Tuesday, October 15, 2013

قصہ روزنامہ "دنیا" کے لیئے کالم لکھنے کا

عمار چودھری صاحب،
گزشتہ 23 مئی، بعد دوپہر، آُپ نے مجھے فون کیا۔
"میں روزنامہ "دنیا"سے عمار چودھری بول رہا ہوں۔ ہمیں آپ کا ایک مضمون ملا ہے۔ ہم اسے چھاپنا چاہتے ہیں۔ آپ اپنی تصویر اور ای میل پتہ پھیج دیں۔"
"میرا کون سا مضمون ہے؟"
"سیاست کے بارے میں ہے۔"
"اسے رہنے دیں۔ میں آپ کو بجلی سستی کرنے اور لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے بارے میں مضمون بھیج دیتا ہوں۔ اسے شائع کرنا بہتر ہوگا۔"
"یہ ٹھیک ہے۔ ویسے بھی بجلی آج کا ہاٹ سبجیکٹ ہے۔"
مضمون اگلے ہی دن چھپ گیا۔ طے ہوا کہ میں باقاعدگی سے ہفتہ میں دوکالم لکھا کروں گا۔ سوچ بچار کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ گھسے پٹے موضوعات پر لفظوں کی جگالی کرنے کی بجائے بہتر ہوگا کہ میں ہر دفعہ کسی ایک مسئلہ کو لوں اور اپنی سمجھ کے مطابق اس کا حل تجویز کروں۔ مسئلہ بھی ایسا ہو جس کی طرف توجہ نہ دی گئی ہو لیکن اس کا عام لوگوں پر اثر پڑتا ہو۔ اس طرح پڑھنے والوں کی سوچ کو مہمیز ملے گی۔ اگر مسئلہ فوری طور پر حل نہ بھی ہو، تب بھی تجویز تو گردش میں رہے گی اور کبھی نہ کبھی حل کرنے والوں کے ایوانوں تک پہنچ جائے گی۔
ادھر میں کالم بھیجتا، اگلے یا اس سے اگلے روز چھپ جاتا۔ چونکہ میں اخبار کی خبروں کو سامنے رکھ کر نہ لکھتا، میرے لیئے آسان تھا کہ پیشگی طور پر کالم تیار کر لیا کروں۔ اس وقت بھی سات کالم فائینل اور 28 سیمی فائینل شکل میں ہیں۔ 140 کے قریب ابتدائی شکل میں ہیں۔ ان کے علاوہ نت نئے موضوعات آتے رہتے۔ یوں میں کئی سالوں تک کالم چلا سکتا تھا۔
بہت سے لوگ اپنے کالم میں صاحبان اقتدار کی خوشامد یا انھیں بلیک میل کر کے دنیاوی فائدے حاصل کرتے ہیں جب کہ میں نے، جیسا کہ میرے کالموں سے ظاہر ہے، ایسی کوئی کوشش کبھی نہ کی۔
بیشتر لوگ کالم لکھتے ہیں نام بنانے کے لیئے جب کہ مجھے شہرت کی خاہش کبھی نہیں رہی۔ میں حضرت بایزید بسطامی کے ملامتیہ مسلک کا پیروکار ہوں، جس میں انسان ہر وقت کوشاں رہتا ہے کہ تکبر اور انا کی تسکین سے بچے۔ کالم نویس اگر مشہور ہو بھی جائے تو بھی صرف کالم کا پیٹ بھرتے رہنے سے نہ اسے کچھ تسکین ہوتی ہے اور نہ پڑھنے والے کو۔ میرے ایک دوست کہا کرتے ہیں، "میں منو بھائی کا کالم روز پڑھتا ہوں، اس امید پر کہ شائد آج کوئی کام کی بات لکھی ہو۔"
شروع سے ہی مسائل کا سامنا ہو گیا۔ پتہ چلا کہ اخبار کے مدیران ادارت کے مسلمہ اصولوں کی بھی پروا نہیں کرتے۔ (نازک مزاج شاہاں تاب سخن ندارد۔) جہاں چاہا عبارت کاٹ دی یا بدل دی، جہاں چاہا عنوان کچھ کا کچھ کر دیا۔ تحریر کو کوئی تقدس نہ ملتا۔ پڑھنے والا تو یہی سمجھتا کہ لکھنےوالے ہی کی مت ماری گئی۔ اسے کیا خبر کہ تکبر اور انا کی تسکین کے لیئے قینچی کون چلاتا ہے۔ (اس کے برعکس کالم نویسوں کی غلطیوں کی تصحیح نہیں کی جاتی۔ محنت جو درکار ہوتی ہے۔)
