کو بھی دائرہ اختیار میں لایا جائے۔ انکم ٹیکس کے ساتھ جمع کرایا گیا اثاثوں کا گوشوارہ بھی ویب سائیٹ پر ڈال دیا جائے اور اسے خریدنے کے لیئے بھی دعوت عام دی جائے۔
پوری مالیت ظاہر نہ کرنے والے اثاثے چھپانے کی کوشش بھی کر سکتے ہیں۔ وہ اثاثہ کسی اور کے نام کرا سکتے ہیں۔ اسے "بے نامی" کہتے ہیں، یعنی اثاثہ کا اصل مالک کوئی اور ہے لیکن نام کسی اور کے ہو۔ اس پر بھی گرفت ہو سکتی ہے۔ اگر دس ملین روپے کی کوٹھی کسی کے نام ہے اور وہ 30 ہزار روپے ماہانہ پر ملازم ہے تو ظاہر ہے یہ بے نامی کا کیس ہے۔ ایف۔ بی۔ آر۔ بے نامی مالک سے پوچھ سکتا ہے کہ اثاثہ خریدنے کے لیئے رقم کہاں سے آئی۔ جواب تسلی بخش نہ ہو تو اثاثہ ضبط کر لیا جائے۔
شہری جائداد کی خریداری پر پورا ٹیکس وصول کر کے بھی کثیر آضافی آمدنی ہو سکتی ہے۔ دیہات میں زرعی اراضی کے لیئے حق شفع کا قانون ہے۔ کوئی قریبی رشتہ دار یا ساتھ والی اراضی کا مالک عدالت میں دعوی کر سکتا ہے کہ اس کا خریداری کا حق فائق ہے اور وہ اراضی کی اتنی ہی قیمت دے کر خریدنا چاہتا ہے۔ قانون کا مقصد یہ تھا کہ باہر سے آ کر کوئی شخص اراضی نہ خرید سکے کیوں ایک اجنبی کو گائوں والے ممکن ہے اپنے درمیان برداشت نہ کریں۔ چنانچہ حق شفع روکنے کے لیئے خریدار کم کی بجائے اصل سے بھی زیادہ قیمت انتقال یا رجسٹری میں لکھواتے ہیں!
اسی طرح کا حق شفع کا قانون شہری جائداد کے لیئے بھی بنایا جا سکتا ہے۔ اس میں رشتہ دار یا ہمسایہ ہونے کی شرط نہ ہو۔ کوئی بھی شخص دعوی کر سکے کہ جس قیمت پر کوئی جائداد فروخت کی گئی ہے وہ اس سے 20 فی صد زیادہ دے کر خریدنا چاہتا ہے۔ اس طرح اگر کوئی جائداد بیچنے والا ٹیکس بچانے کے لیئے رجسٹری کراتے ہوئے جائداد کی قیمت کم ظاہر کرے تو خریدار کو دھڑکہ لگا رہے گا کہ کوئی اور حق شفع استعمال کر کے نہ خرید لے۔ چنانچہ رجسٹری میں قیمت اصل سے زیادہ لکھوائی جائے گی۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ حق شفع کا دعوی کرنے والا تو شائد سامنے نہ آئے لیکن حکومت کو ٹیکس جائیداد کی حقیقی مالیت پر ملے گا جو اس وقت ملنے والے ٹیکس سے کہیں زیادہ ہوگا۔
مجوزہ حل سے کئی فائدے ہوں گے:
1 ارکان اسمبلی، سرکاری ملازموں اور عام انکم ٹیکس گزاروں کے گوشواروں کی اصل مالیت ظآہر ہونے سے سینکڑوں بلین روپے کی اضافی آمدنی ہوگی، چاہے نیلامی سے ہو یا اضافی ٹیکس سے۔
2 کسی کے لیئے اثاثوں کی اصل مالیت چھپانا ممکن نہیں رہے گا اور چھپا بھی لی تو بھاری نقصان ہوگا۔
3 کوئی اثاثہ ظاہر نہ کیا گیا تو ضبط ہو جائے گا۔
4 کالے پیسہ سے بنائے گئے اثاثے ضبط کیئے جا سکیں گے کیونکہ اس پر ٹیکس ادا نہیں کیا گیا ہوگا یا قانون کی خلاف ورزی کی گئی ہوگئی۔ 
13 اگست 2013

