Monday, August 12, 2013

وظیفے دینے اور لینے والوں میں بہتر رابطہ کیسے ہو

کہتے ہیں کہ دایاں ہاتھ کسی کو کچھ دے تو بائیں ہاتھ کو پتہ نہیں چلنا چاہیئے۔ لیکن جب بائیں ہاتھ بھی اسی کو دینے لگے جسے دایاں دے رہا ہے تو گڑبڑ ہو جاتی ہے۔ ایسا ہی معاملہ تعلیمی وظیفوں کا ہے۔ دینے والوں کی لاعلمی کی بنا پر ایک طالب علم کو کئی کئی وظیفے مل جاتے ہیں اور کئی محروم رہ جاتے ہیں۔
ماضی میں وظیفہ دینے والے اداروں اور تنظیموں کا آپس میں رابطہ بہت مشکل تھا۔ انھیں پتہ ہی نہ چلتا کہ کون وظیفہ دے رہا ہے اور کس کس کو۔ ہر کوئی براہ راست درخاستیں وصول کرتا اور وظیفہ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرتا۔ درخاست میں جو کوائف دیئے جاتے، ان کی تصدیق کا بھی کوئی آسان طریقہ نہ تھا۔ یہ بھی معلوم نہ کیا جا سکتا کہ جسے وظیفہ دیا جا رہا ہے وہ کسی اور سے بھی لے رہا ہے یا نہیں۔ چونکہ فیصلہ پاس کیئے ہوئے آخری امتحان کے نمبروں کی  بنا پر کیا جاتا، جسے ایک تنظیم سے وظیفہ مل جاتا اسے دوسرے بھی حقدار قرار دیتے۔ یوں ایک طالب علم کئی کئی وظیفے بیک وقت وصول کرتا اور کئِ حقدار محروم رہ جاتے۔ اب انٹرنیٹ کی بدولت لاعلمی اور رابطہ نہ ہونے کا جواز نہیں رہا۔
مسئلہ کئی مرحلوں میں حل ہوگا۔ پہلے مرحلہ میں وظیفہ دینے والا ہر ادارہ یا تنظیم اپنی ویب سائیٹ بنائے۔ اگر یہ مشکل نظر آئے تو کسی سے بلاگ بنوا لیں۔ اس پر کچھ خرچ نہ ہوگا۔ اس پر ادارہ اپنے مقاصد واضح کرے، جس کے لیئے وہ وظیفے دیتا ہے۔ اپنے قواعد بتائے، جن کے تحت وظیفہ دیا جاتا ہے۔ آخر میں وظیفہ لینے والوں کے نام، مع ولدیت، پورا پتہ اور شناختی کارڈ یا ب فارم کا نمبر دیئے جائیں تاکہ دوسرے اداروں کو آگاہی ہو۔
ثانوی تعلیمی بورڈ اور کئی سرکاری اور نیم سرکاری ادارے بھی وظیفے دیتے ہیں۔ اس وقت ان سے مکمل تفصیل لینا خاصہ مشکل ہوتا ہے۔ وہ اپنی اپنی ویب سائیٹ پر وظائف کی پوری تفصیل دیا کریں۔ جنھیں وظیفہ دیا جائے، ان کے نام، ولدیت، پتہ اور دوسری تفصیل بھی دیں۔ اس طرح وظیفہ دینے والی نجی تنظیمیں فیصلہ کرنے سے پہلے چیک کر لیا کریں گی کہ امیدوار کو کوئی سرکاری وظیفہ تو نہیں مل رہا۔
انٹرنیٹ کی بدولت اب اشتہار دینے کی ضرورت نہیں رہی، جو بیشتر تنظیموں کے لیئے ویسے ہی ممکن نہ تھا۔ سرکاری ادارے دو چار اخباروں میں اشتہار دے دیتے لیکن پھر بھی سب کو اطلاع نہ ہوتی۔ اب وہ بھی اشتہار دیئے بغیر اپنی ویب سائیٹ سے سب کو آگاہ کر سکتے ہیں۔
دوسرے مرحلہ میں ایک مرکزی ادارہ نامزد ہونا چاہیئے، جس سے وظیفہ دینے والے اور لینے والے دونوں رابطہ کر سکیں۔ اعلا تعلیم کمشن یہ ذمہ داری لے سکتا ہے۔ اس کی ویب سائیٹ پر وظیفہ دینے والے تمام سرکاری و غیرسرکاری اداروں کا تعارف دیا جائے۔ اس کے ساتھ ان کی ویب سائیٹ یا بلاگ کا لنک ہو تاکہ اس پر کلک کر کے پوری تفصیل معلوم ہو سکے۔
کمشن کا وظیفہ دینے میں کوئی کردار نہیں ہوگا کیونکہ کوئی بھی ادارہ یا تنظیم نہیں چاہے گی کہ وہ اس کی طرف سے وظیفہ کا فیصلہ کرے۔ ان کا اپنا معیار ہوگا اور اپنی اپنی ترجیحات۔ جب کسی کو وظیفہ دینے کا فیصلہ ہوگا تو اس کی تفصیل کمشن کو بھیج دی جائے گی۔ چنانچہ کمشن صرف رابطہ کا کام کرے گا۔
