Monday, July 15, 2013

لوڈ شیڈنگ برداشت کرنے کے 12 طریقے

لوڈ شیڈنگ تو ختم ہوتے ہوتے ہوگی۔ دریں اثنا، اسے برداشت کرنا پڑے گا۔ لوڈشیڈنگ پچھلے حکمرانوں کی نااہلی کا نتیجہ ہے۔ صدر ضیاء نے صرف جنرل فضل حق، گورنر سرحد، کی مخالفت کی بنا پر کالاباغ بند کی تعمیر شروع نہ کی، جب کہ ساری تیاری مکمل تھی۔ (فضل حق سمجھتے تھے کہ مخالفت سے وہ صوبہ میں مقبول ہو جائیں گے اور سبک دوشی کے بعد سیاست کر سکیں گے۔)
بعد میں کئی عناصر کالا باغ کی مخالفت میں شامل ہو گئے۔ ان میں نجی تھرمل بجلی گھرتھے، جو سستی بجلی کا مقابلہ نہ کر پاتے، سندھ کے وہ وڈیرے، جو دریا کے کناروں پر سیلاب سے سیراب ہونے والی اراضی سے مفت میں فصلیں لیتے ہیں، چند چھوٹی چھوٹی صوبائی سیاسی جماعتیں، جن کی سیاست پنجاب دشمنی پر مبنی ہے، علاقائی زبانوں کے بعض اخبارات، جو ہندوستان کی امداد کے سہارے چلتے ہیں، ذاتی فائدہ کی خاطر نجی بجلی گھروں سے ناواجب شرطوں پر معاہدے کرنے والے حکمران اور وہ بداندیش، جنھیں ملک کی بھلائی اچھی نہیں لگتی۔
اب سیاست کار کہتے ہیں کہ کالاباغ بند اتفاق رائے سے بننا چاہیئے۔ کیا وارسک، منگلہ، تربیلہ، دیامر بھاشہ وغیرہ کسی بھی بند کی تعمیر پر صوبوں کی رائے لی گئی؟ رہیں صوبائی اسمبلیوں کی قراردادیں، تو جب قومی اسمبلی کی قراردادیں ہوا میں اڑا دی جاتی ہیں، تو صوبائی قراردادوں کی کیا وقعت ہے؟ تعمیر پر سارا خرچ مرکزی حکومت کرتی ہے۔ صوبے خرچ کچھ نہیں کرتے، صرف استفادہ کرتے ہیں۔ یا پھر سیاست کرتے ہیں۔
1990 کی دہائی میں جب پہلی بار تھرمل بجلی گھروں کے معاہدے ہوئے تو واپڈا کے کسی افسر نے کہا، "ان معاہدوں کے نتیجہ میں آخرکار اگر آُپ کو بجلی دس روپے یونٹ بھی مل گئی تو سمجھیں سستی ہے۔"
صدر پرویز مشرف نے جب مخالفت سے گھبرا کر پہلے کسی اور بند کی تعمیر شروع کرنی چاہی تو پتہ چلا کہ کسی بھی حکومت نے واپڈا کو کسی اور بند کی تعمیر کی تیاری کے لیئے کبھی نہ کہا۔ خود ان کے اپنے ساتھیوں کی کوتاہ اندیشی کا یہ حال تھا کہ جب وہ 2006 میں کالاباغ بند کی تعمیر کا فیصلہ کرنے لگے تو کہتے ہیں چودھری شجاعت نے مشورہ دیا کہ 2007 میں ہونے والے انتخابات کے بعد فیصلہ کریں ورنہ ق لیگ کو سیاسی طور پر نقصان ہوگا۔
کوتاہ اندیشی شوکت عزیز نے بھی دکھائی۔ انھوں نے شرح سود نہائت کم کردی۔ اس سے لیزنگ کو بہت فروغ ہوا اور قسطوں پر برقی آلات بڑی تعداد میں لیئے جانے لگے۔ اس سے بجلی کی کھپت منصوبہ سے کئی سال پہلے ہی پیداوار سے بڑھ گئی۔ ورنہ لوڈ شیڈنگ شروع نہ ہوتی۔
یہی نہیں۔ شوکت صاحب نے چینی کمپنی کو واپس جانے پر مجبور کر دیا، جو تھر میں بجلی کا فی یونٹ ریٹ پونے چھ امریکی سینٹ مانگ رہی تھی جبکہ شوکت صاحب سوا پانچ سینٹ سے زیادہ دینے کو تیار نہ تھے۔ اگر کمپنی اسے قبول کر لیتی تو اسے کچھ نہ بچتا۔
موجودہ حکومت نے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے بارے الیکشن سے پہلے دعوے تو بہت کیئے۔ اب دیکھیں عمل کب اور کہاں تک ہوتا ہے۔ دریں اثنا، سڑنے کڑھنے اور حکمرانوں کو برا بھلا کہنے سے کچھ نہ ہوگا۔ قہر درویش بر جان درویش کے مصداق ہمیں جیسے تیسے لوڈ شیڈنگ برداشت کرنی ہی ہوگی۔ اس کے بہت سے طریقے ہو سکتے ہیں، کچھ آسان، کچھ ذرا مشکل۔ ان میں سے 12 پیش خدمت ہیں:
-- اپنے روزمرہ کاموں کی ترتیب بدل دیں۔ مثلا، چائے پینے، کھانا کھانے یا گھومنے کے لیئے تبھی وقت نکالیں جب بتی نہ ہو۔