صحیح طریقہ عوام کی شکایات دور کرنے کا

کسی پڑھے لکھے دیہی نوجوان کو تھانیدار نے کسی وڈیرہ کے کہنے پر بلاقصور چھترول کر دی۔ نوجوان اور تو کچھ نہ کر سکا وزیر اعلی کے نام درخاست دے دی، جس میں تفصیل لکھنے کے بعد تھانیدار کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا۔ درخاست صوبائی پولیس افسر (آئی۔ جی۔) سے ہوتے ہوئے اسی تھانیدار کے پاس "مناسب کاروائی کے لیئے" پہنچ گئی۔ اس نے نوجوان کو بلایا اور درخاست دکھا کر کہا، "بتائو، اب تمھارے ساتھ وہی سلوک کروں جو پہلے کیا تھا؟" نوجوان حیران بھی تھا اور پریشان بھی۔ وہ تو سوچ رہا تھا کہ تھانیدار کی معطلی کا حکم آئے گا۔ پھر انکوائری ہوگی، جس مین اسے بیان دینے کے لیئے بلایا جائے گا۔ آخر میں ایک شریف اور بے قصور شہری پر بلاجواز تشدد کرنے کی بنا پر تھانیدار کو برخاست کر دیا جائے گا۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہو گیا۔ تھانیدار نے مزید کچھ کرنے کی بجائے نوجوان سے کہا، "اپنی درخاست پر لکھ کر دو کہ تھانیدار نے مجھے مطمئن کر دیا ہے۔ اب میری شکائت پر مزید کاروائی نہ کی جائے۔" نوجوان بھاری قدموں سے چلتے ہوئے جانے لگا تو تھانیدار نے کہا، "آئندہ اگر کوئی شکائت ہو تو سیدھے میرے پاس آنا۔ افسران بالا کو زحمت دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔"
سرکاری اہل کاروں کے خلاف شکائتوں پر عام طور پر ایسی ہی کاروائی ہوا کرتی ہے۔ کبھی کبھی کوئی حکمران خود کو خادم خلق ثابت کرنے کے لیئے شکائت سیل کھول دیتا ہے۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگ شکائتیں لے کر آنے لگتے ہیں۔ میڈیہ کے لوگ پاس بیٹھ جاتے ہیں اور عوامی دلچسپی کی شکایات کی خبریں بناتے رہتے ہیں۔ اہل کار ہر درخاست کو متعلقہ محکمہ یا شعبہ کو مارک کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد اہل کاروں کو پتہ نہیں چلتا کہ اس پر کیا کاروائی ہوئی۔ انھیں تو نئی درخاستوں کا ڈھیر نپٹانے ہوئے سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی۔ کچھ عرصہ کے بعد شکایات سیل بند کر دیا جاتا ہے۔
اصل میں مسئلہ درخاست کاغذ پر لکھے جانے سے پیدا ہوتا ہے۔ کسی افسر کے لیئے ممکن نہیں کہ وہ کاروائی کے لیئے نیچے بھیجی جانے والی ساری درخاستوں کا رکارڈ اور ان کی نقلیں اپنے دفتر میں رکھے۔ چنانچہ اصل درخاست ہی چلتی جاتی ہے، جب تک چل پائے۔ راستہ میں کوئی اسے گم کر دے تو سائل کی بدقسمتی۔
مسئلہ کا حل یہ ہے کہ کاغذ پر لکھی درخاست وصول ہی نہ کی جائے۔ ایک اندازہ کے مطابق اس وقت ہمارے ہاں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے افراد 30 ملین کے قریب ہیں۔ یہ تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔ بہت سے عرضی نویسوں کے پاس بھی کمپیوٹر ہیں۔ کوئی نہ کوئی جاننے والے بھی آسانی سے مل سکتا ہے  جس کے پاس کمپیوٹر ہو۔ چنانچہ اگر درخاستیں صرف ای میل سے یا ویب سائیٹ پر آن لائین وصول کی جائیں گی تو سائلوں کو زیادہ زحمت نہیں ہوگی۔
ضرورت الیکٹرانی درخاستوں پر الیکٹرانی طریقہ سے کاروائی کرنے کی ہے۔ یہ کس طرح ہوگا؟ ہر وزیر اعلا کے دفتر میں شعبہ شکایات کھولا جائے، جو شکایات صرف اپنے ای میل پتہ پر وصول کیا کرے۔ فرض کریں کہ اس بار کوئی پڑھا لکھا دیہاتی اپنے تھانیدار کے خلاف درخاست بھیجتا ہے۔ شعبہ شکایات خودکار طریقہ سے درخاست پر نمبر لگاتا ہے اور کاروائی رپورٹ پہنچانے کی آخری تاریخ لکھتا ہے۔ ایک کاپی صوبائی پولیس افسر کو ای میل سے بھیجتا ہے اور دوسری سائل کو۔ صوبائی پولیس افسر کے دفتر میں شکایات نپٹانے والا شعبہ درخاست کو متعلق ضلع پولیس افسر کو بھیجتا ہے اور مقررہ دنوں میں کاروائی کی رپورٹ طلب کرتا ہے۔ ضلع پولیس افسرون تک تو سب کے پاس کمپیوٹر ہونگے اور ای میل بھی۔ اس سے نیچے ابھی وقت لگے گا۔ چنانچہ ضلع کا شعبہ شکایات ہر شکائت اور اس پر ضلع پولیس افسر کے حکم کا پرنٹ نکال کر متعلق تھانیدار کو بھیجے گا اور مقررہ دنوں میں کاروائی اور اس کی مفصل رپورٹ بھیجنے کے لیئے کہے گا۔ ایک نقل ڈی ایس پی کو بھی بھیج جائے گی۔
تھانیدار سائل کو تو گولی دے سکتا ہے لیکن افسران بالا کو نہیں کیونکہ غلط بیانی پر وہ برخاست ہو سکتا ہے۔ تحریری رپورٹ ضلع افسر کو جائے گی تو وہ ای میل سے صوبائی افسر کو بھیج دے گا، جہاں سے ای میل سے ہی وزیر اعلا کے دفتر جائے گی۔ سارے عمل کا رکارڈ کمپیوٹر میں ہوگا۔ اس طرح نہ فائل گم ہوگی اور نہ درخاست ضائع ہوگی۔ اگر کاروائی پوری طرح نہ ہوئی یا بروقت مکمل نہ ہوئی تو رپورٹ ہوگی۔
پولیس ہی کی طرح، دوسرے محکموں کے بارے میں شکایات بھی پہلے محکمہ کے سکیرٹری کو اور وہاں سے اس کے ضلعی افسر کے پاس جائے گی۔ وہ نیچے سے رپورٹ لے کر سیکرٹری کو بھیجے گا، جو اسے وزیر اعلا کے دفتر پہنچائے گا۔ ہر محکمہ کا سربراہ ہر شکائت پر بروقت تسلی بخش کاروائی کرانے کا ذمہ دار ہوگا۔ اگر کاروائی مکمل نہ ہو یا غیرضروری تاخیر ہو تو وزیر اعلا کو رہورٹ دی جائے گی۔ وزیر اعلا کی پرسش پر سیکرٹری اپنی سبکی کی سزا ان ماتحتوں کو دے گا، جنھون نے تسلی بخش کاروائی نہ کی یا غیرضروری تاخیر کی۔
تمام صوبوں کے وزراء اعلا کی طرح وزیر اعظم بھی اپنے دفتر میں شکایات سیل بنائیں اور اسی طرح مرکزی حکومت کے بارے عوام کی شکایات دور کریں۔ وہ مرکزی حکومت کے خودمختار اور نیم خودمختار اداروں کے بارے میں بھی شکایات دور کرائیں۔
ای میل سے شکائت وہ سارے مسائل ختم کر دے گی، جو کاغذ پر لکھی درخاست پیدا کرتی ہے۔ کسی رجسٹر کی ضرورت نہ ہوگی، جس پر شکائت کا اندراج کیا جائے۔ شکائت متعلق اہل کاروں تک پہنچنے میں دنوں کی بجائے منٹ لگیں گے۔ رپورٹ کے لیئے یاددہانی کے خط بار بار نہیں لکھنے پڑیں گے۔ شکائت یا رپورٹ کے راستے میں گم ہونے کا امکان نہیں رہے گا۔
مجوزہ طریقہ سے ایک بہت بڑا فائدہ ہوگا۔ چونکہ ہر شکائت براہ راست وزیر اعلا یا وزیر اعظم کے دفتر جائے گی، ہر وزارت، محکم، شعبہ، وغیرہ کے سربراہ سے نیچے تک سب کو دھڑکہ لگا رہے گا کہ پتہ نہیں کس کوتاہی یا بدعنوانی پر شکائت ہو جائے۔ چنانچہ سب افسر اور اہلکار پوری کوشش کریں گے کہ کوئی شکائت پیدا ہی نہ ہو۔
13 اگست 2013

