Wednesday, June 26, 2013

بجٹ تقریر کا دن اور وقت بدلنا کیوں ضروری ہے

انگریزوں کے دور میں برتانیہ کی بہت سی کمپنیاں ہندوستان میں سرمایہ کاری کرتی تھیں۔ وہ جاننا چاہتیں کہ ہندوستان کے سالانہ بجٹ کا ان کے کاروبار پر کیا اثر ہوگا۔ چنانچہ ان کی سہولت کے لیئے ہندوستان کا وزیر خزانہ پانچ بجے کے قریب پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کرتا تاکہ برتانیہ میں لنچ کے وقت اس کی تقریر ریڈیو پر سنی جا سکے۔ دن بھی ہفتہ کا رکھا جاتا تاکہ اختتام ہفتہ کی چھٹی کی بنا پر سب کو فراغت ہو۔
انگریز چلا گیا، ہم آزاد ہو گئے لیکن ذہنی غلامی ویسے ہی رہی۔ کسی کو اصل وجہ یاد نہ رہی۔ چنانچہ بجٹ اسی دن اور اسی وقت پیش ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ انگریزوں کو تو اب کیا دلچسپی ہوگی جبکہ اپنے ہاں اس روائت سے کئی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ (ہندوستان میں بھی اسی طرح ہوتا ہے۔ انھوں نے تو مالیاتی سال اب بھی وہی یکم اپریل سے 31 مارچ رکھا ہے،جیسے انگریزوں کے دور میں ہوتا تھا۔)
ہفتہ کی چھٹی کی بنا پر جمعہ کو بجٹ پیش ہونے کی خبر ہے۔ اس شام کو وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر سننا خاصہ مشکل ہوگا۔ دفتروں میں چھٹی کا وقت ہوگا۔ چنانچہ لوگ رستہ میں ہوں گے۔ دکاندار وقت نہیں نکال سکیں گے کیوں کہ گاہک آ رہے ہوں گے۔ بیشتر لوگ بھی گھر سے باہر کہیں نہ کہیں مصروف ہوں گے۔ چنانچہ ایک سے دو گھنٹہ کی تقریر سکون سے سننا خاصہ مشکل ہوگا۔
سب سے زیادہ مشکل میڈیہ کے لیئے ہوتی ہے۔ تقریر شروع ہوتے ہی اسلام آباد میں اخباروں اور ٹیلی ویژن کے نمائندوں کو بجٹ دستاویزوں کا پلندہ دے دیا جاتا ہے۔ وہ خود تو پڑھ نہیں سکتے کیوں کہ بجٹ سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ پھر وہ مصروف بھی بہت ہوتے ہیں۔ ان کے صدر دفاتر کے ماہرین اقتصادیات اور تجزیہ کار کراچی اور لاہور میں ہوتے ہیں۔ چنانچہ سارا زور بجٹ تقریر کے تجزیہ پر ہوتا ہے۔ وہ بھی سب پوری طرح اور اطمینان سے نہیں سن پاتے۔
ٹیلیویژن چینل بھی مشکل کا شکار ہوتی ہیں۔ وزیر خزانہ کی تقریر ختم ہونے کے کچھ ہی دیر بعد ٹاک شو کرنا ہوتا ہے۔ نہ میزبان کے پاس تفصیلات جاننے اور ماہرین کی رائے لینے کا زیادہ وقت ہوتا ہے اور نہ مہمانوں کو سوچ بچار اور تیاری کے لیئے کافی مہلت ملتی ہے۔ پھر بجٹ اور اقتصادیات کے ماہرین بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔ چنانچہ انھیں بلانے کے لیئے ٹاک شو میزبانوں میں کھینچا تانی ہوتی ہے۔
چینل والوں کا مالی نقصان بھی ہوتا ہے۔ شام کا وقت ان کا پرائیم ٹائیم ہوتا ہے، جس میں لوگوں کی زیادہ دلچسپی والے پروگرام ہوتے ہیں۔ ان کے لیئے اشتہار بھی زیادہ ملتے ہیں۔ بجٹ تقریر کے دوران تو اشتہار بالکل نہیں چل سکتے۔ اس پر تبصرے کے دوران بھی زیادہ اشتہار نہیں چل سکتے، کیونکہ بیشتر ناظرین تفریحی چینلوں کا رخ کر لیتے ہیں۔ اس سے چینلوں کا مالی نقصان ہوتا ہے۔
اخباروں کو ایک اور مشکل درپیش ہوتی ہے۔ اتوار کی اشاعت میں باقی دنوں کے مقابلہ میں سب سے زیادہ اشتہار ہوتے ہیں۔ اس بنا پر اتنی جگہ نہیں ہوتی کہ بجٹ کی ضروری تفاصیل بھی آسانی سے دی جا سکیں۔ بجٹ تقریر کا متن بھی بعض اوقات دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ اتوار کی اشاعت میں پڑھنے کے لیئے میگزین کی شکل میں عام دنوں کی نسبت کہیں زیادہ مواد ہوتا ہے، جس سے پڑھنے والوں کی توجہ بجٹ سے ہٹ جاتی ہے۔
