Monday, October 14, 2013

کیوں نہ صوبے ختم کر دیئے جائیں؟

پلیناریہ (Planaria) ایک قسم کا کیڑہ ہوتا ہے، جس کے دو ٹکڑے کر دیئے جائیں تو ہر ٹکڑہ جلد ہی مکمل شکل اختیار کر لیتا ہے۔ پھر ان دو کے دو دو ٹکڑے کر دیئے جائیں تو وہ بھی مکمل شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
یہی صورت صوبوں کی ہے۔ پہلے ہزارہ ڈویژن کو صوبہ بنانے کا مطالبہ ہوا۔ پھر بہاولپور اور جنوبی پنجاب کے صوبوں کی بات ہونے لگی۔ اس کے بعد پوٹھوہار صوبہ کی قیام کی قرارداد منظور کرانے کے لیئے اسمبلی میں پیش کی گئی۔ پنجاب میں بئے صوبے بنائے گئے تو پھر باقی صوبوں کی تقسیم کا مطالبہ ہوگا۔ م۔ ق۔ م۔ (متحدہ قومی موومنٹ) کراچی اور حیدراباد پر مشتمل نیا صوبہ چاہتی ہے۔ ہر ڈویژن کو صوبہ بنانے کا مطالبہ تو پہلے سے ہی ہو رہا ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا تو ایسا وقت بھی آ سکتا ہے کہ ہر ضلع کو صوبہ قرار دینے کا مطالبہ ہو۔ تو کیوں نہ ایک ہی مرحلہ میں صوبوں کو ختم کر کے سیدھے ضلعوں تک چلے جائیں؟
فورا اعتراض ہوگا کہ ایک بار پہلے بھی اکتوبر 1955 میں صوبے ختم کر کے ون یونٹ بنایا گیا تھا۔ اس سے لوگوں کے لیئے بڑی مشکلات پیدا ہو گئیں۔ انھیں ہر مسئلہ کے حل کے لیئے بہت دور صوبائی دار الحکومت جانا پڑتا۔ چنانچہ یحی خاں نے 1970 میں صوبے بحال کر دیئے (گو اصل وجہ سیاسی معاملات پر اتفاق رائے روکنا تھا)۔
چلیں، صوبوں کی بحالی سے ون یونٹ سے پیدا ہونے والے مسائل ختم ہو گئے۔ اب کیا ہوا کہ پرانے صوبوں پر گزارہ کرنا مشکل ہو گیا؟ اصل مسئلہ حکومت کو عوام کے قریب تر لانے کا ہے، تاکہ مسائل آسانی سے حل ہو سکیں۔ یہ کالم صوبے ختم کرنے سے بڑی اچھی طرح ہو جائے گا۔
موجودہ صوبے غلامی کے دور میں بنائے گئے۔ کسی کی بنیاد لسانی، نسلی، ثقافتی، وغیرہ، نہ تھی۔ انگریزوں کی صرف انتظامی ضروریات تھیں۔ چنانچہ سارے اختیارات صوبوں کو دے دیئے گئے، جن کے سربراہ ہمیشہ بااختیار انگریز ہوتے۔ اضلاع میں ڈپٹی کمشنر صوبائی اور مرکزی حکومت کے احکامات کی تعمیل کراتے تھے۔ ضلع کی پولیس اس کے ماتحت ہوتی تھی۔ عوام صرف رعایا تھے۔ ضلع سے نیچے پنچائتیں تھیں۔ 1912، 1926 اور 1939 میں پنجاب میں پنچائتیں بنانے کے لیئے قانوں نافذ کیئے گئے۔ ان کے تمام ارکان ڈپٹی کمشنر نامزد کرتا تھا۔ پھر بھی 1952 تک صرف ایک تہائی اضلاع میں پنچائتیں بنائی گئیں۔
آزادی کے بعد مقامی سطح پر جو نظام بنائے گئے وہ بڑی حد تک غیرموثر تھے، کیونکہ انھیں ایک طرف اختیارات نہ دیئے گئے اور دوسری طرف افسرشاہی کا ان پر غلبہ رہا۔ ایوب خاں نے بنیادی جمہوریتوں کا نظام نافذ کیا۔ ضیاء الحق نے 1979 میں اس میں بہت سی ترامیم کیں۔ ہمارے بیشتر سیاست کاروں اور افسروں کو یہی نظام پسند ہے کیونکہ اصل اختیارات ان کے اپنے ہاتھ میں رہیں گے۔
2001 میں نافذ ہونے والے مقامی حکومتوں کے نظام میں اضلاع کو اتنے سیاسی، مالی اور انتظامی اختیارات دے دیئے گئے کہ صوبوں کے کرنے کو صڑف پالیسی سازی رہ گئی۔ دوسری طرف، آئین میں 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو اتنے اختیارات دے دیئے گئے، جنھیں وہ استعمال ہی نہیں کر پا رہے۔ اگر پالیسی سازی کے اختیارات واپس مرکز کے پاس چلے جائیں اور 2001 کا مقامی حکومتوں کا نظام پوری طرح اور اصل شکل میں بحال ہو جائے تو صوبوں کی ضرورت ہی نہیں رہے گی اور عوام کی مسائل بھی آسانی سے حل ہوں گے۔
