Wednesday, June 26, 2013

بجلی کا مسئلہ بڑی آسانی سے حل ہو سکتا ہے

نہ صرف لوڈ شیڈنگ ختم ہو سکتی ہے اور بجلی سستی کی جا سکتی ہے، بلکہ بجلی کی مستقبل کی ضرورت بھی بلا تاخیر پوری کی جا سکتی ہے۔
پہلا قدم یہ ہوگا کہ ملک بھر میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو پبلک لمیٹڈ کمپنیوں میں تبدیل کر دیا جائے۔ ہر تقسیم کار کمپنی کے حصص سرمایہ کاروں کو خریدنے کی اجازت نہ ہوگی، جن کا مقصد صرف منافع کمانا ہوتا ہے۔ ایسے سرمایہ کار زیادہ سے زیادہ  ،منافع کی خاطر نہ بجلی سستی کرنے دیں گے اور نہ سروس بہتر کرنے پر خرچ کرنے دیں گے۔
اس لیئے تقسیم کار کمپنی کے حصص صرف اس کے صارفین کو دیئے جائیں گے۔ یہاں بھی سرمایہ داروں کے غلبہ سے بچنے کے لیئے بجلی کے ہر کنیکشن پر صرف ایک حصہ دیا جائے گا۔ اس طرح سب سے زیادہ حصص عوام کے پاس ہوں گے۔ کمپنی کسی صنعت کار یا کاروباری ادارہ سے ترجیحی سلوک نہیں کر سکے گی کیونکہ اس کا کنٹرول عوام کے پاس ہوگا۔ ایک حصہ کی قیمت دس روپے ہوگی، جو بجلی کے بل کے ساتھ وصول کر لی جائے گی۔
پبلک لمیٹڈ کمپنی بننے کے بعد تقسیم کار کمپنی حکومت کو کوئی ادائگی نہیں کرے گی کیوں کہ اس کے اثاثے عوام کی ملکیت ہوں گے اور حکومت بھی عوام ہی کی امانت دار ہوتی ہے۔ اگر حکومت نے کوئی قرضہ دیا تھا تو وہ معاف کر دیا جائے گا تاکہ کمپنی آسانی سے نیا دور شروع کر سکے۔ اگر عبوری دور میں کسی تقسیم کار کمپنی کو مالی مدد کی ضرورت ہو تو مرکزی حکومت پوری کرے گی۔
ہر تقسیم کار کمپنی کا سربراہ حکومت مقرر نہیں کرے گی۔ اس کے انتخاب کے لیئے وفاقی پبلک سروس کمشن اشتہار دے گا اور مناسب ترین امیدوار کا انتخاب کر کے کمپنی کا سربراہ مقرر کر دے گا۔ حکومت کا اس میں کوئی دخل نہ ہوگا اور نہ ہی اس کی منظوری کی ضرورت ہوگی۔
تقسیم کار کمپنی کا سربراہ چارج سنبھالتے ہی اپنے اگلے تین ماہ کا منصوبہ اگلے ماہ کے بل کے ساتھ صارفین کو بھیجے گا۔ چوتھے ماہ کے بل کے ساتھ وہ پچھلے تین ماہ کی کارکردگی کی رپورٹ اور اگلے تین ماہ کا منصوبہ سب کو بھیجے گا۔ ہر سال جولائی کے بل کے ساتھ ایک فارم ہوگا، جس پر صارفین کمپنی کی ہر شعبہ میں کارکردگی کے بارے میں اپنی رائے دیں گے۔
فارم کے آخر میں صارف بتائے گا کہ وہ کمپنی کی کارکردگی سے مجموعی طور پر مطمئن ہے یا نہیں۔ اگر ہر سال 70 فی صد سے زیادہ صارفین مطمئن ہوں تو سربراہ کام کرتا رہے گا۔ ورنہ فارغ ہو جائے گا۔
کمپنی کے لیئے کسی بورڈ آف ڈائریکٹرز کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ڈائریکٹر عام طور پر اپنے یا دوسروں کے مفاد کے لیئے ہی کوشاں رہتے ہیں۔ صارفین کی بہتری ان کے لیئے زیادہ اہم نہیں ہوتی۔ چونکہ سربراہ منتظم ہوگا، انجینیئر یا مالیاتی ماہر نہیں، اس لیئے جب کبھی فنی، مالیاتی، منصوبہ بندی اور دوسرے امور میں ضروت ہوگی تو وہ اشتہار دے کر اہل مشیروں کا چند ماہ کے لیئے تقرر کر سکے گا۔
تقسیم کار کمپنیوں کے پبلک لمیٹڈ بن جانے کے بعد وفاقی حکومت بجلی کی خریداری کے تمام معاہدے ختم کر دے گی۔ بجلی سے متعلقہ ادارے، جیسے نیپرا، پیپکو، ختم کر دیئے جائیں گے۔ حکومت کے ملکیتی بجلی گھروں کی نجکاری کر دی جائے گی یا انھیں نجی انتظامیہ کے حوالہ کر دیا جائے گا۔
