Monday, August 12, 2013

اثاثوں کی اصل مالیت کیسے ظاہر کرائی جائے

الیکشن کمشن اسمبلیوں کے ارکان سے ہر سال اثاثوں کے گوشوارے طلب کرتا ہے۔ گوشوارے جمع نہ کرائے جائیں تو رکنیت معطل کی جا سکتی ہے۔ لیکن ارکان اثاثوں کی تفاصیل سے قانون کا مذاق اڑاتے ہیں۔ الیکشن کمشن کے لیئے بھی ممکن نہیں کہ وہ ایک ایک اثاثہ کی پڑتال کرے اور اس کی صحیح مالیت کا تعین کرے۔ مسئلہ کا حل یہ ہے کہ الیکش کمشن اثاثوں کے بارے میں سچ اگلوانے کے لیئے ایک ایسا طریقہ اپنائے، جس سے مقصد صحیح طور پر پورا ہو جائے۔
کمشن ہر رکن کے اثاثوں کا گوشوارہ پورے کا پورا اپنی ویب سائیٹ پر ڈال دے۔ اس کے بعد دعوت عام دے کہ جو شہری سمجھتا ہے کہ کسی اثاثہ کی حقیقی مالیت ظاہر نہیں کی گئی وہ اسے خریدنے کی پیشکش کر دے۔ وہ ظاہر کردہ مالیت سے کم از کم 20 فی صد زیادہ دینے کو تیار ہو تو مرکزی حکومت رقم کی وصولی کے بعد اس کے نام منتقلی کا حکم جاری کر دے۔ وہ یہ حکم نامہ دکھا کر ضلع کچہری میں اپنے نام رجسٹری کرا لے۔ مالیت بہت کم ظاہر ہونے کی بنا پر کئی لوگ اثاثہ خریدنے کی خاہشمند ہوں گے۔ ایسی صورت میں کھلے عام بولی لگائی جائے۔ جو سب سے زیادہ بولی دے، اثاثہ اس کے نام کر دیا جائے۔ بولی میں جو زیادہ سے زیادہ قیمت لگے اس میں سے رکن اسمبلی کی ظاہر کردہ مالیت اسے دے دی جائے اور باقی رقم سرکاری خزانہ میں جمع کرا دی جائے۔ اگر ایسا اثاثہ نکل آئے جو ظاہر نہ کیا گیا ہو وہ ویسے ہی ضبط کر لیا جائے۔
ممکن ہے کہ رکن اسمبلی ظاہر کردہ مالیت سے 20 فی صد زیادہ رقم دے کر خود ہی خریدنا چاہے۔ اول تو اس کی کامیابی کا امکان کم ہے کیونکہ کہیں زیادہ رقم دینے والے کئیِ لوگ ہوں گے۔ پھر بھی پابندی لگائی جا سکتی ہے کہ رکن اسمبلی خود یا اس کا کوئی قریبی عزیز نہ خرید سکے۔ اس طرح جو بھی خریدے گا وہ ادا کردہ قیمت سے کم پر رکن اسمبلی کو اثاثہ منتقل نہیں کر سکے گا۔
جب ارکان اسمبلی اثاثے ہاتھ سے جاتے رہنے کے ڈر سے گوشوارہ میں اصل قیمت دکھائیں گے تو ان کے لیئے ایک اور مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔ ایف۔ بی۔ آر۔ (فیڈرل بیورو آف ریونیو) نوٹس جاری کر کے پوچھے گا کہ اثاثوں پر کتنا ٹیکس دیا گیا۔ اگر پورا ٹیکس دیا بھی گیا تو وہ ثبوت مانگے گا کہ اثاثہ واقعی جائز آمدنی سے خریدا گیا تھا۔ اگر کالا پیسہ تھا تو اس پر ٹیکس مع جرمانہ وصول کیا جائے گا۔
اثاثے ظاہر کرنے کی پابندی سرکاری ملازموں پر بھی ہے۔ ان کے گوشوارے بھی ایف۔ بی۔ آر۔ کی ویب سائیٹ پر ڈال دیئے جائیں۔ ارکان اسمبلی کے اثاثوں کی طرح سرکاری ملازموں کے اثاثے خریدنے کے لیئے بھی دعوت عام دی جائے۔ جو سب سے زیادہ بولی لگائے یا کم از کم ظاہر کردہ مالیت سے 20 فی صد زیادہ دے، اثاثہ اس کے نام منتقل کر دیا جائے۔