سیاچن اور فاٹا کا حل یہ ہے

جنگ اور امن کے فیصلے حکومت ہی کیا کرتی ہے۔ فوج تو صرف دشمن سے لڑتی ہے۔ پچھلی حکومتوں کی نااہلی اور کوتاہ اندیشی کی بنا پر سیاچن اور فاٹا میں فوجی آپریشن کیئے گئے، جو ابھی تک ختم نہیں ہوئے۔
سیاچن کا مسئلہ اپریل 1984 میں پیدا ہوا جب پتہ چلا کہ مقبوضہ کشمیر میں کسی مقامی فوجی کمانڈر نے سیاچن گلیشیئر کے کچھ حصہ پر قبضہ کر لیا ہے۔ ویران برفانی زمین پر کس نے مزاحمت کرنی تھی۔ ہندوستانی کمانڈر صرف فتح کا جھنڈہ لہرانا چاہتا تھا۔
شملہ معاہدہ (1972) میں کنٹرول لائین کی نشان دہی کی گئی۔ نقشہ پر چوٹی NJ9842 سے آگے مشرق اور شمال مشرق میں چینی سرحد تک لائین جنگ بندی لائین قرار دی گئی لیکن موقع پر نشان دہی نہ کی گئی۔
جب خبر شائع ہوئی تو ہمارے ہاں ہر طرف سے جوابی کاروائی کا مطابہ ہونے لگا۔ فوجی حکمران عوامی رد عمل کا سامنا کرنے کے عادی نہیں ہوتے۔ چنانچہ جنرل ضیاء الحق نے گھبرا کر سیاچن پر فوج بھیجنے کا حکم دے دیا۔ ساتھ ہی پیپلز پارٹی والوں کے بارے میں کہا کہ وہ "ایک بنجر اور پتھریلے گلیشیئر کے لیئے مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں جہاں گھاس کا پتہ تک نہیں اگتا۔" مطلب تھا کہ بے آب و گیاہ جگہ پر قبضہ ختم بھی کرا لیا تو عملی طور پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ دوسری طرف، ہندوستانی فوج بھی مقبوضہ علاقہ خالی کرنے میں سبکی سمجھتی، چاہے وہاں بیٹھے رہنے سے بھاری مالی اور جانی نقصان ہوتا رہے۔
سیاچن میں 2003 میں جنگ بندی تو ہو گئی لیکن فوجوں کی واپسی پر اتفاق نہ ہوا۔ ہندوستان نے مظالبہ کیا کہ نقشہ پر متنازعہ علاقہ کو اس کا مقبوضہ دکھایا جائے۔ پاکستان کا کہنا تھا کہ جب کنٹرول لائین طے ہوئی تو علاقہ پر ہندوستان کا قبضہ نہ تھا۔ اب اس کی جارحیت کو کیسے تسلیم کیا جائے؟
بتایا گیا ہے کہ اپریل 1984 سے پچھلے سال اپریل تک آٹھ ہزار فوجی ہلاک ہوئے۔ پانچ ہزار ہندوستانی تھے۔ جنگ بندی کے بعد سے دونوں طرف بیشتر اموات سردی سے ہوئیں۔ اندازہ ہے کہ ہمیں تقریبا 5٫4 بلین روپے سالانہ اور ہندوستان کو 30 بلین روپے سالانہ خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ اپریل 2012 میں ہمارے 150 کے قریب جوان برف کے تودہ تلے دب گئے۔ اس حادثہ نے صورت حال کی سنگینی کو اجاگر کر دیا۔
مسئلہ کا حل یہ ہے کہ ہماری پارلیمنٹ ایک قرارداد منظور کر کے حکومت سے کہے کہ سیاچن گلیشیئر سے اپنی فوج یک طرفہ طور پر واپس بلا لے۔ ہندوستان ظاہر ہے اپنی فوج وہیں رکھے گا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا؟ مقبوضہ جموں و کشمیر بھی تو اس کے قبضہ میں چلا آ رہا ہے۔ اگر ہم وہاں ہندوستان کے سات لاکھ تک فوجی اور نیم فوجی برداشت کرتے چلے آ رہے ہیں تو محض پانچ ہزار کی سیاچن میں موجودگی بھی کر سکتے ہیں۔ جب پوری ریاست مذاکرات یا جنگ کے نتیجہ میں آزاد ہو جائے گی تو سیاچن بھی اس میں شامل ہوگا۔ اس وقت تک ہندوستانی فوج خوش ہوتی رہے کہ اس کا قبضہ ہے۔
یہ قبضہ بھی زیادہ دیر تک نہیں رہے گا۔ جب صرف ہندوستانی فوج سیاچن پر رہے گی تو اس ملک کی اپوزیشن اور میڈیہ شور مچائیں گے کہ ان کے فوجی بلامقصد کیوں مر رہے ہیں اور بلین ہا روپوں کا سالانہ نقصان کیوں کیا جا رہا ہے۔ ہندوستانی فوج کے پاس یہ جواز بھی نہ رہے گا کہ وہاں لڑائی ہو سکتی ہے۔ اگر وہ گلیشیئر سے اتر کر آزاد کشمیر کے میدانی علاقہ میں آ جاتی ہے تو وہاں ہماری فوج اس کا "پرجوش استقبال" کرے گی۔ جب اندرونی سخت دبائو کی بنا پر ہندوستانی فوج بھی واپس چلی جائے گی تو مسئلہ خود بخود ختم ہو جائے گا۔
سیاچن ہی کی طرح عملیت پسندی سے کام لیتے ہوئے فاٹا کا مسئلہ بھی حل کیا جا سکتا ہے۔ فاٹا کے لیئے مقامی حکومتوں کا قانون دس سال سے تیار ہے۔ مرکزی حکومت یہ قانون فاٹا میں نافذ کر کے انتخابات کرا دے۔ ایجنسی ناظمین اور کونسلر اپنے اپنے علاقہ سے پوری طرح آگاہ ہوں گے۔ وہ ملکی اورغیرملکی دہشت گردوں کی شناخت کر کے انھیں نکل جانے پر مجبور کر سکیں گے۔ اگر کسی جگہ مزاحمت زیادہ ہو تو فوج سے مدد لی جا سکتی ہے۔
مقامی حکومتوں کے قیام سے بحالی اور ترقی کے سارے کام بھی ہو سکیں گے۔ جب فاٹا میں سیاسی جماعتوں کو کام کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے اور قومی اسمبلی کے لیئے ان کے نمائندے براہ رسات چنے جاتے ہیں تو وہاں مقامی حکومتیں کیوں قائم نہیں ہو سکتیں؟
ایک کام، جو بہت پہلے ہونا چاہیئے تھا، اب بھی کیا جا سکتا ہے۔ پارلیمنٹ قرارداد منظور کرے کہ ہم نیٹو، امریکہ اور افغانستان کی طالبان سے جنگ میں شریک نہیں، نہ تھے۔ سرحد کی حفاظت ہم بالکل کریں گے لیکن وہاں اتنی ہی فوج رکھیں گے جتنی دوسری طرف ہوگی۔ اپنی طرف اتنی ہی سرحدی چوکیاں رکھی جائیں گی جتنی دوسری طرف ہوں گی۔ ویزہ کے بغیر آنا جانا نہیں ہوگا۔ سرحد کی نگرانی کی جتنی ذمہ داری دوسری طرف کی ہے، ہماری اس سے زیادہ نہیں۔ اس قرارداد کو نظرانداز نہیں کیا جا سکے گا۔ آخر امریکی حکومت بھی تو اپنی کانگرس کی قرارداوں کی پابند ہوتی ہے۔
ہماری طرف سے افغان طالبان کی کسی بھی قسم کی مدد پر اعتراض ہو تو آئرلینڈ کی مثال دی جا سکتی ہے۔ جب آئرش ریپبلیکن آرمی شمالی آئرلینڈ میں جدوجہد کر رہی تھی، آئرلینڈ کی حکومت نے اسے کوئی مدد نہ دی۔ لیکن آئرلینڈ کے عوام اس کی ہر طرح سے مدد کرتے رہے کیونکہ وہ ان کے ہم مذہب تھے۔ اگر ہماری طرف کے پٹھان افغانستان کے طالبان کی مدد کرتے ہیں تو اس پر کیسے اعتراض ہو سکتا ہے؟
اگر پھر بھی افغانستان کی جنگ میں پہلے کی طرح تعاون پر اصرار کیا جائے تو جواب دیا جائے کہ پہلے افغانستان ڈیورنڈ لائین کو تسلیم کرے۔ جب انگریزوں کے دور میں یہ سرحد تسلیم کی جاتی رہی تو قیام پاکستان کے ساتھ ہی کیوں نامنظور ہو گئی؟ اگر وہ تسلیم نہیں کرتا تو ہم کس سرحد کے پار کاروائی کے لیئے تعاون کریں؟
31 جولائی 2013