تمام نجی اور سرکاری بجلی گھروں سے کہا جائے گا کہ وہ تقسیم کار کمپنیوں سے الگ الگ معاہدے کریں۔ ظاہر ہے کہ انھیں کم سے کم ریٹ دینے ہوں گے۔ ان کی بجلی نیشنل گرڈ کے ذریعہ سپلائی ہوگی، جسے چلانے والی نیشنل ٹرانسمشن و ڈسپیچ کمپنی کا کنٹرول حکومت تقسیم کار کمپنیوں کو دے دے گی، جو اسے مشترکہ طور پر چلائیں گی۔ ہر کمپنی کا حصہ برابر ہوگا۔
کوئی تقسیم کار کمپنی اہنا بجلی گھر نہ بنائے گی اور نہ کوئی موجودہ چلائے گی۔ اس کی کئی وجوہ ہوں گی: اپنا بجلی گھر لگانے میں سرمایہ پھس جائے گا، جبکہ اسے بجلی کی تقسیم کا نظام بہتر بنانے پر خرچ ہونا چاہیئے۔ بجلی گھر کی دیکھ بھال اور اسے بہتر بنانے پر بھی ہر سال خرچ کرنا پڑے گا۔ اگر کسی وجہ سے بجلی گھر کی فی یونٹ لاگت دوسروں سے زیادہ ہو تو اس کا بوجھ صارفین پر پڑے گا۔
چنانچہ تقسیم کار کمپنی ساری بجلی نجی بجلی گھروں سے لیا کرے گی۔ ہر بجلی گھر متعلقہ تقسیم کار کمپنی سے شرائط طے کر کے سپلائی کرے گا۔ حکومت کی طرف سے سرمایہ کاروں کو کھلی اجازت ہوگی کہ وہ جہاں چاہیں، جس طرح چاہیں بجلی پیدا کر کے تقسیم کار کمپنیوں کو سپلائی کریں۔ کوئی سرمایہ کار کوئلہ سے بجلی بنائے گا، کوئی ہوا سے، اور کوئی شمسی توانائی سے۔ کچھ سرمایہ کار دریائوں اور نہروں سے بجلی بنانا چاہیں گے۔ انھیں دریائوں پر نئے ڈیم بنانے کے لیئے حکومت سے منظوری لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ واپڈا انھیں قابل عمل ہونے کی پہلے سے تیار شدہ رپورٹیں دے گا تاکہ وہ فورا تعمیر کا کام شروع کر سکیں۔
ہر سال جون میں تقسیم کار کمپنی بجلی گھروں سے اگلے سال کے لیئے بجلی کی قیمت طے کرے گی۔ جو بجلی گھر سب سے کم ریٹ دے گا، اسے ترجیح دی جائے گی۔ جیسے جیسے سستی بجلی دینے والے بجلی گھر میدان میں آتے جائیں گے، مہنگی بجلی والے فارغ ہوتے جائیں گے۔ فرنس تیل اور گیس سے بجلی پیدا کرنے والے متبادل ایندھن استعمال کرنے پر مجبور ہوں گے ورنہ بند ہو جائیں گے۔
ہر تقسیم کار کمپنی نیشنل گرڈ سے ضرورت کے مطابق بجلی لیا کرے گی، چاہے اسے پیدا کرنے والا بجلی گھر ملک میں کہیں بھی ہو۔ اس طرح کمپنی کے اپنے علاقہ میں موجود بجلی گھر گٹھ جوڑ کر کے بجلی مہنگی نہیں کر پائیں گے۔ پھر تقسیم کار کمپنی کسی ایک کی بجائے کئی بجلی گھروں سے بجلی لیا کرے گی تاکہ کسی ایک کے ناجائز دبائو پر یا اس میں فنی خرابی کی بنا پر صارفین کو لوڈ شیڈنگ کا سامنا نہ ہو۔
بجلی کی چوری اور نادہندگی بالکل بند ہو جائے گی۔ سرکاری افسروں اور سیاست کاروں کا کسی بھی طرح کا دخل نہیں ہوگا۔ اس لیئے وہ چوری یا نادہندگی کے لیئے اپنا اثر استعمال نہیں کر پائیں گے۔ خود تقسیم کار کمپنی کے لیئے ممکن نہیں ہوگا کہ وہ کسی کو بجلی چوری کرنے دے یا نادہند ہونے دے۔ اگر ایسا ہوا تو شور مچ جائے گا اور صارفین، جو کمپنی کے حصہ دار ہوں گے، سربراہ کو ہٹا سکیں گے۔ یہ بہت بڑی ضمانت ہوگی کہ کمپنی کسی کو ناجائز فائدہ نہیں لینے دے گی۔
تقسیم کار کمپنی بجلی کی اصل لاگت کے ساتھ بل میں کچھ اضافہ کرے گی تاکہ عملہ، بجلی کی سپلائی اور سروس کی بہتری کے لیئے سرمایہ ملتا رہے۔ اس طرح تاریں، کھمبے، ٹرانسفارمر، میٹر، وغیرہ بر وقت تبدیل ہوتے رہیں گے۔ اگر منافع ہوگا تو بجلی کا نظام بہتر بنانے اور بہتر خدمت پر صرف ہوگا۔ اس طرح سارا منافع کسی سیٹھ کی جیب میں نہیں جائے گا بلکہ صارفین کے فائدہ کے لیئے خرچ کیا جائے گا۔
24 مئی 2013 

No comments:

Post a Comment