Friday, July 5, 2013

ریلوے کی اراضی بیچیں گے تو کیا ہوگا

معقول لوگ بھی بعض اوقات عقل سے عاری بات کرتے ہیں۔ آج کل ریلوے کے خسارہ کا بڑا چرچا ہے۔ کئی لوگ تجویز کر رہے ہیں کہ اسے ختم کرنے کے لیئے ریلوے کی اراضی بیچ دی جائے۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ آج کا خسارہ سابق ریلوے وزیر، حاجی غلام احمد بلور، اور ان کے ٹولہ کی بدعنوانیوں کی وجہ سے پیدا ہوا۔ عین ممکن ہے کہ کل کو اسی طرح کا کوئی اور ٹولہ آ جائے اور پھر سے اتنا ہی خسارہ پیدا کر دے۔ آج اگر اراضی بیچ دیں گے تو اس وقت کیا کریں گے؟ وہ وقت آنے پر جو کچھ کریں گے وہ ابھی کیوں نہ کیا جائے؟
ڈیڑھ سو سال پہلے جب ریلوے ہمارے ہاں بچھائی گئی تو اراضی کی قیمت برائے نام ہوتی تھی۔ چنانچہ اس وقت کی ضرورت سے کہیں زیادہ لے لی گئی تاکہ مستقبل میں مشکل نہ ہو۔ سوچ یہ تھی کہ نئی ضرورتیں ہمیشہ پیدا ہوتی رہیں گی اور انھیں پورا کرنے کے لیئے اراضی بھی درکار ہوگی۔
ریلوے کی اراضی بیچنے کی تجویز نئی نہیں۔ جب کبھی آمدنی سے اخراجات پورے نہ ہوتے، ریلوے کے وزیر اور افسر اراضی بیچنے کے لیئے سرگرم ہو جاتے۔ دعوی تو کرتے کہ خسارہ پورا کرنا چاہتے ہیں لیکن اصل مقصد کچھ اور ہوتا۔ اراضی کی مقررہ قیمت تو ہوتی نہیں۔ خریدار اپنی اسطاعت کے مطابق طے کرتا ہے۔ چنانچہ خریدار سے بڑی آسانی سے سودہ بازی کی جا سکتی اور ادا شدہ قیمت کے ساتھ خاصی رقم بطور رشوت مانگ لی جاتی، جس میں ہر ایک کا حصہ بقدر جثہ ہوتا۔ خوش قسمتی سے اکثر اوقات یا تو کوئی نہ کوئی بیچنے سے روک دیتا یا زیادہ رقبہ فروخت نہ ہو پاتا۔
بدعنوانی کی یہ شکل صرف ریلوے تک مخصوص نہ تھی۔ کسی زمانہ میں گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس چلا کرتی تھی۔ مقصد یہ تھا کہ ریلوے لائیں سے دور دیہات اور قصبات کے لوگ اس سے نزدیکی سٹیشن پہنچ جائیں اور وہاں سے گاڑی پکڑ لیں۔ ان کی سہولت کے لیئے کئی جگہوں پر بس اڈہ ریلوے سٹیشن کے ساتھ ہوتا۔
عرصہ تک نجی بس سروس بہت محدود تھی۔ ہر فرم کا اڈہ شہر ہی میں کسی جگہ ہوتا، جہاں سے چند بسیں چلتیں۔ مثلا، ْ1960 کی دہائی میں لاہور سے صرف دو فرموں کی بسیں سرگودھہ جاتیں۔ ایک فرم کی دن میں صرف دو بسیں چلا کرتیں۔ اس زمانہ میں بڑی سڑکیں بھی اتنی کم چوڑی ہوتی تھیں کہ صرف ایک بس چل سکتی۔ اگر دوسری طرف سے بھی کوئی آ جاتی تو دونوں کو ایک طرف کے پہیئے سڑک سے اتارنے پڑتے۔ کم بسیں چلنے کی ایک وجہ تو کم آبادی اور اس کی ٹرانسپورٹ کی کم ضرورت تھی اور دوسری پابندی کہ ہر روٹ کا پرمٹ حکومت سے لینا پڑتا۔ یہ رشوت کا ایک بڑا ذریعہ تھا۔ چنانچہ بارسوخ لوگ پرمٹ لے لیتے اور کمشن پر بس مالکوں کو دے دیتے۔ صدر ایوب خاں کے دور روٹ پرمٹ ختم کر دیئے گئے۔
دوسرے شعبوں کی طرح نجی ٹرانسپورٹ بھی لالچ کی بنیاد پر چلتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی دھن میں ناجائز حربوں سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ جب آبادی بڑھنے اور بیشتر سڑکیں زیادہ چوڑی ہونے سے زیادہ بسیں چلنے لگیں تو آپس میں بھی مقابلہ ہونے لگا اور گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس سے بھی۔ موخر الذکر سے مقابلہ کرنے کی بجائے سب مل کر اسے فیل کرنے میں لگ گئے۔ بدعنوانی، نااہلی اور کام چوری کے نتیجہ میں آخرکار سرکاری بس سروس بند کرا دی گئی۔ اسی پر بس نہ کیا گیا۔ اس کے اڈے بھی، جو شہروں کے مرکزی علاقوں میں تھے، رسوخ رکھنے والوں کے ہاتھ بیچ ڈالے گئے۔ اگر اڈے ہی باقی رکھے جاتے تو خود نجی بس والوں کو بڑا فائدہ ہوتا۔ سب انھیں استعمال کرتے، جس طرح سب ایئرلائین ایک ہی ہوائی اڈہ استعمال کرتی ہیں۔ انھیں شہر سے باہر بھی نہ نکالا جاتا۔ مسافروں کو بھی سہولت ہوتی۔ اب وہ جتنا کرایہ شہر سے باہر بس اڈہ تک دیتے ہیں اس سے کم میں دوسرے شہر پہنچ جاتے ہیں۔
