Monday, July 15, 2013

سڑک پار کرنے کے لیئے پل یا زیر سڑک رستے؟

شہروں کی سڑکوں پر بڑھتے ہوئے ٹریفک کی بنا پر انھیں پار کرنا زیادہ مشکل ہوتا جا رہا ہے اور خطرناک بھی۔ از راہ تفنن، بعض لوگ کہتے ہیں، جو سڑک کی جس طرف پیدا ہوا، اسی طرف رہے تو بہتر ہوگا۔
سڑک پار کرنے کا سب سے آسان اور محفوظ طریقہ زیبرہ کراسنگ سے گزرنا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اشارہ اتنی دیر آپ کے موافق رہے جتنا وقت آپ کو سڑک پار کرنے میں لگے گا۔ پھر آپ کراسنگ کے قریب بھی ہوں۔ اگر اگلا اور پچھلا چوک دونوں خاصے دور ہوں اور آپ نے بالکل سامنے سڑک کے پار جانا ہے تو پھر جان ہتھیلی پر رکھ کر قدم بڑھائیں۔ اگر قسمت نے یاوری کی تو دونوں طرف کی ٹریفک آپ کو گزرنے دے گی۔ اگر کسی گاڑی کی رفتار کم نہ کی گئی تو پھر آپ جہاں ہیں وہیں کھڑے رہیں گے یا پھر، اللہ نہ کرے، کسی بیڈ پر پٹیوں میں لپٹے ہوئے پڑے ہوں گے۔
اگر پیدل چلنے والے سڑک پار نہ کر سکیں تو ان کے لیئے دو متبادل ہیں، بشرطیکہ حکومت خرچ برداشت کرنے پر رضامند ہو جائے۔ جو متبادل اکثر اپنایا جاتا ہے وہ سڑک پر پل ہوتا ہے۔ لیکن جہاں کہیں بھی یہ پل ہیں ان پر سے بہت کم لوگ گزرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ لوگوں کو جان پیاری نہیں ہوتی لیکن پل پر چڑھنا بڑا دشوار لگتا ہے۔ ان کی سوچ میں وزن ہے۔ پل کی اونچائی لازمی طور پر اتنی رکھنی پڑتی ہے کہ ہر قسم کی موٹر گاڑی نیچے سے گزر جائے۔ یہ نہ ہو کہ کوئی لبا لب بھرا ٹرک پل کے نیچے سے گزرتے ہوئے اس سے ٹکراِ جائے۔ اتنی اونچائی عام انسانی قد سے تین گنا کے قریب ہوتی ہے۔ جب پیدل چلنے والا ایک نظر پل پر ڈالتا ہے تو اس کی ہمت نہیں پڑتی کہ سیڑھیاں چڑھ کر اتنی بلندی تک جائے اور پھر اتنی ہی سیڑھیاں اترے۔
پیدل چلنے والوں میں ضعیف اور ناتواں مرد، عورتیں اور بچے بھی ہوتے ہیں۔ ان کے لیئے سیڑھیاں چڑھنا بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اگر پاس کچھ سامان ہو تو مزید مشکل ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی نفسیاتی طور پر سیڑھیاں چڑھنا اترنے سے زیادہ مشکل لگتا ہے۔ اگرچہ دوسری طرف اتنی ہی سیڑھیاں اترنی بھی ہوتی ہیں لیکن وہ تو بعد کی بات ہے۔
اگر پل کی بجائے زیر سڑک راستہ (انڈر پاس) بنایا جائے تو کیا فرق ہوگا؟ پہلا فرق تو یہ ہوگا کہ لاگت بہت کم ہوگی۔ زیر سڑک راستہ بنانے میں بڑا کام کھدائی کر کے مٹی نکالنا ہوتا ہے۔ یہ مشینوں سے نہ ہو تو کدالوں سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ ٹھیک ہے اس میں وقت زیادہ لگے گا اور اس کے نتیجہ میں مزدوروں کو اجرت زیادہ دینی ہوگی۔ لیکن مزدور کی اجرت ہوتی کتنی ہے؟ اگر موجودہ حکومت کے وعدہ کے مطابق اجرت 15 ہزار روپے ماہانہ ہو تو بھی کھدائی کا مجموعی خرچ چند لاکھ سے زیادہ نہیں ہوگا۔ اس کے بعد اندر سے پختہ کرنا ہوگا۔ دونوں سروں پر سیڑھیاں بنانی ہوں گی۔ ان کی تعداد بھی پل کے مقابلہ میں ایک تہائی ہوگی۔ تھوڑا سا خرچ ہوا اور بارش کے پانی کے اخِراج کا انتظام کرنے پر ہوگا۔ ایک بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ لوہے کا استعمال زیادہ نہیں ہوگا۔
