Monday, October 14, 2013

سینٹ کیوں نہ ختم ہی کر دی جائے؟

نقل میں بھی عقل درکار ہوتی ہے۔ دوسروں کی نقل میں سینیٹ تو بنا لی گئی لیکن یہ نہ سوچا گیا کہ ایوان بالا کی ضرورت وہاں ہوتی ہے جہاں بہت سے صوبے ہوں تاکہ بڑے صوبے چھوٹوں پر حاوی نہ ہو سکیں۔ ہمارے تو صوبے ہی کل چار ہیں۔ اس لیئے ان میں توازن پیدا کرنے کے لیئے سینیٹ کی ضرورت نہیں۔ پھر اس کے اختیارات اتنے کم ہیں کہ اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔
امریکہ میں 50 ریاستیں ہیں۔ ان میں سے کچھ آبادی کے لحاظ سے بہت بڑی اور کچھ بہت چھوٹی ہیں۔ قانون سازی میں سب کو یکساں اہمیت دینے کے لیئے تمام ریاستوں کے دو دو نمائندے سینیٹ میں رکھے گئے۔ سینیٹ کے اختیارات بھی زیادہ ہیں۔ سینیٹر بھی ایوان زیریں کے ارکان کی طرح براہ راست منتخب ہوتے ہیں۔ رہی وزارت، تو وہ کسی منتخب نمائندہ کو نہیں ملتی، چاہے ایوان بالا کا ہو یا ایوان زیریں کا۔ تمام وزیر باہر سے لیئے جاتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے سینیٹ حب علی کے نہیں، بغض معاویہ کی تحت آئین میں رکھوائی۔ اگرچہ وہ پنجاب کے ووٹوں سے ہی وزیر اعظم بنے تھے لیکن وہ اس کی اہمیت کم کرنا چاہتے تھے۔ انھیں اس میں زیادہ دلچسپی نہ تھی کہ چھوٹے صوبوں کو زیادہ اہمیت ملے۔ اگر وہ زیادہ عرصہ رہتے تو ممکن تھا کہ سینیٹ کے اختیارات اتنے بڑھا دیتے کہ اس کی قومی اسمبلی پر برتری ہو جاتی اور تین چھوٹے صوبے پنجاب پر ہمیشہ غالب رہتے۔ ان کے بعد سینیٹ جیسے تھی کم و بیش ویسے ہی چل رہی ہے۔ اس وقت اس کی حیثیت ایک مباحثہ کلب سے زیادہ نہیں، جہاں تقریریں تو ہوتی رہتی ہیں لیکن ان کا نتیجہ کچھ نہیں نکلتا۔
سینیٹ کے ارکان کا انتخاب صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کرتے ہیں۔ اگر لیڈر امیدوار نامزد کر دے تو پارٹی کے ارکان اسے منتخب کرنے کے پابند ہو جاتے ہیں۔ جہاں امیدواروں میں مقابلہ ہو جائے وہاں ایک ایک رکن اسمبلی کا ووٹ کروڑوں روپے میں خریدا جاتا ہے۔
اگر ارکان سینیٹ کے براہ راست انتخااب کی بات کی جائے تو حکمرانوں کو سانپ سونگھ جاتا ہے کیونکہ اس طرح وہ چہیتوں کو رکن نہیں بنوا سکیں گے۔ اگر ارکان کا انتخاب براہ راست ہو تو ان کے حلقے قومی اسمبلی کے حلقوں سے بھی بڑے ہوں گے۔ پھر کون کہیں زیادہ اخراجات کا بوجھ اٹھانے کو تیار ہوگا، جب کہ سینیٹر بن کر قومی اسمبلی کے رکن کی نسبت کہیں کم فائدے ملتے ہیں؟
اب تک سینیٹ کا ایک فائدہ یہ سامنے آیا ہے کہ یہ آئین میں ترمیم روک سکتی ہے۔ اب تک یہ ہوتا رہا ہے کہ الیکشن کے نتیجہ میں بر سر اقتدار آنے والی پارٹی اگلے الیکش مین ہار جاتی ہے۔ (کسی نے لگاتار دو دفعہ حکومت نہیں بنائی۔) تاہم سینیٹ میں اس کی سیٹیں برقرار رہتی ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے سینیٹ کے ارکان چھ سال کے لیئے ہوتے ہیں اور ہر تین سال کے بعد آدھے ارکان کا انتخاب ہوتا ہے۔ چنانچہ قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کو سینیٹ میں اکثریت کے لیئے اس کے اگلے الیکشن تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ اس وقت تک وہ آئین میں ترمیم نہیں کر سکتی۔