جو بس سروس کے ساتھ ہوا، وہی پچھلی حکومت کے دور میں ریلوے کے ساتھ کیا گیا۔ ریلوے نجی بسوں سے تو اچھی طرح مقابلہ نہ کر سکتی لیکن اس کی مال گاڑیاں ٹرکوں سے کہیں کم خرچ، محفوظ اور تیز رفتار تھیں۔ چنانچہ حاجی بلور کچھ مسافر گاڑیاں تو جیسے تیسے چلاتے رہے لیکن مال گاڑیاں ساری کی ساری بند کر دیں۔ اس کے نتیجہ میں ظاہر ہے آمدنی بہت کم رہ گئی۔ حاجی صاحب کی ساری توجہ مختلف بہانوں سے حکومت سے زیادہ سے زیادہ رقوم اینٹھنے پر تھی۔ یہ خسارہ اب نئی حکومت کو ختم کرنا ہے۔ ضرورت ہے کہ اراضی بیچنے کی بجائے انجن مرمت کیئے جائیں، مال اور مسافر گاڑیاں کم از کم پہلے جتنی چلائی جائیں، بدعنوانی اور کام چوری روکی جائے اور اراضی بیچنے کا خیال سختی سے رد کر دیا جائے۔
مسئلہ کا حل یہ ہے کہ ریلوے کی اراضی پر جہاں کہیں ناجائز قبضہ ہے اسے ختم کیا جائے۔ جن افسروں کے ذ٘مہ یہ کام ہو ان کا بہانہ نہ سنا جائے کہ ناجائز قابضین مزاحمت کرتے ہیں یا عدالتوں نے حکم امتناعی دے رکھا ہے۔ اس عذر لنگ کا سہارا وہ لیتے ہیں، جو خود رشوت لے کر ناجائز قبضہ کراتے ہیں اور پھر اسے برقرار رکھتے ہیں۔ ریلوے سپریم کورٹ سے حکم جاری کرائے کہ کوئی عدالت کسی ناجائز قابض کو حکم امتناعی نہ دے۔ اس کے برعکس جو مزاحمت کرے اس سے سختی سے نپٹا جائے اور اسے قانون کے تحت سزا دی جائے۔ جو اراضی واگزار کرا لی جائے یا اس وقت استعمال میں نہیں ہے اسے پارکوں میں تبدیل کر دیا جائے تاکہ اس پر عوام کھلی فضا میں سانس لیں۔
زمین کی ضرورت دو قسم کی ہو سکتی ہے۔ اول، ریلوے اپنے ملازموں کے لیئے تین چار منزلہ فلیٹ بنائے اور انھیں برائے نام کرایہ پر دے۔ اس طرح بننے والی کالونی میں موجودہ ملازموں کی سبکدوشی پر نئے آنے والے ملازموں کو بھی رہائش ملتی رہے گی۔ دوسرے، کالونی میں ملازمین کے لیئے فلاحی ادارے بنائے، جیسے ہسپتال اور سکول۔
ریلوے کی زمین پر عمارتیں بنائی جائیں، جن میں مرکزی اور صوبائی حکومتیں اپنے دفاتر بنا سکیں، جو اس وقت شہر بھر میں بکھرے ہیں اور اپنی جگہ نہ ہونے کی بنا پر کرایہ کے گھروں میں بنائے گئے ہیں۔ ریلوے ان کا کرایہ وصول کرے۔ جب ان عمارتوں کی لاگت پوری ہو جائے تو مستقل آمدنی کا ذریعہ بن جائے گا۔
سیاسی طالع آزمائوں کو روکنے کے لیئے قانون بنایا جائے کہ ریلوے کی اراضی کہیں بھی، کبھی بھی، کسی کو بھی نہیں بیچی جائے گی۔ اگر خدشہ ہو کہ قانون کافی نہیں یا حاجی بلور جیسا وزیر اس میں کسی بھی وقت من مانی سے ترمیم کرا لے گا، تو آئین میں ترمیم کرنی ہوگی۔
اگر آئین میں ترمیم کی نوبت آئے تو پابندی لگا دی جائے کہ کسی بھی قسم کی سرکاری اراضی، شہری ہو یا دیہی، زرعی ہو یا غیرزرعی، کسی بھی حالت میں کسی کو بھی فروخت کرنے اجازت نہ ہو۔ اراضی ریاست کی ملکیت ہوتی ہے اور حکومت اس کی امین ہوتی ہے۔ اسے صرف اجتماعی مفاد کے لیئے استعمال ہونا چاہیئے، کسی فرد یا ادارہ کے فائدہ کے لیئے نہیں۔
7 جولائی

No comments:

Post a Comment