مسئلہ کا حل یہ ہے کہ
مرکزی وزیر خزانہ اتوار کی صبح دس بجے کے لگ بھگ بجٹ پیش کیا کریں۔ اس وقت سب لوگ گھروں میں ہوتے ہیں۔ اس لیئے اطمینان سے ان کی تقریر سن سکتے ہیں۔ تبصرہ اور تجزیہ کرنے والوں کو، اخبار کے ہوں یا چینل کے، کافی وقت مل جائے گا۔ اخبار بجٹ کو زیادہ جگہ دے سکیں گے کیوں کہ ایک تو اتوار کو ویسے ہی چھٹی کی وجہ سے خبروں کی کمی ہوتی ہے۔ پھر پیر کی اشساعت میں اشتہار بھی زیادہ نہیں ہوتے۔
بجٹ دستاویزوں میں خفیہ رکھنے والی معلومات نہیں ہوتیں۔ (خفیہ تفصیلات صرف تقریر میں ہوتی ہیں، خاص طور پر ٹیکسوں کی تفصیل۔) اسی لیئے انھیں کئی دن پہلے ہی کتابی شکل میں چھاپ لیا جاتا ہے۔ ان کا مقصد بجٹ کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں پس منظر اور تفصیلات بتانا ہوتا ہے۔ یہ دستاویزیں دو تین دن پہلے تمام اخباروں اور چینلوں کو دی جا سکتی ہیں تاکہ وہ یکسوئی سے مطالعہ کر کے تجزیہ کر سکیں۔ ان دنوں وزارت خزانہ بجٹ دستاویزوں کی ڈسک بنا لیتی ہے۔ یہ ڈسک سب کو 72 گھنٹے پہلے پہنچائی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہدائت ہو کہ بجٹ تقریر سے پہلے کوئی تفصیل ظاہر نہ کی جائے۔ اگر کوئی ادارہ پابندی کی خلاف ورزی کرے تو اسے بطور سزا ہر قسم کی سرکاری مراعات، معلومات وغیرہ سے چھ مہینے سال کے لیئے محروم کر دیا جائے۔
چینل والوں کو بھی بے جا مسابقت کی بجائے آپس میں اشتراک کرنا چاہیئے۔ سرکاری طور پر بجٹ کی وضاحت کرنے کے اہل بہت کم افراد ہوتے ہیں۔ انھیں اپنے اپنے پروگرام میں گھسیٹنے کی بجائے چینل ایک مشترکہ پروگرام کریں، جس میں ان کے میزبان حکام سے اپنے اپنے سوالات کریں۔ اس طرح مہمانوں کو مختلف چینلو٘ں پر اپنی باتیں دہرانی نہیں پڑیں گی۔ ناظرین کو بھی پوری تفصیل ایک ہی پروگرام سے مل جائے گی۔
پاکستان ٹیلی ویژن قومی چینل ہونے کی بنا پر دو گھنٹے کے پروگرام کا میزبان ہو اور خبروں کے تمام چینلوں کو دعوت دے کہ وہ بلا معاوضہ اس میں شرکت کریں۔ وزیر خزانہ، سیکرٹری خزانہ، اور دوسرے اعلی سرکاری اہل کار بھی اس پروگرام میں شرکت کو ترجیح دیں۔ اشتراک کرنے والے چینل ایک ایک نمائندہ بھیجیں۔ اگر چینل زیادہ ہوں تو کچھ کے نمائندے پہلے گھنٹے میں اور باقی دوسرے گھنٹے میں شریک ہوں۔ چینل پروگرام براہ راست نشر کریں۔ مقررہ وقت پر وقفوں کے دوران ہر چینل اپنے اپنے اشتہار چلائے۔ پروگرام آٹھ بجے سے دس بجے تک نشر ہو۔ مہمانوں سے درخاست کی جائے کہ وہ اگلے 24 یا 48 گھنٹے کسی اور چینل کے پروگرام میں شریک نہ ہوں تاکہ اشتراک نہ کرنے والوں کو محرومی کا احساس ہو۔
اگلے دن پاکستان ٹیلی ویژن پر اسی انداز میں تین گھنٹے کی زیادہ مفصل نشست ہو۔ اس طرح اس تماشہ کی ضرورت نہیں ہوگی، جو بجٹ کے  بارے میں نیوز کانفرنس کی شکل میں ہر سال بجٹ تقریر سے اگلے دن ہوتا ہے۔
مجوزہ تبدیلیوں سے بجٹ تقریر زیادہ آسانی اور توجہ سے سنی جائے گی اور وزیر خزانہ حکومت کی ترجیحات اور منصوبوں کی تفصیل زیادہ لوگوں تک پہنچا سکیں گے۔ موجودہ صورت میں پوری تفصیلات معلوم نہ ہونے کی بنا بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں، جن کی سرکاری ترجمان کئی دنوں تک وضاحت کرتے پھرتے ہیں۔ حکومت کشکول تو پتہ نہیں کب توڑے گی کم از کم اس سال سے دور غلامی کی روائت ہی توڑ دیے۔ 
4 جون 2013 

No comments:

Post a Comment