بجلی کی تقسیم کس طرح کی جائے

اگر آپ باغ کے مالک سے پھل اور گوالہ سے دودھ براہ راست لیں تو قیمت کم ترین ہوگی۔ جیسے جیسے بیچ میں کوئی آتا جائے گا، ریٹ بڑھتا جائے گا۔ بیچ میں آنے والے کو وچولہ، دلال، آڑھتی، بیوپاری، کمشن ایجنٹ، یا ذخیرہ اندوز کہتے ہیں۔ وہ طرفین کا استحصال کرتا ہے۔ اگر وہی کام حکومت کرے تو اسے کیا کہیں گے؟
جب واپڈا خود بجلی پیدا کرتا اور ہم تک پہنچاتا تھا تو اس وقت بھی چوری ہوتی تھی لیکن اتنا نقصان نہیں ہوتا تھا ۔ پھر دہائی-1990 میں منتخب (مگر غیرجمہوری) حکومتوں کا دور آیا اور ہمارے خود ساختہ نمائندوں کو کھل کھیلنے کا موقع ملا۔ ان کے ساتھ نجی سرمایہ کاری کے نام پر عالمی لٹیرے بھی مل گئے۔ واپڈا سے کہا گیا کہ وہ آبی وسائل تک محدود ہو جائے۔ اس کا بجلی سے کوئی تعلق۔ نہ ہوگا۔ (ہمارے میڈیہ کو ابھی تک اس کی خبر نہیں ملی۔ وہ واپڈا ہی کو بجلی کے مسائل کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔)
بجلی کے لیئے کئی وچولے پیدا کر لیئے گئے۔ کئی نئی کمپنیاں بنائی گئیں۔ ان میں بجلی پیدا کرنے کے لیئے تھیں: پیپکو (پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی)، جینکو 1 (جام شورو پاور جنریشن کمپنی)، جینکو 2 (سنٹرل پاور جنریشن کمپنی)، جینکو 3 (ناردرن پاور جنریشن کمپنی) اور جینکو 4 (لاکھڑہ پاور جنریشن کمپنی)۔ بجلی کی ترسیل کے لیئے نیشنل ٹرانسمشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی بنائی گئی۔ بجلی صارفین تک پہنچانے کے لیئے آٹھ ڈسکو (ڈسٹریبیوشن کمپنیاں) بنائی گئیں۔ کیسکو (کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی) کی پہلے ہی نج کاری کی جا چکی تھی۔
ان سب سے بالا نیپرا بنائی گئی، یعنی نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی۔ یہی لائسنس جاری کرتی اور یہی بجلی کے ریٹ طے کرتی ہے۔ کہنے کو تو عوام کے مفاد کے تحفظ کے لیئے ہے لیکن دراصل سرمایہ کاروں کے لیئے کام کرتی ہے۔
واپڈا کے پاور ونگ کی تنظیم نو سے ملکی اور غیر ملکی لٹیروں کے لیئے راستہ صاف کرنے کا آغاز کیا گیا۔ اس وقت تو ساری کمپنیوں کی مالک مرکزی حکومت ہے۔ چونکہ سب لمیٹڈ کمپنیاں ہیں، حکومت کسی وقت بھی کہہ سکتی ہے کہ ان کی ناقص کارکردگی کی بنا پر انھیں نجی تحویل میں دے دیا جائے گا۔ چونکہ ملکی سرمایہ کار اتنی بڑی کمپنیاں نہیں خرید پائیں گے، غیرملکی میدان میں آ جائیں گے۔ کیسکو (کراچی الیکٹرک کمپنی) کے معاملہ میں یہی ہوا۔ نجکاری کے بعد غیرملکی سرمایہ کار کو کھلی چھٹی ہے، جو چاہے صارفین سے سلوک کرے۔ لوگ چیخ پکار کر رہے ہیں لیکن حکومت نہ کمپنی واپس اپنی تحویل میں لے سکتی ہے اور نہ اصلاح احوال کر سکتی ہے۔
فی الحال، یہ شوشہ چھوڑا گیا ہے کہ بجلی کی تقسیم صوبوں کو دے دی جائے۔ اس کا مطلب ہے مرکزی حکومت میں سیاست کار اور بیوروکریٹ جو کچھ کر رہے ہیں، وہ ان کے صوبائی ہم عصر بھی کریں۔ گویا یک نہ شد، دو شد -- بلکہ پنج شد۔ ہندوستان نے یہی کیا۔ اب وہاں صوبوں کے بجلی بورڈ خسارہ میں چلتے ہیں۔ یہی نہیں۔ ایک دوسرے کی بجلی چوری بھی کرتے ہیں۔
آپ آسانی سے سوچ سکتے ہیں کہ بجلی کی تقسیم صوبوں کے کنٹرول میں آنے کے بعد کیا ہوگا۔ جو بھی پارٹی برسراقتدار ہوگی، اس کے حامی صنعت کار اور تاجر دھڑلہ سے بجلی چوری کریں گے۔ جو نہیں کریں گے وہ بل دینا ضروری نہیں سمجھیں گے۔ وزیروں اور لیڈروں سے ارکان اسمبلی بھی پیچھے نہیں رہیں گے۔ ان کے منظور نظر بھی کھل کھیلیں گے۔ بجلی کی چوری بہت بڑھ جائے گی اور بلوں کی نادہندگی بھی۔ لوڈ شیڈنگ بھی ہوگی اور بجلی بھی مہنگی ہوتی جائے گی۔
جب پانی سر سے گزرنے لگے گا تو عوام کو طفل تسلی دی جائے گی کہ تقسیم کار کمپنیوں کی نج کاری کی جائے گی، جس سے سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔ نئے مالک فرسودہ تاریں، کھمبے اور ٹراسفارمر تبدیل کریں گے، نئے گرڈ سٹیشن بنائیں گے، بجلی چوری ختم کر دیں گے اور بجلی بھی سستی کر دیں گے۔
تقسیم کار کمپنیوں کی نج کاری کرنا نائی کے ہاتھ میں داڑھی دینا ہوگا۔ کراچی کے عوام کو نج کاری کا بڑا تلخ تجربہ ہے، جہاں کیسکو اپنے بجلی گھر بند رکھ کر معاہدہ کے تحت تقریبا 750 میگاواٹ باقی ملک سے لیتی رہی ہے کیوں کہ سستی پڑتی تھی۔ عوام لے دے کے نیپرا سے رجوع کریں گے لیکن اس نے کراچی والوں کی کون سی مشکل آسان کی ہے جو باقی ملک کی کرے گی؟
تقسیم کار کمپنیاں بجلی سستی کرنے کی بھی کوشش نہیں کریں گی۔ آخر بجلی گھروں والے بھی تو انھی کے بھائی بند ہوں گے، جو مبینہ طور پر 35 سے 45 فی صد تک منافع کما رہے ہیں۔ وہ اس میں سے کچھ حصہ تقسیم کار کمپنیوں کو دے دیا کریں گے۔ نجی کمپنی مرضی کی مالک ہوگی، مہنگی بجلی خریدے یا سستی۔ کوئی اسے مجبور نہ کر سکے گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تقسیم کار کمپنیاں اپنے بجلی گھر بنالیں، جن سے سستی بجلی لے کر مہنگی بیچیں۔ یہ مت بھولیں کہ سرمایہ دار پیسہ کمانے کے لیئے پیسہ لگاتا ہے، عوام کی بھلائی کے لیئے نہیں۔ جب حکومت عوام کے مفاد کے لیئے کام نہیں کرتی تو سرمایہ کار سے کیسے اس کی توقع کی جا سکتی ہے؟
مسئلہ کا حل یہ ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو صارفین کے حوالہ کر دیا جائے۔ ہر کنیکشن والے کو ایک حصہ برائے نام قیمت پر دے دیا جائے۔ کمپنی کا سربراہ مرکزی پبلک سروس کمشن پوری طرح چھان پھٹک کے بعد نامزد کرے۔ تاہم وہ چھ ماہ کے بعد کمپنی کے حصہ داروں (صارفین) سے اعتماد کا ووٹ لے۔ پھر ہر 12 ماہ کے بعد اعتماد کا ووٹ لینا ہوگا۔ جب تک عوام اس سے مطمئن ہوں، وہ کام کرتا رہے۔