-- کھڑکی کے قریب سورج کی روشنی میں بیٹھیں۔ اگر صبح کا اخبار پڑھ چکے ہوں تو کوئی کتاب اٹھا لیں، جو آپ مدت سے پڑھنا چاہتے تھے لیکن اس کے لیئے وقت نہیں ملتا تھا۔ مطالعہ میں محویت سے آپ کو لوڈشیڈنگ کا احساس اس وقت ہوگا جب بتی آ جائے گی! دستی پنکھہ پاس رکھیں کہ اسی سے کچھ راحت ملے گی۔
-- دفتر میں اپنے کسی ساتھی کو پاس بلا لیں یا اس کے پاس چلے جائیں اور چائے کی پیالی پر ان امور پر یک سوئی سے بات کریں، جو ملتوی ہوتے چلے آ رہے ہوں۔ جب بتِی آ جائے تو پھر سے اپنے اپنے کام میں لگ جائیں
-- ریڈیو سنیں (بیٹری والا یا موبائل فون والا)۔ ٹیلی ویژن والی تصویریں تو نہ ہوں گی لیکن موسیقی سننے میں لطف آئے گا۔ بھولے بسرے گانے آپ کو ماضی کی یادوں میں لے جائیں گے۔ اگر ڈرامہ ہو رہا تو آپ حیران ہوں گے کہ صرف آواز سے کیفیت اور تاثرات آپ تک پہنچ رہے ہیں۔ دور دراز ملکوں کے حالات ان کے ریڈیو سٹیشنوں سے جانیں۔ غیرملکی موسیقی کا لطف لیں۔
-- میوزک پلیئر سنیں۔ ریڈیو تو وہی سنائے گا جو اس کے پروگرام میں ہے۔ اپنی پسند کی موسیقی سننے کے لیئے میوزک پلیئر کھولیں۔ اپنے پاس نہیں ہے تو کسی بچے سے مانگ لیں۔ تلاوت اور درس قرآن بھی سن سکتے ہیں۔
-- عزیزوں اور دوستوں کے ہاں جائیں۔ پہلے پتہ کر لیں کہ جہاں جا رہے ہیں وہاں بتی ہے۔ پھر اچانک جا پہنچیں۔ وہاں جانے کی وجہ ہرگز نہ بتائیں۔ ورنہ پھر کبھی خوش دلی سے آپ کا استقبال نہیں ہوگا!
-- نزدیکی مارکیٹ کا چکر لگائیں۔ گھر والوں کو بھی ساتھ لے لیں۔ اگر کچھ لینا نہیں تو ونڈو شاپنگ کریں۔ بچوں کو کھلائیں پلائیں۔ اگر گرمی زیادہ ہو تو کسی شاپنگ پلازہ میں چلے جائیں، جہاں سب کچھ ٹھنڈہ ہوتا ہے۔ واپسی پر گھر کے اس فرد کے لیئے کچھ نہ کچھ ضرور لیتے جائیں، جسے آپ رکھوالی کے لیئے گرمی اور اندھیرے میں چھوڑ آئے تھے!
-- کچھ وقت کسی ٹھنڈی جگہ گزاریں، جہاں آپ کے بیٹھنے پر کسی کو اعتراض نہ ہو۔ ایسی جگہوں میں بینک، سپرمارکیٹ، بڑی دکانیں اور لائبریریاں شامل ہیں۔ اگر چائے کی پیالی بوجھ نہ ہو تو کسی ریسٹورینٹ میں بیٹھ سکتے ہیں۔
-- کار میں گھومنے جائیں۔ بیوی بچوں کو بھی ساتھ لے لیں۔ ایسی جگہ جائیں، جہاں آنے جانے میں لوڈ شیڈنگ کا وقت گزر جائے۔
-- رات کو جب بتی جائے تو گھر والوں کو اکٹھا کر لیں۔ اگر کھانے کا وقت نہ ہو تو گپ شپ کریں۔ ہر ایک سے باری باری پوچھیں کہ ان دنوں کیا ہو رہا ہے۔ جنھیں شکائت ہو کہ آپ انھیں کافی وقت نہیں دیتے، ان پر خاص توجہ دیں۔ حالات حاضرہ پر رائے پوچھیں۔ (لوڈ شیڈنگ کے بارے میں ہرگز نہیں کہ وہ دکھتی رگ کو چھیڑنا ہوگا!)
-- فون بک نکالیں اور ان دوستوں اور عزیزوں کو کال کریں، جن سے عرصہ سے بات نہیں ہوئی۔ وہ آپ کے بغیر کسی مقصد کے فون کرنے پر بڑے خوش ہوں گے۔ انھیں یہ ہرگز نہ بتائیں کہ آپ وقت گزاری کر رہے ہیں!
-- جب کرنے کو کچھ نہ ہو تو ٹیک لگا کر بیٹھ جائیں یا بستر پر لیٹ جائیں اور روزمرہ کے امور سے لے کر زندگی کے بنیادی سوالوں تک سب پر غور کریں۔ خاموشی اور اندھیرا ہوگا تو آپ سکون سے سوچ سکیں گے۔ انگریز مصنف، برنارڈ شا، نے کہا تھا، "جو شخص پورے ایک ہفتہ میں کسی موضوع پر صرف 15 منٹ لگاتار سوچے تو اسے فلسفی سمجھنا چاہیئے۔" ہفتہ میں جتنے گھنٹے بجلی جاتی ہے اس دوران غور و فکر کرتے رہیں تو آپ آسانی سے بڑے عظیم فلسفی بن سکتے ہیں! 
11 جولائی 2013

No comments:

Post a Comment