ایک قدم اور اٹھا کر تمام انکم ٹیکس دینے والوں کو بھی دائرہ اختیار میں لایا جائے۔ انکم ٹیکس کے ساتھ جمع کرایا گیا اثاثوں کا گوشوارہ بھی ویب سائیٹ پر ڈال دیا جائے اور اسے خریدنے کے لیئے بھی دعوت عام دی جائے۔
پوری مالیت ظاہر نہ کرنے والے اثاثے چھپانے کی کوشش بھی کر سکتے ہیں۔ وہ اثاثہ کسی اور کے نام کرا سکتے ہیں۔ اسے "بے نامی" کہتے ہیں، یعنی اثاثہ کا اصل مالک کوئی اور ہے لیکن نام کسی اور کے ہو۔ اس پر بھی گرفت ہو سکتی ہے۔ اگر دس ملین روپے کی کوٹھی کسی کے نام ہے اور وہ 30 ہزار روپے ماہانہ پر ملازم ہے تو ظاہر ہے یہ بے نامی کا کیس ہے۔ ایف۔ بی۔ آر۔ بے نامی مالک سے پوچھ سکتا ہے کہ اثاثہ خریدنے کے لیئے رقم کہاں سے آئی۔ جواب تسلی بخش نہ ہو تو اثاثہ ضبط کر لیا جائے۔
شہری جائداد کی خریداری پر پورا ٹیکس وصول کر کے بھی کثیر آضافی آمدنی ہو سکتی ہے۔ دیہات میں زرعی اراضی کے لیئے حق شفع کا قانون ہے۔ کوئی قریبی رشتہ دار یا ساتھ والی اراضی کا مالک عدالت میں دعوی کر سکتا ہے کہ اس کا خریداری کا حق فائق ہے اور وہ اراضی کی اتنی ہی قیمت دے کر خریدنا چاہتا ہے۔ قانون کا مقصد یہ تھا کہ باہر سے آ کر کوئی شخص اراضی نہ خرید سکے کیوں ایک اجنبی کو گائوں والے ممکن ہے اپنے درمیان برداشت نہ کریں۔ چنانچہ حق شفع روکنے کے لیئے خریدار کم کی بجائے اصل سے بھی زیادہ قیمت انتقال یا رجسٹری میں لکھواتے ہیں!
اسی طرح کا حق شفع کا قانون شہری جائداد کے لیئے بھی بنایا جا سکتا ہے۔ اس میں رشتہ دار یا ہمسایہ ہونے کی شرط نہ ہو۔ کوئی بھی شخص دعوی کر سکے کہ جس قیمت پر کوئی جائداد فروخت کی گئی ہے وہ اس سے 20 فی صد زیادہ دے کر خریدنا چاہتا ہے۔ اس طرح اگر کوئی جائداد بیچنے والا ٹیکس بچانے کے لیئے رجسٹری کراتے ہوئے جائداد کی قیمت کم ظاہر کرے تو خریدار کو دھڑکہ لگا رہے گا کہ کوئی اور حق شفع استعمال کر کے نہ خرید لے۔ چنانچہ رجسٹری میں قیمت اصل سے زیادہ لکھوائی جائے گی۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ حق شفع کا دعوی کرنے والا تو شائد سامنے نہ آئے لیکن حکومت کو ٹیکس جائیداد کی حقیقی مالیت پر ملے گا جو اس وقت ملنے والے ٹیکس سے کہیں زیادہ ہوگا۔
مجوزہ حل سے کئی فائدے ہوں گے:
1 ارکان اسمبلی، سرکاری ملازموں اور عام انکم ٹیکس گزاروں کے گوشواروں کی اصل مالیت ظآہر ہونے سے سینکڑوں بلین روپے کی اضافی آمدنی ہوگی، چاہے نیلامی سے ہو یا اضافی ٹیکس سے۔
2 کسی کے لیئے اثاثوں کی اصل مالیت چھپانا ممکن نہیں رہے گا اور چھپا بھی لی تو بھاری نقصان ہوگا۔
3 کوئی اثاثہ ظاہر نہ کیا گیا تو ضبط ہو جائے گا۔
4 کالے پیسہ سے بنائے گئے اثاثے ضبط کیئے جا سکیں گے کیونکہ اس پر ٹیکس ادا نہیں کیا گیا ہوگا یا قانون کی خلاف ورزی کی گئی ہوگئی۔ 
13 اگست 2013

No comments:

Post a Comment