اگر تقسیم کار کمپنیوں کی نج کاری کی گئی تو بڑی تباہی ہوگی۔ اگر نجکاری کے عمل میں ہمارے دشمن ملکوں نے غیرملکی سرمایہ کاری کی آڑ میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا کنٹرول لے لیا تو ملکی معشت کو اتنی تباہی کا سامنا ہوگا کہ پھر، بقول پرویز مشرف، پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہوگا۔
24 جولائی 2013 

گلی کون سی،مکان کدھر ہے؟

ہمارے دیہات میں مکانوں کے نمبر نہیں ہوتے۔ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں۔ جہاں ہر کوئی ہر کسی کو جانتا ہو، وہاں نمبروں کی ضرورت نہیں پڑتی۔ آپ گائوں میں جائیں اور جس کے پاس جانا ہے اس کا نام لیں۔ کوئی نہ کوئی آپ کو اس کے گھر لے جائے گا۔
گائوں میں خط پہنچانے کے لیئے بھی مکان نمبر کی ضرورت نہیں پڑتی۔ پتہ اس طرح لکھا جاتا ہے: ضلع فلاں، تحصیل فلاں، ڈاک خانہ فلاں (اگر گائوں ہی میں ڈاک خانہ ہو تو ڈاک خانہ خاص)، موضع فلاں اور آخر میں فلاں ولد فلاں کو ملے۔ (مکتوب الیہ کی ولدیت اس لیئے کہ ایک نام کے دو یا زیادہ اشخاص ہو سکتے ہیں۔) البتہ حیرانی والی بات یہ ہے کہ شہروں میں مکانوں اور دکانوں کے نمبر تو ہوتے ہیں لیکن ترتیب وار نہیں۔ اس کی وجہ بھی گائوں سے ہے۔
اگر کوئی گائوں میں نیا مکان زیر کاشت اراضی پر بنانا چاہے تو مالک سے جگہ خریدتا ہے۔ مالک پٹواری سے کہتا ہے کہ اس کے کھیت میں سے خریدی گئی جگہ کی نشاندہی کر دے۔ پٹواری اپنے رکارڈ میں اس کی کھتونی، خسرہ نمبر وغیرہ کا اندراج کر کے گائوں کے نقشہ میں اسے "جائے سکنی" ظاہر کرتا ہے، یعنی رہائشی جگہ۔ چونکہ جائے سکنی میں کاشت نہیں ہو سکتی، پٹواری ربیع اور خریف کی گرداوری میں اسے شامل نہیں کرتا۔ گرداوری میں بتایا جاتا ہے کہ کس کھیت میں کون سی فصل کاشت کی گئی ہے تاکہ اس کے مطابق مالیہ اور آبیانہ وصول کیا جائے۔
جائے سکنی کا اندراج گائوں کی طرح شہروں میں بھی ہوتا رہا ہے۔ آزادی کے وقت صرف چند شہروں کی آبادی لاکھوں میں تھی۔ باقی ہزاروں میں تھے۔ ہر شہر کے اردگرد دیہات تھے، جن کے اپنے پٹواری تھے۔ جو شہری نیا مکان بنانا چاہتا وہ گائوں کا کوئی کھیت یا اس کا کچھ حصۃ خرید لیتا۔ پٹواری گائوں کی طرح اسے بھی اپنے رکارڈ میں جائے سکنی ظاہر کرتا۔ جب خریدار مقامی بلدیہ سے مکان یا دکان کی تعمیر کے لیئے اجازت لیتا تو اسے اجازت ناموں کے رجسٹر کے نمبر شمار کی ترتیب سے نمبر دے دیا جاتا۔ یہی مکان یا دکان کا نمبر ہوتا۔ سڑک کے دونوں طرف جس ترتیب سے دکانیں یا مکان بنتے، اسی ترتیب سے ان کے نمبر ہوتے۔
ظاہر ہے کہ تعمیرات ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ نہ ہوتیں۔ اگر ایک کا نمبر 61 ہے تو ساتھ والی کا 97 کیوں کہ اس کا نمبر ان کے بعد آیا، جو سڑک پر مختلف اوقات میں تعمیر ہو چکی تھیں۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا، یہاں تک کہ سڑک کے دونوں طرف ساری زمین پر مکان، دکانیں اور دوسری عمارتیں بن گئیں۔
اب ضرورت ہے کہ ہر سڑک کی تمام تعمیرات کو ترتیب وار نمبر دِیئے جائیں۔ لیکن ابھی تک مقامی حکومتوں نے توجہ نہیں دی۔ البتہ نئئِ آبادیوں میں پلاٹ بنائے گئے، جنھیں ترتیب وار نمبر دیئے گئے۔ اس میں بھی کوتاہی ہو گئی۔ نقشہ پر تو سارے پلاٹ نظر آتے ہیں لیکن زمین پر کئی دفعہ پتہ نہیں چلتا کہ ایک قطار کے بعد دوسری کے نمبر کہاں سے شروع ہوتے ہیں۔
مسئلہ دو طریقوں سے حل کیا جا سکتا ہے۔ اول، سروے آف پاکستان سے ہر شہر کے بڑے سکیل پر نقشے بنوائے جائیں، جیسے 1:5000، یعنی نقشہ پر ایک سنٹی میٹر برابر ہو 5000 سنٹی میٹر یا 50 میٹر۔ دوسری صورت یہ ہے کہ گوگل ارتھ پروگرام سے سب سے بڑے سکیل پر ہر شہر کے نقشے لے لیئے جائیں۔ ان میں ہر ضلع حکومت ہر شہر کے تمام مکانوں، دکانوں، عمارتوں کے نمبر درج کر دے۔ یہی نمبر اس کے اپنے رکارڈ میں درج کیئے جائیں۔ مالکان سے کہا جائے کہ آئندہ نئے نمبر استعمال کریں۔
جب نئے سرے سے نمبر لگائے جائیں تو سڑک کے ایک طرف نمبر طاق اور دوسری طرف جفت ہوں۔ طاق والی طرف 21، 23، 25، وغیرہ اور جفت والی طرف 22، 24، 26، وغیرہ ہوں۔ آپ نے جس دکان یا دفتر میں جانا ہے، اس کا نمبر طاق ہے تو آُپ شروع ہی میں طاق نمبروں والی طرف ہو لیں۔ یہ نہ ہو کہ قریب پہنچ کر پتہ چلے کہ جہاں جانا ہے وہ سڑک کے دوسری طرف ہے اور آپ کو چلتے ٹریفک میں سے سڑک پار کرنی پڑے۔
مکانوں، دکانوں، وغیرہ، کو ترتیب وار نمبر دینے سے بڑے فائدے ہوں گے: آُپ سڑک پر کہیں بھی ہوں، آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ جہاں جانا ہے وہ وہاں سے کتنی دور ہے۔ مثلا، آُپ نمبر 37 کے پاس کھڑے ہیں اور منزل نمبر 75 ہے، تو آُپ اندازہ لگالیں گے کہ فاصلہ کتنا ہوگا۔ اگر آُپ کو پتہ ہو کہ مکان نمبر 41 کہاں ہے تو آپ فورا سمجھ جائیں گے کہ 56 نمبر کہاں ہوگا۔ ڈاکیہ نمبروں کے مطابق اپنی ڈاک ترتیب دے لے گا اور پتوں میں نمبروں کے لحاظ سے لفافے، پیکٹ، وغیرہ، پہنچاتا جائے گا۔ کوریئر اور دوسرے ڈلیوری والوں کو بھِی یہی سہولت ہوگی۔ پیدل چلنے والے کو نمبر معلوم ہوگا تو وہ کسی سے پتہ پوچھے بغیر منزل تک پہنچ جائے گا۔
کبھی کبھار پڑنے والی ضرورت پوری کرنے میں بھی آسانی ہوگی۔ اگر الیکشن کمشن کو الیکشن کرانے کے لیئے ووٹر لسٹوں کی گھر گھر تصدیق کرانی ہو تو اس کے اہل کاروں کو آسانی ہوگی۔ کوئی مکان ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوگا۔ جب مردم شماری کا وقت آئے گا تو اہل کاروں کو خانہ شماری کرنے میں میں آسانی ہوگی۔ سب باتوں کی ایک بات کہ زندگی میں ترتیب ہونی چاہیئے۔
جب بالترتیب نمبروں میں اتنے فائدے ہیں تو شہروں کے ساتھ کیوں نہ گائوں میں بھی لگائے جائیں؟ یہ ناممکن ہے۔ نمبر اسی صورت میں دیئے جا سکتے ہیں جب مکان کا نقشہ منظور شدہ ہو۔ یہ تبھی ہو سکتا ہے جب گائوں کے سارے مکان نئی جگہ پر نئے سرے سے بنیں اور ہر مکان دوسروں سے الگ ہو۔ اس وقت تک یہی صورت رہے گی کہ آپ کو ایک پرانی فلم کے الفاظ میں پوچھنا پڑے گا، "پلٹ تیرا دھیان کدھر ہے؟ گلی کون سی، مکان کدھر ہے؟" 
26 جولائی 2013

