Wednesday, June 26, 2013

"کام، کام، کام" کی بجائے ""آرام،آرام، آرام"

اسلام آباد کے بڑے افسروں کی عرصہ سے خواہش تھی کہ کام تو جیسے تیسے ہوتا ہی رہے گا، آرام کا وقت بڑھانا چاہیئے۔ وہ چاہتے تھے کہ ہفتہ میں ایک نہیں دو چھٹیاں ہوا کریں۔ اس طرح انھیں صرف پانچ دن دفتر آنا پڑے گا۔ مشکل یہ تھی کہ کوئی حکمران، سیاسی ہو یا غیرسیاسی، ان کی باتوں میں نہ آتا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ ترقی پذیر ملک میں کام کی ضرورت کہیں زیادہ ہے۔ میان نواز شریف نے تو پچھلے دور میں بطور وزیر اعظم سرکاری تعطیلات بھی کم کر دی تھیں، جن میں علامہ اقبال اور قائد اعظم کی برسیاں (21 اپریل اور 11 ستمبر) اور یوم دفاع (6 ستمبر) شامل تھے۔ دونوں عظیم رہنمائوں کے صرف یوم پیدائش کی چھٹیاں برقرار رہیں۔
تاہم افسروں نے ہمت نہیں ہاری۔ جب بجلی کا بحران بڑھا اور بچت کرنے کے لیئے بہت سی تجاویز سامنے آئیں تو ان میں ہفتہ میں ایک اور چھٹی کی تجویز شامل کر لی گئی۔ تجویز تو گرمیوں میں گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کرنے کی بھی تھی لیکن ارکان قومی اسمبلی میں اس کا فائدہ نہ آیا۔ چنانچہ انھوں نے شور مچا کر اسے رد کرا دیا۔ گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کرنے سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوتا کہ دن کا آغاز جلدی ہوتا۔ پھر دفتروں، اداروں اور کاروبار کے اوقات سارا سال وہی رہتے، جو سردیوں میں ہوتے، یعنی نو بجے سے شروع ہوتے۔ اس طرح گرمیوں میں بعض جگہوں پر وقت بدلنے اور بعض جگہ نہ بدلنے سے عام لوگوں کو پریشانی نہ ہوتی۔ بہرحال، جب تک ارکان اسمبلی زیادہ سمجھدار نہیں ہوتے، گرمیوں میں گھڑیاں آگے نہیں کی جا سکتیں۔ ہاں، کوئی حکمران خود ہی حکم دے دے تو اور بات ہے۔
یوسف رضا گیلانی کسی فیصلہ کے لیئے زیادہ سوچ بچار نہیں کرتے تھے، نہ ہی وسیع مشاورت کو ضروری سمجھتے تھے۔ انھیں پٹی پڑھائی گئی کہ مزید ایک چھٹی سے بجلی کی بچت ہوگی۔ ظاہر ہے انھیں قائل کرنے کے لیئے خاصی بچت دکھانی ضروری تھی۔ مرکزی حکومت کے دفتروں سے تو زیادہ بچت ممکن نہ تھی۔ اس لیئے کافی جواز پیدا کرنے کے لیئے ملک بھر کے سکول، کالج، بینک، سیونگ سنٹر، ڈاک خانوں کے ساتھ صوبائی حکومتوں کے دفاتر اور اداروں کو بھی ملا لیا گیا۔ پھر بھی زیادہ سے زیادہ ایک سو میگاواٹ کی بچت کا دعوی کیا جا سکا، وہ بھی مہینہ میں صرف چار دن۔ جہاں ہر روز بجلی کی کمی ہزاروں میگاواٹ تھی، وہاں اتنی کم بچت کی اہمیت نہ ہونے کے برابر تھی۔ لیکن گیلانی صاحب نے پیپلز پارٹی کی ہر ایک سے "مفاہمت" کی پالیسی کے تحت افسروں کو خوش کرنے کے لیئے ہفتہ میں ایک اور چھٹی کا اعلان کر دیا۔ صوبوں نے مزاحمت کی لیکن وہاں بھی افسروں کے بھائی بند وزراء اعلی کو ڈھب پر لے آئے۔ صرف پنجاب رہ گیا جہاں دال نہ گلی۔ یہاں بھی قسمت نے یاوری کی اور نجم سیٹھی چار دن کی حکمرانی میں افسروں کو خوش کر گئے۔ اب سارے ملک میں ہفتہ میں دو چھٹیاں ہونے لگی ہیں۔
جمعہ کی آدھی چھٹی ختم کر کے نماز کا وقفہ رکھ دیا گیا۔ لیکن ظاہر ہے نماز کے لیئے جانے والے تھوڑی دیر کے لیئے واپس نہیں آتے۔ یوں عملی طور پر آدھی چھٹی برقرار رہی۔ ساتھ دو چھٹیاں مل کر ڈھائی دن کا ویک اینڈ بن جاتا ہے۔ اتنا لمبا آرام تو شائد ہی دنیا میں کہیں ہوتا ہوگا۔
چھٹی پسند افسروں نے احساس نہیں کیا کہ بجلی کے بغیر بھی بہت سی جگہوں پر کام ہو سکتا ہے اور ہوتا رہا ہے۔ مثلا، ہزاروں سکولوں میں بجلی ہے ہی نہیں لیکن وہاں پڑھائی ہوتی ہے۔ پھر بہت سی جگہوں پر دن کی روشنی اتنی ہوتی ہے کہ بتی جلانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
