Monday, October 14, 2013

بلی کو اونٹ کے ساتھ کیوں باندھتے ہیں؟

کسی اونٹ پالنے والے نے منت  مانی کہ اگر اس کا کام ہو گیا تو وہ ایک اونٹ دس روپے میں بیچ دے گا۔ کام ہو گیا۔ اب منت پوری کرنی تھی۔ اونٹ بہت قیمتی تھا۔ اس لیئے اتنا نقصان اٹھانا بھی آسان نہ تھا۔ اسے ایک چال سوجھی۔ اس نے ایک بلی کہیں سے پکڑ لی اور اونٹ کے ساتھ بازار لے گیا۔ اونٹ کے گلے میں لکھ کر لگا دیا کہ اس کی قیمت دس روپے ہے۔ گاہک آتا تو اسے کہتا، "اونٹ تو دس روپے ہی کا ہے لیکن بلی کی قیمت 50 ہزار روپے ہے۔ آپ کو دونوں کا پیکج لینا ہوگا۔"
اسی طرح کا پیکج کالج اور جامعات داخلہ کے امیدواروں کو بیچتے ہیں۔ طلبہ کو داخلہ فارم مفت ملا کرتا تھا۔ اب اسے پراسپیکٹس کے ساتھ لگا دیا گیا ہے۔ طلبہ کو دونوں کا پیکج لینا پڑتا ہے، وہ بھِی چالیس پچاس میں نہیں، کئی سوروپے میں اور بعض اوقات ہزار دو ہزار روپے میں۔
چند ہفتوں میں کالجوں اور جامعات کے داخلے شروع ہونے والے ہیں۔ جن طلبہ کو یقین نہیں کہ انھیں پسند کے ادارہ میں داخلہ مل جائے گا، وہ کئی جگہ فارم جمع کرائیں گے۔ انھیں ہر جگہ "پیکج" خریدنا پڑے گا۔ یوں داخلہ ملے نہ ملے ہر طالب علم کے والد کو ہزاروں روپے سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ امیدواروں کی تعداد لاکھوں میں ہوگی۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ کالجوں اور جامعات کی کتنی چاندی ہوگی۔ دوسری طرف والدین کو بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑے گا، وہ بھی بغیر کسی فائدہ کے۔
پہلے یہ رجحان نجی تعلیمی اداروں میں آیا۔ پھر اس کے جراثیم سرکاری اداروں میں بھی داخل ہو گئے۔ فیسوں کے بارے میں تو پوچھیں مت کہ تعلیم جو کبھی حکومت کی ذمہ داری ہوا کرتی تھی، اب بہت بڑا کاروبار بن چکا ہے۔ امریکیوں نے ہمارے حکمرانوں کو سبق پڑھا دیا کہ جس طرح ہم کرتے ہیں آپ بھی کریں۔ تعلیم (اور صحت) کو عوام کا حق سمجھنا چھوڑ دیں، بلکہ اسے کمائی کا ذریعہ بنائیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ جس کالج میں کسی زمانہ میں فیس 12 روپے ماہوار ہوتی تھی، اسی میں اب ہزاروں روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔
اخراجات کا بوجھ یہیں ختم نہیں ہو جاتا۔ ہر فارم کے ساتھ کئی دستاویزات کی نقلیں لگانے کے لیئے کہا جاتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کی کسی گزیٹڈ افسر سے تصدیق ہونی چاہیئے۔ اگر طالب علم خود فارم جمع نہیں کرا سکتا تو رجسٹری ڈاک یا کوریئر کا خرچہ برداشت کرنا ہوگا۔ یوں ہر فارم کے ساتھ اضافی خرچہ کرنا پڑتا ہے۔ جتنے اداروں میں داخلہ کی کوشش، اتنا ہی بوجھ۔۔ ہزاروں نہیں تو سینکڑوں روپے ضرور خرچ ہو جاتے ہیں۔ جن طلبہ کو داخلہ نہیں ملتا، ان کے لیئے سراسر نقصان ہے۔
کالجوں اور جامعات کو اپنے آپ احساس نہیں ہوگا کہ وہ ان طلبہ سے بھی زیادتی کر رہے جنھیں انھوں نے داخلہ بھی نہیں دینا۔ وجہ یہ ہے کہ مفت کی آمدنی ترک کر دینا بہت مشکل ہوتا ہے۔
مسئلہ کا حل یہ ہے کہ حکومت تمام سرکاری اور نجی کالج اور جامعات کے سربراہوں کو حکم دے کہ وہ فارم داخلہ کو پراسپیکٹس سے الگ کر دیں۔ جسے ادارہ کے بارے میں مزید معلومات میں دلچسپی ہو، صرف وہی پراسپیکٹس خریدے جبکہ فارم ہر امیدوار کو مفت دیا جائے۔ یہی فارم تعلیمی ادارہ کی اپنی ویب سائیٹ پر بھی دیا جائے تاکہ امیدوار کہیں بھی ہو ڈائون لوڈ کر کے پرنٹ نکالے اور پھر اسے پر کر کے کالج یا جامعہ کو ڈاک سے بھیج دے۔ داخلہ فارم تعلیمی ادارہ کی ویب سائیٹ پر جا کر آن لائیں پر کرنے کی بھی سہولت ہونی چاہیئے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی یہ فارم چھاپ کر دستیاب کر سکے تاکہ طلبہ کو فارم لینے میں دقت نہ ہو۔ وہ دو تین روپے دے کر کہیں سے بھی خرید لیں۔ اس طرح کے فارم کچہریوں میں عام طور پر فروخت ہوتے ہیں۔ ٹیوشن پڑھانے والی اکیڈمیاں اپنے طلبہ کو فارم دے سکتی ہیں۔ (وہاں طلبہ داخلہ میں کامیابی ہی کے لیئے تو ٹیوشن لیتے ہیں۔) طلبہ تنظیمیں بھی یہ فارم مفت تقسیم کر سکتی ہیں۔