وظیفے دینے اور لینے والوں میں بہتر رابطہ کیسے ہو

کہتے ہیں کہ دایاں ہاتھ کسی کو کچھ دے تو بائیں ہاتھ کو پتہ نہیں چلنا چاہیئے۔ لیکن جب بائیں ہاتھ بھی اسی کو دینے لگے جسے دایاں دے رہا ہے تو گڑبڑ ہو جاتی ہے۔ ایسا ہی معاملہ تعلیمی وظیفوں کا ہے۔ دینے والوں کی لاعلمی کی بنا پر ایک طالب علم کو کئی کئی وظیفے مل جاتے ہیں اور کئی محروم رہ جاتے ہیں۔
ماضی میں وظیفہ دینے والے اداروں اور تنظیموں کا آپس میں رابطہ بہت مشکل تھا۔ انھیں پتہ ہی نہ چلتا کہ کون وظیفہ دے رہا ہے اور کس کس کو۔ ہر کوئی براہ راست درخاستیں وصول کرتا اور وظیفہ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرتا۔ درخاست میں جو کوائف دیئے جاتے، ان کی تصدیق کا بھی کوئی آسان طریقہ نہ تھا۔ یہ بھی معلوم نہ کیا جا سکتا کہ جسے وظیفہ دیا جا رہا ہے وہ کسی اور سے بھی لے رہا ہے یا نہیں۔ چونکہ فیصلہ پاس کیئے ہوئے آخری امتحان کے نمبروں کی  بنا پر کیا جاتا، جسے ایک تنظیم سے وظیفہ مل جاتا اسے دوسرے بھی حقدار قرار دیتے۔ یوں ایک طالب علم کئی کئی وظیفے بیک وقت وصول کرتا اور کئِ حقدار محروم رہ جاتے۔ اب انٹرنیٹ کی بدولت لاعلمی اور رابطہ نہ ہونے کا جواز نہیں رہا۔
مسئلہ کئی مرحلوں میں حل ہوگا۔ پہلے مرحلہ میں وظیفہ دینے والا ہر ادارہ یا تنظیم اپنی ویب سائیٹ بنائے۔ اگر یہ مشکل نظر آئے تو کسی سے بلاگ بنوا لیں۔ اس پر کچھ خرچ نہ ہوگا۔ اس پر ادارہ اپنے مقاصد واضح کرے، جس کے لیئے وہ وظیفے دیتا ہے۔ اپنے قواعد بتائے، جن کے تحت وظیفہ دیا جاتا ہے۔ آخر میں وظیفہ لینے والوں کے نام، مع ولدیت، پورا پتہ اور شناختی کارڈ یا ب فارم کا نمبر دیئے جائیں تاکہ دوسرے اداروں کو آگاہی ہو۔
ثانوی تعلیمی بورڈ اور کئی سرکاری اور نیم سرکاری ادارے بھی وظیفے دیتے ہیں۔ اس وقت ان سے مکمل تفصیل لینا خاصہ مشکل ہوتا ہے۔ وہ اپنی اپنی ویب سائیٹ پر وظائف کی پوری تفصیل دیا کریں۔ جنھیں وظیفہ دیا جائے، ان کے نام، ولدیت، پتہ اور دوسری تفصیل بھی دیں۔ اس طرح وظیفہ دینے والی نجی تنظیمیں فیصلہ کرنے سے پہلے چیک کر لیا کریں گی کہ امیدوار کو کوئی سرکاری وظیفہ تو نہیں مل رہا۔
انٹرنیٹ کی بدولت اب اشتہار دینے کی ضرورت نہیں رہی، جو بیشتر تنظیموں کے لیئے ویسے ہی ممکن نہ تھا۔ سرکاری ادارے دو چار اخباروں میں اشتہار دے دیتے لیکن پھر بھی سب کو اطلاع نہ ہوتی۔ اب وہ بھی اشتہار دیئے بغیر اپنی ویب سائیٹ سے سب کو آگاہ کر سکتے ہیں۔
دوسرے مرحلہ میں ایک مرکزی ادارہ نامزد ہونا چاہیئے، جس سے وظیفہ دینے والے اور لینے والے دونوں رابطہ کر سکیں۔ اعلا تعلیم کمشن یہ ذمہ داری لے سکتا ہے۔ اس کی ویب سائیٹ پر وظیفہ دینے والے تمام سرکاری و غیرسرکاری اداروں کا تعارف دیا جائے۔ اس کے ساتھ ان کی ویب سائیٹ یا بلاگ کا لنک ہو تاکہ اس پر کلک کر کے پوری تفصیل معلوم ہو سکے۔
کمشن کا وظیفہ دینے میں کوئی کردار نہیں ہوگا کیونکہ کوئی بھی ادارہ یا تنظیم نہیں چاہے گی کہ وہ اس کی طرف سے وظیفہ کا فیصلہ کرے۔ ان کا اپنا معیار ہوگا اور اپنی اپنی ترجیحات۔ جب کسی کو وظیفہ دینے کا فیصلہ ہوگا تو اس کی تفصیل کمشن کو بھیج دی جائے گی۔ چنانچہ کمشن صرف رابطہ کا کام کرے گا۔