تیسرے مرحلہ میں کمشن تمام وظیفوں کا تجزیہ کر کے الگ الگ شعبوں میں تقسیم کر دے گا۔ اس طرح جس شعبہ میں دلچسپی ہوگی، امیدوار اسی بارے میں مزید معلومات لے گا۔ کمشن ڈیٹابیس بنائے گا، جس میں تمام وظائف کی تفصیل ہوگی۔ کسی بھی نام کے بارے میں معلوم کیا جا سکے گا کہ اسے کسی نے وظیفہ دیا ہے یا نہیں۔ اس طرح کسی کو ایک سے زیادہ وظیفہ نہیں مل سکے گا۔ اگر غلطی سے مل بھی جائے تو کمشن کا ڈیٹا بیس نشان دہی کر دے گا۔ اس کی اطلاع دوسرا ظیفہ دینے والے ادارہ کو دی جائے گی تاکہ وہ وظیفہ منسوخ کر دے۔ کمشن تمام اداروں اور تنظیموں سے کہے کہ جونہی کسی کو وظیفہ دیں تو کمشن کو اسی وقت اس کی اطلاع دیں۔
چوتھے مرحلہ میں وظیفہ دینے والوں کو امیدواروں کے کوائف کی تصدیق کا نظام اپنانا ہوگا۔ انٹرنیٹ کے استعمال سے اس میں آسانی ہوگی۔ مثلا، کسی طالب علم کا نتیجہ متعلق ثانوی تعلیمی بورڈ یا جامعہ سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اس تعلیمی ادارہ سے بھی تصدیق کی جا سکتی ہے، جہاں اس نے داخلہ لیا ہے۔ اگر وظیفہ میں فیس بھی شامل ہو تو اس کی ادائگی براہ راست تعلیمی ادارہ کو کر دی جائے۔ اگر طالب علم نے ہوسٹل میں بھی داخلہ لیا ہے تو اس کے اخراجات بھی براہ راست ادارہ میں جمع کرا دیئے جائیں۔ اگر کسی طالب کی فیس پہلے جمع ہو چکی ہو تو ادارہ وظیفہ دینے والوں کو مطلع کر دے گا۔ ہر جامعہ اور کالج کے ساتھ کسی نہ کسی بینک کی شاخ ہوتی ہے۔ وظیفہ لینے والے سے کہا جائے کہ وہاں کھاتہ کھولے، تاکہ ٹیوشن فیس اور ہوسٹل فیس سے زائد رقم اسے براہ راست پہنچتی رہے۔
وظیفہ کے لیئے صرف میرٹ ہی اہم نہیں ہونا چاہیئے۔ یہ درست ہے کہ امتحان میں نمبر قابلیت کا اعتراف ہوتا ہے۔ لیکن مالی حالت بھی اہم ہے۔ اگر اچھی پوزیشن لینے والوں کے والدین سارا خرچ برداشت کر سکتے ہیں تو انھیں کرنا چاہیئے۔ اس طرح وہ طالب علم بھی وظیفہ لے سکیں گے، جن کے نمبر تو اچھے ہیں لیکن والدین کی مالی حالت اچھی نہیں۔
وظیفہ دینے والوں کو اپنی سوچ بھی بدلنی ہوگی۔ اکثر میڈیکل اور انجنیئرنگ کے طلبہ کو وظیفے دیئے جاتے رہے ہیں۔ اب ان شعبوں میں پہلے ہی ضرورت سے زیادہ طلبہ ہیں۔ نجی کالجوں کی وجہ سے تعداد مزید بڑھ جاتی ہے۔ چنانچہ تعلیم پوری کرنے والوں کو ملازمت بڑی مشکل سے ملتی ہے۔ اس لیئے دوسرے اہم سشعبوں میں وظیفے دینے کی ضرورت ہے، جیسے، انفرمیشن ٹیکنالوجی، اکائونٹس، ٹیلی کام، بزنس ایڈمنسٹریشن۔
وظیفہ دینے والوں کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا جب ایک طالب علم کی ضروریات چند سو روپوں سے پوری ہو جاتی تھیں۔ اب کالج کی فیس ہزاروں میں ہوتی ہے۔ کتابیں بھی بہت مہنگی ہیں۔ اگر ہوسٹل میں رہے تو کئی ہزار مزید خرچ ہوتے ہیں۔ اس لیئے وظیفہ کی رقم اتنی ہونی چاہیئے کہ بنیادی ضرورتیں پوری ہوتی رہیں۔
عام طور پر فلاحی ادارے وظیفے دیتے ہیں۔ اب کاروباری اداروں کو بھی یہ کار خیر کرنا چاہیئے۔ اس میں ان کا اپنا فائدہ ہے۔ مثلا، دوا ساز کمپنی ایسے کورسوں کے لیئے وظیفے دے سکتی ہے، جو اس کے کاروبار سے متعلق ہیں۔ مثلا، بائیو ٹیکنالوجی، کیمسٹری، فارمیسی، وغیرہ۔ وظیفہ کے ساتھ شرط رکھی جا سکتی ہے کہ طالب علم کو مقررہ مدت تک کمپنی میں ملازمت کرنے کا بانڈ بھرنا ہوگا۔
تعلیم جتنی مہنگی ہو رہی ہے، اتنی ہی وظیفوں کی ضرورت اور اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔ اس لیئے وظیفہ دینے اور لینے والوں کا رابطہ جامع اور آسان ہونا چاہیئے تاکہ کوئی مستحق محروم نہ ہو اور کسی کی رقم ضائع نہ ہو۔
18 جولائی 2013

No comments:

Post a Comment