سوال یہ ہے کہ آئین میں ترمیم کی اتنی جلدی کیوں ہوتی ہے؟ صرف ہمارے ہاں ہی ترمیم کے لیئے نہ بحث کی ضرورت سمجھی جاتی ہے اور نہ میڈیہ اور دانشروں سے مشورہ کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ قومی اسمبلی کے ارکان کی رائے بھی ضروری نہیں ہوتی۔ مثلا، 18ویں ترمیم کے تحت آئین میں سو سے زیادہ تبدیلیاں کی گئین لیکن اس قدر خفیہ طور پر کہ اسمبلی تو کجا، اس کمیٹی کے سب ارکان کو بھی خبر نہ ہوئی جنھون نے منظوری دی!
آئین میں ترامیم کے لیئے سینیٹ کی منظوری ضروری بھی نہیں۔ قومی اسمبلی کے ارکان عوام کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں۔ اگر ان کی دوتہائی اکثریت منظور کر لیتی ہے تو کافی ہونی چاہیئے۔ اگر مزید نمائندگی درکار ہو تو کہیں بہتر ہے کہ صوبائی اسمبلیوں کی رائے لے لی جائے۔ اگر تین صوبوں میں سے ہر ایک کی اسمبلی اپنے کل ارکان کی دوتہائی اکثریت سے اتفاق کرے تو ترمیم منظور ہو جائے۔ لیک پھر یہ ہوگا کہ کسی صوبہ میں مخالف پارٹی برسراقتدار ہو تو رکاوٹ پڑ سکتی ہے۔ یوں ترمیم کرنا جوئے شیر لانا ہوگا۔ یہ ایک لحاظ سے بہتر ہی ہوگا کیونکہ اب تک آسانی سے کی جانے والی ترمیموں نے آئین کا حلیہ بگاڑ دیا۔
سینیٹ کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ جو لوگ الیکشن لڑ کر کامیاب نہیں ہو سکتے انھیں اندر لایا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد جسے وزیر بنانا ہو اسے کابینہ میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ اس چور دروازہ کی بجائے کچھ وزیر قومی اسمبلی سے باہر سے لینے کی اجازت ہونی چاہیئے۔ در اصل، وزیر ہونے ہی باہر سے چاہیئیں۔ آج زمانہ تخصص کا ہے۔ ہر شعبہ کی ضروریات سمجھنے کے لیئے اس کے ماہرین درکار ہوتے ہیں۔ یہ لوگ الیکشن نہیں لڑ سکتے۔ جو لڑ کر کامیاب ہوتے ہیں انھیں پتہ نہیں ہوتا کہ کرنا کیا ہے۔ ایک وزیر کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ پہلے دن انھیں فائلوں کو نپٹانے کا طریقہ بتایا گیا کہ کس طرح کسی تجویز کو منظور کرنا ہے اور کس طرح نامنظور۔ اگر کسی فیصلہ کی ضرورت نہ ہو تو صرف "seen" لکھ کر نیچے دستخط کر دیں۔ ایک ایسی فائل آئی تو وزیر موصوف نے اس پر حرف "س" لکھ کر دستخط کر دیئے! جب ارکان اسمبلی کے لیئے تعلیم یافتہ ہونا ہی ضروری نہیں تو ان سے کسی معاملہ پر غور اور نئی سوچ کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟
مسئلہ کا حل یہ ہے کہ آئین میں ترمیم کر کے سینیٹ کو ختم کر دیا جائے۔ رہا مسئلہ پنجاب کی اکثریت کا تو اس نے کبھی اس کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا۔ ہمیشہ دوسروں کے لیئے قربانی دیتا رہا ہے۔ دریائوں کے پانی میں اپنا حصہ کم کیا، مالیاتی اوارڈ میں کمی قبول کی، یہاں تک کہ دوسرے صوبوں کے سبھی امیدوار پنجاب کے ووٹوں ہی سے وزیر اعظم بنتے رہے۔ اس لیئے پنجاب کی اکثریت سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر ڈر ہے تو پھر اس کے پانچ صوبے بنا دیں۔ لیکن پھر ڈر ہوگا کہ دوسرے صوبوں کی تقسیم کا بھی مطالبہ ماننا پڑے گا۔ یہاں آ کر پائوں رک جائیں گے اور آگے قدم نہیں اٹھے گا۔

No comments:

Post a Comment