تیسرے مرحلہ میں کمشن تمام وظیفوں کا تجزیہ کر کے الگ الگ شعبوں میں تقسیم کر دے گا۔ اس طرح جس شعبہ میں دلچسپی ہوگی، امیدوار اسی بارے میں مزید معلومات لے گا۔ کمشن ڈیٹابیس بنائے گا، جس میں تمام وظائف کی تفصیل ہوگی۔ کسی بھی نام کے بارے میں معلوم کیا جا سکے گا کہ اسے کسی نے وظیفہ دیا ہے یا نہیں۔ اس طرح کسی کو ایک سے زیادہ وظیفہ نہیں مل سکے گا۔ اگر غلطی سے مل بھی جائے تو کمشن کا ڈیٹا بیس نشان دہی کر دے گا۔ اس کی اطلاع دوسرا ظیفہ دینے والے ادارہ کو دی جائے گی تاکہ وہ وظیفہ منسوخ کر دے۔ کمشن تمام اداروں اور تنظیموں سے کہے کہ جونہی کسی کو وظیفہ دیں تو کمشن کو اسی وقت اس کی اطلاع دیں۔
چوتھے مرحلہ میں وظیفہ دینے والوں کو امیدواروں کے کوائف کی تصدیق کا نظام اپنانا ہوگا۔ انٹرنیٹ کے استعمال سے اس میں آسانی ہوگی۔ مثلا، کسی طالب علم کا نتیجہ متعلق ثانوی تعلیمی بورڈ یا جامعہ سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اس تعلیمی ادارہ سے بھی تصدیق کی جا سکتی ہے، جہاں اس نے داخلہ لیا ہے۔ اگر وظیفہ میں فیس بھی شامل ہو تو اس کی ادائگی براہ راست تعلیمی ادارہ کو کر دی جائے۔ اگر طالب علم نے ہوسٹل میں بھی داخلہ لیا ہے تو اس کے اخراجات بھی براہ راست ادارہ میں جمع کرا دیئے جائیں۔ اگر کسی طالب کی فیس پہلے جمع ہو چکی ہو تو ادارہ وظیفہ دینے والوں کو مطلع کر دے گا۔ ہر جامعہ اور کالج کے ساتھ کسی نہ کسی بینک کی شاخ ہوتی ہے۔ وظیفہ لینے والے سے کہا جائے کہ وہاں کھاتہ کھولے، تاکہ ٹیوشن فیس اور ہوسٹل فیس سے زائد رقم اسے براہ راست پہنچتی رہے۔
وظیفہ کے لیئے صرف میرٹ ہی اہم نہیں ہونا چاہیئے۔ یہ درست ہے کہ امتحان میں نمبر قابلیت کا اعتراف ہوتا ہے۔ لیکن مالی حالت بھی اہم ہے۔ اگر اچھی پوزیشن لینے والوں کے والدین سارا خرچ برداشت کر سکتے ہیں تو انھیں کرنا چاہیئے۔ اس طرح وہ طالب علم بھی وظیفہ لے سکیں گے، جن کے نمبر تو اچھے ہیں لیکن والدین کی مالی حالت اچھی نہیں۔
وظیفہ دینے والوں کو اپنی سوچ بھی بدلنی ہوگی۔ اکثر میڈیکل اور انجنیئرنگ کے طلبہ کو وظیفے دیئے جاتے رہے ہیں۔ اب ان شعبوں میں پہلے ہی ضرورت سے زیادہ طلبہ ہیں۔ نجی کالجوں کی وجہ سے تعداد مزید بڑھ جاتی ہے۔ چنانچہ تعلیم پوری کرنے والوں کو ملازمت بڑی مشکل سے ملتی ہے۔ اس لیئے دوسرے اہم سشعبوں میں وظیفے دینے کی ضرورت ہے، جیسے، انفرمیشن ٹیکنالوجی، اکائونٹس، ٹیلی کام، بزنس ایڈمنسٹریشن۔
وظیفہ دینے والوں کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا جب ایک طالب علم کی ضروریات چند سو روپوں سے پوری ہو جاتی تھیں۔ اب کالج کی فیس ہزاروں میں ہوتی ہے۔ کتابیں بھی بہت مہنگی ہیں۔ اگر ہوسٹل میں رہے تو کئی ہزار مزید خرچ ہوتے ہیں۔ اس لیئے وظیفہ کی رقم اتنی ہونی چاہیئے کہ بنیادی ضرورتیں پوری ہوتی رہیں۔
عام طور پر فلاحی ادارے وظیفے دیتے ہیں۔ اب کاروباری اداروں کو بھی یہ کار خیر کرنا چاہیئے۔ اس میں ان کا اپنا فائدہ ہے۔ مثلا، دوا ساز کمپنی ایسے کورسوں کے لیئے وظیفے دے سکتی ہے، جو اس کے کاروبار سے متعلق ہیں۔ مثلا، بائیو ٹیکنالوجی، کیمسٹری، فارمیسی، وغیرہ۔ وظیفہ کے ساتھ شرط رکھی جا سکتی ہے کہ طالب علم کو مقررہ مدت تک کمپنی میں ملازمت کرنے کا بانڈ بھرنا ہوگا۔
تعلیم جتنی مہنگی ہو رہی ہے، اتنی ہی وظیفوں کی ضرورت اور اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔ اس لیئے وظیفہ دینے اور لینے والوں کا رابطہ جامع اور آسان ہونا چاہیئے تاکہ کوئی مستحق محروم نہ ہو اور کسی کی رقم ضائع نہ ہو۔
18 جولائی 2013