ایک اور مشکل بھی ہے۔ ہمارے قانون کے مطابق ہفتہ میں 48 گھنٹے کام لیا جاتا ہے۔ جب اسے پانچ دنوں پر تقسیم کیا جائے گا تو ہر روز زیادہ دیر کام کرنا ہوگا۔ اس طرح تھکاوٹ بھی زیادہ ہوگی اور ذاتی کاموں کے لیئے وقت بھی کم ملے گا۔ (زیادہ ترقی یافتہ ملکوں میں، جہاں دو چھٹیاں ہوتی ہیں، وہاں ہفتہ میں 40 گھنٹے کام ہوتا ہے، یعنی پانچ دنوں میں آٹھ گھنٹے روزانہ۔)۔
ایک اور مشکل بھی پیدا ہو گئی۔ صدر ایوب خاں کے دور میں دفتروں میں اوقات کار کم کر دیئے گئے تاکہ ملازموں کو ذاتی کاموں اور کنبہ کے ساتھ گزارنے کے لیئے زیادہ وقت ملے۔ بہت سے چھوٹے ملازموں نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شام کو جزوقتی ملازمت اختیار کر لی۔ دو چھٹیوں کی وجہ سے روزانہ کے اوقات کار بڑھ گئے، جس سے جزوقتی کام کرنا مشکل ہو گیا۔ یوں بہت سے گھرانے، جو پہلے ہی مہنگائی سے پس رہے تھے، مزید آمدنی سے محروم ہو گئے۔
ہفتہ کی چھٹی سے جمعہ کی آدھے دن کی چھٹی بھی ساتھ مل گئی۔ اس طرح ویک اینڈ ڈھائی دن کا ہو گیا، جبکہ امیر ترین ملکوں میں بھی یہ دو دن سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اتنا زیادہ آرام تو ہمارے افسروں ہی کو دستیاب ہے۔
دو چھٹیوں سے پہلے بھی صورت حال بڑی مضحکہ خیز تھی۔ اتوار کو پوری چھٹی اور جمعہ کو آدھی ہوتی تھی۔ دونوں کے درمیان کام کا پورا دن ہوتا۔ نتیجہ یہ تھآ کہ ہم دنیا میں واحد ملک تھے، جہاں ویک اینڈ دو ٹکڑوں میں ہوتا۔
بڑے شہروں سے باہر نکلیں تو بیشتر جگہوں پر دکانیں، بازار اور کاروبار جمعہ کو بند ہوتے ہیں۔ جب ہفتہ اور اتوار کی چھٹیاں ہو گئیں تو کاروباری لوگ تین دن تک بینک میں نہ کیش جمع کرا سکتے اور نہ چیک کیش کرا سکتے۔ یہی نہیں، جب دو چھٹیاں شروع ہوئیں تو عیدین وغیرہ پر ویک اینڈ ملا کر بینک چار چار دن بند ہونے لگے۔ اس سے عام لوگوں اور خاص طور پر کاروبار کرنے والوں کے لیئےَ شدید مشکلات پیدا ہو جاتیں۔
مسئلہ کا حل یہ ہے کہ
جمعہ کو آدھی چھٹی بدستور رہے۔ اس کے ساتھ ہفتہ وار چھٹی اتوار کی بجائے ہفتہ کو ہو۔ اس طرح ڈیڑھ دن کا ویک اینڈ بن جائے گا۔ ویک اینڈ منانے والوں کو بھی سہولت ہوگی اورجمعہ کی نماز پڑھنے والوں کو بھی۔ جمعہ کی نماز میں حاضری زیادہ ہوا کرے گی۔ جن دنوں جمعہ کی چھٹی ہوتی تھی، مشاہدہ کیا گیا کہ نماز پڑھنے والوں کی حاضری آدھی چھٹی کی نسبت کم ہوا کرتی تھی۔
غلامانہ روائت کے پیروکار اصرار کریں گے کہ چھٹی اتوار ہی کو ہونی چاہیئے۔ آخر کیوں؟ انگریزوں نے تو گرجہ جانا ہوتا تھا۔ آپ نے اتوار کو ایسا کون سا کام کرنا ہوتا ہے جو ہفتہ کو نہیں کر سکتے؟ پھر جن بڑے ملکوں سے کاروباری تعلقات ہیں، وہاں تو پہلے ہی ہفتہ اور اتوار دونوں دن چھٹی ہوتی ہے۔ ان سے لین دین میں کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ ہم چھٹی اتوار کی بجائے ہفتہ کے دن کریں گے۔ پھر ہمارے ہاں جمعہ کو آدھا دن کام بھی ہوا کرے گا۔ رہی یکسانیت کی بات، تو تقریبا سبھی مسلم ملکوں میں جمعہ کو چھٹی ہوتی ہے۔ ان سے یکسانیت کیوں نہ کی جائے؟
امید ہے کہ نواز شریف آتے ہی جو کام کریں گے، ان میں موجودہ دو چھٹیاں ختم کرنا بھی ہوگا۔ ساتھ ہی ہفتہ کو پوری اور جمعہ کو آدھی چھٹی کا بھی اعلان کر دیں گے۔ اس طرح ہم کام زیادہ اور آرام کم کریں گے۔

6 جون 2013

No comments:

Post a Comment