حکومت کو ایک اور ہدائت دینی ہوگی کہ تمام کالجوں اور جامعات کے لیئے داخلہ فارم ایک ہی ڈیزائین کا ہو۔ اس کا سائیز اے-4 ہونا چاہیئے تاکہ اسے فائل کور میں آسانی سے لگایا جا سکے اور لفافہ میں بھی بھیجا جا سکے۔ فارم میں طالب علم کے تمام کوائف درج کر نے کے لیئے جگہ ہونی چاہیئے۔ کوائف میں یہ شامل ہوں: طالب علم کا نام، شناختی کارڈ نمبر، (اگر ہو)، والد کا نام، والد کا پیشہ یا عہدہ، موجودہ رہائش کا پورا پتہ، رابطہ کے لیئے فون نمبر، طالب علم کا ای میل پتہ، پیدائش کی تاریخ اور جگہ، نویں جماعت اور اس کے بعد جو بھی امتحان پاس کیئے ہوں، ان کے مضامین، ہر مضمون میں حاصل کردہ نمبر، سکول یا کالج کا نام جہاں سے امتحان پاس کیا، اضافی قابلیت، جن کھیلوں میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہو، ان کی تفصیل، اگر والد، والدہ، بھائِی یا بہن نے ادارہ میں تعلیم حاصل کی ہو تو اس کا نام، سال، ڈگری یا پاس کردہ امتحان کی تفصیل، طالب علم کے ذاتی مشغلے، وغیرہ۔ اگر کسی تعلیمی ادارہ کو مزید کوائف درکار ہوں تو وہ داخلہ کے بعد طلبہ سے لے سکتا ہے۔
امیدواروں کو ہدائت کی جائے کہ وہ فارم کے ساتھ کوئی دستاویز یا کسی دستاویز کی کاپی نہ بھیجیں۔ جنھیں داخلہ مل جائے، انھیں تمام مطلوبہ دستاویزوں کی نقلیں جمع کرانے کے لیئے کہا جائے۔ اگر نقلوں کی تصدیق کرانی ہو تو کسی اوتھ کمشنر یا نوٹری پبلک سے کرانے کے لیئے کہا جائے۔ وہ نقل مطابق اصل ہونے کی تصدیق کے بعد اپنی مہر لگائے اور دستخط کر دے۔ حکومت نے انھیں دستاویزوں کی تصدیق کے لیئے ہی لائسنسن دیا ہوتا ہے۔ گزیٹڈ افسر سے تصدیق کرانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ اکثر طلبہ کی کسی افسر سے جان پہچان نہیں ہوتی۔ چنانچہ انھیں پی۔ اے۔ کی مٹھی گرم کر کے کام کرانا پڑتا ہے۔
داخلہ کے لیئے صرف ایک ہی قسم کا فارم مقرر کرنا اور دستاویزات کے بغیر فارم لینا کوئی نہیں بات نہیں ہوگی۔ مرکزی حکومت کے ایسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی تمام سرکاری دفتروں اور اداروں کو ہدائت ہے کہ ملازمت کے امیدواروں کو صرف ایک فارم پر کر کے بھیجنے کے لیئے کہا جائے۔ اس کے ساتھ کوئی دستاویز لگانے کے لیئے نہ کہا جائے۔ اس میں مصلحت یہ ہے کہ ملازمت کے امیدوار ہزاروں بلکہ بعض اوقات لاکھوں ہوتے ہیں جب کہ ملازمتیں عام طور پر سینکڑوں میں ہوتی ہیں۔ یوں ناکام امیدواروں کو دستاویزوں کی کاپیاں کرانے، ان کی تصدیق کرانے اور ارسال کرنے پر بھاری مالی بوجھ اٹھانا پڑتا ہے، جب کہ ناکام امیدواروں کے کاغذات ردی میں بیچ دیئے جاتے ہیں۔ پھر امیدوار کو صرف ایک جگہ ہی نہیں، ملازمت ملنے تک بے شمار جگہوں پر درخاست دینی پڑتی ہے۔ صرف فارم بھیجنے سے بڑی سہولت ہو جاتی ہے۔
ایسی ہی پالیسی تعلیمی اداروں میں داخلہ کے لیئے نافذ کر دی جائے تو طلبہ فارم اور پراسپیکٹس کا پیکج خریدنے پر مجبور نہیں ہونگے۔ اونٹ پالنے والے کا پیکج تو ہو سکتا تھا، تعلیم دینے والوں کا نہیں ہونا چاہیئے۔
27 جون 2013

No comments:

Post a Comment