Sunday, August 11, 2013

سڑکیں ہو جائیں سونی --- کس کے لیئے؟

مشہور لوک داستان کی صاحباں چاہتی تھی کہ گلیاں سنسان ہو جائیں تاکہ بگی گھوڑی پر سوار مرزا یار بلا کسی رکاوٹ کے اس کے پاس آ سکے۔ کچھ اسی طرح کی خواہش کار والوں کی بھی ہے۔ وہ بھی چاہتے ہیں کہ سڑکوں پر صرف کاریں ہی ہوں تاکہ فراٹے بھرتی ہوئی آ جا سکیں۔
سڑکیں کاروں کے لیئے نہیں بنی تھیں۔ ان پر زیادہ تر بگیاں، ٹانگے اور بیل گاڑیاں چلتی تھیں۔ کہتے ہیں نواز شریف نے جب لاہور سے راولپنڈی اور پھر آگے پشاور تک موٹروے بنانے کا فیصلہ کیا تو کسی خوشامدی نے کہا، "میاں صاحب آپ کا کارنامہ تو شیر شاہ سوری سے بھی بڑا ہے۔" انھوں نے پوچھا، "اس نے کیا کیا تھا؟" "اس نے ہندوستان کی سب سے بڑی سڑک بنائی۔" "اس کی لمبائی کتنی تھی؟" تقریبا ڈھائی ہزار کلومیٹر۔" میاں صاحب مسکرائے اور کہا، "پھر تو اس نے بڑا مال بنایا ہوگا!"
شیر شاہ سوری سے پہلے بھی سڑک موجود تھی اور کابل سے چٹاگانگ تک جاتی تھی۔ اس نے اسے نئے سرے سے بنوایا۔ انگریزوں نے اس کا نام "گرانڈ ٹرنک روڈ" رکھا۔ ہمارے ہاں اب بھی اسے "جی۔ ٹی۔ روڈ" کہتے ہیں، حالانکہ اب یہ لاہور سے کراچی کی طرف مڑ جاتی ہے اور اسے "شاہراہ پاکستان" کہتے ہیں۔اس کا سرکاری نام "نیشنل ہائی وے، این-5" ہے۔ ہندوستان میں بھی اسے سرکاری طور پر "نیشنل ہائی وے" ہی کہا جاتا ہے۔ گویا اب "جی۔ ٹی۔ روڈ" صرف تاریخ کا حصہ ہے۔
جب درمیانی طبقہ کی آمدنی بڑھی تو کار نے پر پرزے نکالے اور دوسری سواریوں کے پر کاٹے جانے لگے۔ ٹانگہ شہر کے مضافات تک محدود کر دیا گیا۔ کراچی میں گھوڑا گاڑی یا وکٹوریہ ختم ہو گئی۔ اسلام آباد میں تو رکشہ بھی ممنوع ہے۔ وزیر اعظم شوکت عزیز کے دور میں شرح سود اتنی کم کر دی گئی کہ کاریں لیز یعنی قسطوں پر لینا آسان ہو گیا۔ چنانچہ ان کا ہجوم ہونے لگا۔ جو سڑکیں سست رفتار گاڑیوں کو نکالے جانے کے بعد کھلی کھلی لگنے لگی تھیں ایک بار پھر تنگ محسوس ہونے لگیں۔ اس پر ٹریفک کی روانی کے نام پر کار والوں کے لیئے بہت کچھ ہونے لگا۔ سڑکیں چوڑی ہونے لگیں۔ ٹریفک کے اشارے کم سے کم کیئے جانے لگے۔ سڑک کو دو حصوں میں تقسیم کے لیئے بنائی گئی رکاوٹ میں کٹ کم سے کم کر دیئے گئے۔ سڑکوں پر، بقول "حسب حال" کے عزیزی، "پل اگ آئے ہیں۔" کہیں سڑک کے اوپر سے سڑک گزر رہی ہے اور کہیں نیچے سے۔
کاروں کی تعداد مسلسل بڑھتی رہی تو وہ وقت آ جائے گا، جو دنیا کے کئی شہروں میں آ چکا ہے۔ کہیں پابندی ہے کہ کار کے رجسٹریشن نمبر کا آخری ہندسہ جفت ہے تو ایک دن گاڑی سڑک پر نہ لائیں اور طاق ہے تو اگلے دن گھر پر رکھیں۔ بعض شہروں کے مرکزی حصوں میں داخلہ کے لیئے ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ بعض جگہوں پر کاروں کا داخلہ ہی بند ہے۔ جگہ جگہ پارکنگ بنا کر میٹر لگا دیئے گئے ہیں۔
یہ سب عارضی حل ہیں۔ ہمیں اس حال تک پہنچنے سے پہلے ہی مستقل حل اپنا لینے چاہیئیں۔ ان میں سے چند یہ ہوں گے:
اول، تمام بڑی سڑکوں کو ایک ہی دفعہ اتنا چوڑا کر دیا جائے کہ ان کی دونوں طرف چپہ برابر یا ایک مربع سنٹی میٹر جگہ بھی کچی نہ رہے۔ وہ زمانہ لد گیا جب سڑکوں کے کنارے چھڑکائو کیا جاتا تھا۔ چنانچہ اب جب کسی گاڑی کا بائیں طرف والا پہیہ کچہ پر اترتا ہے تو گرد کا غبار چاروں طرف چھا جاتا ہے۔ سڑک کو تھوڑا تھوڑا چوڑا کرنا ترک ہونا چاہیئے، کیونکہ اس سے صرف ٹھیکیداروں اور ان سے رشوت لینے والے سرکاری عملہ کو فائدہ ہوتا ہے۔
دوم، ہر بڑی سڑک کے دونوں طرف فٹ پاتھ بنائے جائیں۔ ان پر اگر تہ بازاری، چھابڑی یا کوئی اور تجاوز ہو تو ٹریفک وارڈن کو سزا دی جائے۔ اسی صورت میں پیدل چالنے والے فٹ پاتھ استعمال کر پائیں گے۔
سوم، ہر بڑی سڑک پر فٹ پاتھ کے ساتھ والی لین پبلک ٹرانسپورٹ کے لیئے مخصوص کر دی جائے۔ عام طور پر سڑک پر لین کی نشاندہی ٹوٹی ہوئی چوڑی لکیر سے کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ گاڑی اشارہ دے کر دوسری لین میں جا سکتی ہے۔ جب پٹی سالم ہو تو اس لین میں دوسری لین والا داخل نہیں ہو سکتا۔ ایسی ہی سالم پٹی پبلک ٹرانسپورٹ والی لین کو علیحدہ کرے۔ اس لین میں صرف بسیں اور ویگنیں چلیں۔ سامنے کوئی اور گاڑی نہ ہونے سے ان کی رفتار تیز ہو سکے گی اور ساتھ والی لین میں کاروں کا رستہ بھی نہیں رکے گا۔
چہارم، کارساز کمپنیوں کو تین پہیوں اور دو سیٹوں والی کاریں بنانے کے لیئے کہا جائے اور ان پر ہر قسم کے ٹیکسوں سے استثنا دیا جائے۔ یہ کاریں بیشتر ضرورتوں کے لیئے 800 سی سی والی کاروں کی جگہ لے لیں گی۔ چھوٹی باڈی کی بنا پر ان کی لاگت رکشہ کے لگ بھگ برابر ہوگی۔ پٹرول کی کھپت بھی بہت کم ہوگی۔ اگر ہماری زندگی میں بجلی سستی ملنے لگی تو انھیں بیٹری سے بھی چلایا جا سکے گا۔
پنجم، کار خریدنے سے پہلے اجازت نامہ ضروری قرار دیا جائے۔ حکومت طے کر لے کہ ہر ضلع میں سال بھر میں کتنی نئی کاروں کو سڑکوں پر آنے دیا جائے گا۔ مثلا، شہر میں جتنی کاریں چل رہی ہوں ان کی پانچ فی صد کے برابر نئی کاروں کی اجازت دی جائے۔ یہ پرمٹ پرکشش رجسٹریشن نمبروں کی طرح نیلام کیئے جائیں۔ اس طرح کاروں کی مانگ کم ہو جائے گی۔ کاریں بنانے والے پابندی پر احتجاج کریں گے۔ ان سے کہا جائے کہ اپنی کوالٹی اور قیمت عالمی معیار پر لا کر کاریں دوسرے ملکوں کو برامد کریں۔

ان تمام تجویزوں پر پوری طرح عمل سے سڑکیں پھر سے سونی تو نہیں ہوں گی البتہ ان پر ٹریفک خاصہ کم ہو جائے گا۔ رہا مرزا یار، تو اسے سونی گلیوں یا سڑکوں کی ضرورت نہیں۔ اب وہ کبھی کبھار اور چھپ چھپ کر ملنے کی بجائے موبائل فون پر جب چاہے جتنی دیر چاہے اپنی صاحباں سے باتیں کر سکتا ہے۔ 
8 اگست 2013