زیر سڑک رستہ پر پیدل چلنے والوں کو پہلے نیچے جانی والی سیڑھیاں اترنی ہوں گی۔ جیسا کہ ذکر ہو چکا، پہلے اوپر چڑھنے سے نیچے اترنا کہیں زیادہ آسان لگتا ہے۔ اگر سیڑھیوں کی ڈھلوان زیادہ رکھ لی جائے تو ہر سیڑھی کی اونچائی کم کی جا سکتی ہے۔ اس سے سب کو، خاص طور پر ضعیف لوگوں کو، بڑی آسانی ہوگی۔ پل کی بلندی کی نسبت زیر سڑک رستہ کی اونچائی ایک تہائی کے قریب ہوگی۔ وجہ یہ ہے کہ پل تو پورے لدے ہوئے ٹرکوں، وغیرہ، کے مطابق اونچا رکھنا ہوتا  ہے۔ اس کے برعکس زیر سڑک رستہ میں سب سے زیادہ اوانچائی گزرنے والوں کی اپنی ہوگی، جو عام طور پر زیادہ سے زیادہ دومیٹر کے لگ بھگ ہوگی۔ رستہ اس سے تھوڑا سا ہی زیادہ بلند ہوگا۔ یوں لاگت کم ہوگی۔
زیر سڑک رستہ ماحول کے لحاظ سے پل سے کہیں بہتر ہوگا۔ پل تو دور سے نظر آتا ہے اور آنکھوں کو بھلا نہیں لگتا۔ جتنے زیادہ پل کسی سڑک پر ہوں گے، اتنے ہی زیادہ دیکھنے والوں کو ناگوار گزریں گے۔ اس کے برعکس زیر سڑک رستے اوپر سے بالکل نظر نہیں آئیں گے۔ بلک راہ چلتے لوگوں کو بھی سائین بورڈ لگا کر بتانا پڑے گا کہ یہاں سے گزر کر سڑک کے پار جا سکتے ہیں۔
بہت سے لوگ سائیکلوں اور موٹر سائیکلوں پر سوار ہوتے ہیں۔ انھیں بھی سڑک پار کرنی ہوتی ہے۔ لاہور میں رنگ روڈ پر بنائے گئے پلوں کے ساتھ ان کے لیئے ڈھلوان بنائی گئی ہے۔ پیدل چلنے والوں کی سیڑھیوں کے دوسری طرف بنائی گئی یہ ڈھلوانیں اضافی خرچ کراتی ہیں، چاہے انھیں استعمال کرنے والے زیادہ نہ ہوں۔ گنجان آبادی کی سڑکوں پر پل بھی زیادہ بنانے پڑتے ہیں۔ ان کے ساتھ سائیکلوں اور موٹر سائیکلوں کے لیئے بھی اتنی ہی ڈھلوانیں اضافی خرچ سے بنانی ہوں گی۔ زیر سڑک رستہ میں سیڑھیوں کے دونوں طرف ڈھلوانیں بنائی جائیں گی، جن پر نہ صرف سائیکل اور موٹر سائیکل، بلکہ بچہ گاڑیاں بھی گزاری جا سکیں گی۔
لاہور میں میٹرو بس کے رستہ کے دونوں طرف جنگلہ نے سڑک پار کرنا بہت مشکل بنا دیا ہے۔ جہاں بھی میٹرو بس ہوگی، یہی مشکل پیش آئے گی۔ بہت کم جگہوں پر کٹ رکھے گئے ہیں تاکہ بسوں کو رکاوٹ نہ ہو۔ پل تو ہیں لیکن پیدل چلنے والوں کے لحاظ سے دو سٹیشنوں کے درمیان فاصلہ زیادہ ہے۔ اگر پلوں کی بجائے زیادہ تعداد میں زیر سڑک رستے بنا دیئے جائیں تو دونوں طرف کے لوگوں کے لیئے آسانی ہو جائے گی۔
زیر سڑک رستہ میں ایک اتنا بڑا فائدہ ہے، جسے سامنے رکھا جائے تو آئندہ کوئی مقامی حکومت پل نہیں بنائے گی۔ بلکہ بنے ہوئے پل بھی گرا دیں گی۔ رستہ میں آنے جانے والوں کے لیئے کافی جگہ چھوڑی جائے گی۔ ان کے ساتھ سائیکلوں اور موٹر سائیکلوں کے لیئے بھی گنجائش رکھی جائے گی۔ اس کے بعد مزید کھدائی کر کے رستہ کے دونوں طرف دکانیں بنائی جائیں۔ یہ دکانیں بیچنے کی بجائے کرایہ پر دی جائیں۔ اس سے یہ ہوگا کہ مقامی حکومت کو رستہ کی لاگت پوری ہونے کے بعد آمدنی کا مستقل ذریعہ مل جائے گا۔ اگر دکانیں بیچی جائیں تو وقتی طور پر معقول آمدنی ہوگی اور اہلکاروں کو کچھ رشوت بھی مل جائے گی لیکن بعد میں کچھ نہیں ملے گا۔ کرایہ کی صورت میں کچھ رقم مرمت اور دیکھ بھال پر خرچ ہوگی اور باقی مقامی حکومت کی آمدنی ہوگی۔

مالی فائدہ کے پیش نظر، مقامی حکومتیں شہروں میں جہاں کہیں سڑک پار کرنے میں دشواری ہوگی وہاں پلوں کی بجائے زیر سڑک رستے بنایا کریں گی۔ جہاں پل بنے ہوئے ہیں انھیں بھی گرا کر رستے بنا دیں گی۔ اوپر کی بجائے نیچے کی طرف توجہ کرنا مہنگا نہیں بلکہ منافع کا سودہ ہوگا۔
13 جولائی 2013

No comments:

Post a Comment