صوبے مرکز سے ملنے والی رقوم سے کام چلاتے ہیں۔ ان کی اپنی ٹیکس آمدنی 10 فی صد سے بھی کم ہوتی ہے، جیسا کہ ذیل میں دیئے گئے چارٹ سے ظاہر ہوتا ہے:
2010 میں صوبوں کی آمدنی، بلین روپوں میں
صوبہ    کل آمدنی    اپنی ٹیکس آمدنی                %      غیرٹیکس آمدنی
پنجاب        436.5               36.8                   8.4             76.2
سندھ         240.5               22.1                   9.2           93.2
خیبر        133.4               3.5                     2.6           53.7
بلوچستان   44.8                1.1                     2.5           1.3
اگر صوبوں نے قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت مرکز سے ملنے والی رقوم ہی خرچ کرنی ہیں تو یہ کام ضلع حکومتیں کہیں بہتر طور پر کر سکتی ہیں۔ ان کے منتخب نمائندں کو اپنی ضرورتوں کا علم صوبائی صدر مقام میں بیٹھے افسروں سے کہیں زیادہ ہوگا۔ مرکزی حکومت طے شدہ فارمولہ کے تحت اضلاع کو براہ راست رقوم دے دے۔ جن منصوبوں کا تعلق دو یا اس سے زیادہ اضلاع سے ہو (جیسے بڑی سڑک، چھوٹا ڈیم، نہروں کا نظام)، وہ یا تو متعلق ضلع ناظمین یا ضلع کونسلیں اتفاق رائے سے بنا سکتے ہیں یا مرکزی حکومت کر سکتی ہے۔
مقامی حکومتوں کے نظام کے نفاذ کے بعد صوبوں کے پاس صرف پالیسی سازی رہ گئی۔ یہ کام مرکزی حکومت سارے ملک میں یکساں اور کہیں بہتر طور پر کر سکتی ہے۔ صوبے مختلف اور متضاد پالیسیاں بناتے ہیں۔ مثلا، یکساں ٹرانسپورٹ پالیسی اور موٹرگاڑیوں کی رجسٹریشن کا ایک نظام نہ ہونے سے ٹرانسپورٹروں کے لیئے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
صوبے ختم ہونے سے پالیسی معاملات مرکزی حکومت کے اور دوسرے تمام معاملات ضلع حکومتوں کے سپرد کر دیئے جائیں۔
عمل کیسے ہوگا؟ یونین ناظم بلحاظ عہدہ پارلیمنٹ  کا رکن ہوگا اور ضلع کونسل کا بھی۔ چنانچہ وہ پارلیمنٹ اور ضلع کونسل دونوں کی کاروائی میں حصہ لیا کرے گا۔
سیاست کار تو کبھی صوبے ختم کرنے پر رضامند نہیں ہوں گے۔ چنانچہ، غیرمعمولی طریقہ اپنانا ہوگا۔ پہلے آئین میں ضروری ترمیموں کے اوردوسرے قوانین کے مسودات تیار کیئے جائِین۔ پھر ایک دن آرمی چیف ہنگامی حالت نافذ کر کے آئینی ترمیموں اور دوسرے قوانین کو نافذ کر دیں۔ تھوڑی دیر بعد ہنگامی حالت ختم کر دی جائے۔ اس کے بعد سپریم کورٹ کاروائی کی توثیق کر دے۔ جونہی مرکزی قانون کے تحت مقامی حکومتوں کے انتخابات ہوں اور منتخب عہدیدار حلف اٹھا لیں تو صوبے ختم ہو جائیں گے۔ نئی پارلیمنٹ قوانین اور آئین میں ترامیم منظور کرے۔ جب یونین ناظم بلحاظ عہدہ قومی اسمبلی کے ارکان بن جائیں گے  تو نیا سیاسی نظام وجود میں آ جائے گا۔ اس کے تحت ہر ضلع کی بھرپور ترقی ہوگی اور صوبائیت کے پیدا کیئے ہوئے مسائل اور علاقائی کشیدگیاں ختم ہو جائیں گی۔
 11 ستمبر 2013

No comments:

Post a Comment