میرے خط "ٹائیم،" "نیوزویک،" "بزنس ویک،" وغیرہ میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ جو کچھ چھپتا اس کا ایک ایک لفظ میرا ہوتا۔ کوئی میری انگریزی یا گرامر تبدیل نہ کرتا۔ ان جیسے عظیم اداروں میں من مانی نہیں چلتی۔ مشہور امریکہ ہفت روزہ، "ٹائیم،" کے بانی ایڈیٹر، ہنری لوس، 61 سال تک چیف ایڈیٹر رہے۔ اس عرصہ میں ان کا لکھا ہوا ایک جملہ بھی رسالہ مِن شائع نہ ہوا۔ ہمارے ہاں کئئِ ایڈیٹر اپنے اصل کام سے کہیں زیادہ وقت اور ترجیح کالم لکھ٘نے اور ٹیلی ویژن پر آنے کو دیتے ہے۔ خود نمائی کا جنون سوچنے اور سیکھنے کے لیئے کہاں وقت رہنے دیتا ہے؟
میں تحریر میں پیرہ کو اتنا ہی اہم سمجھتا ہوں، جتنا تقریر میں سانس لینے کو۔ ہر نیا نکتہ نئے پیرہ میں لکھتا ہوں، ورنہ وہی ہو سکتا ہے جو ایک سانس میں پانی کا گلاس پینے سے ہوتا ہے۔ دوسری طرف آپ کو صفحہ پر سطریں پوری کرنے کے لیئے پیرے مٹانے پڑتے۔ ایک دفعہ تو آپ نے پورا کالم ایک پیرہ میں کر دیا! اس کا حل آپ نے یہ نکالا کہ میں کالم کو 1200 کی بجائے 1000 کے لگ بھگ الفاظ تک محدود کر دیا کروں۔ اس طرح میرے پیرے برقرار رہیں گے۔
ایک اور مسئلہ املا کا پیدا ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ زندہ زبان میں املا کی بہتری ہوتی رہنی چاہیئے۔ انگریزی میں شیکسپیئر کے زمانہ کی املا برقرار نہیں رہی۔ ہمارے ہاں بھی یہ عمل جاری رہنا چاہیئے۔ تاہم بہت سے لوگ "اعلی" کو "اعلا" یا "خواہش" کو "خاہش" لکھنا قبول نہیں کرتے، حالانکہ جب ایک لفظ اردو میں اپنا لیا گیا تو  ضروری نہیں کہ اس کے لیئے عربی یا فارسی کی اصل املا برقرار رکھی جائے۔ بنیادی اصول یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے ہر لفظ کی املا اس کے تلفظ کے مطابق ہونی چاہیئے۔ بہرحال، میں نے اسے مسئلہ نہ بنایا۔ بنا بھی نہ سکتا تھا۔ اخبار میں تو وہی املا چھپنا تھا جو لکیر کے فقیر مدیران چاہتے۔
ادارتی صفحہ "دنیا" ہی نہیں سب اردو اخباروں کا نہائت غیر جاذب نظر اور یکسانیت کا شکار ہوتا ہے۔ جو لے آئوٹ 30، 40 سال پہلے کسی نے بنا دیا، اسی کو سب اپنائے ہوئے ہیں۔ مانا کہ ادارتی صفحہ پر تصویریں، وغیرہ، نہیں دی جا سکتیں لیکن ٹائیپ کو مخطلف طریقوں سے استعمال کر کے دلکشی پیدا کی جا سکتی ہے۔ ٹائیپ سائیز بڑا کر کے پڑھنا آسان کیا جا سکتا ہے۔ عنوان بڑے ٹائیپ میں دیئے جا سکتے ہیں اور انھیں ریورس (کالی زمین پر سفید حروف) سے نکالا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک 40، 50 سال کا "تجربہ" رکھںے والے کوچ نہیں کر جاتےاور ان کی جگہ نئی سوچ رکھنے والے اور تجربات کرنے والے نہیں لے لیتے۔
ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں نوجوان صحافیوں نے بتایا کہ سینیئر لوگ اپنے آپ کو غیرمحفوظ سمجھتے ہیں۔ انھیں ہر وقت یہی خوف رہتا ہے کہ کوئی نئی سوچ اور نئے طریقوں والا آ گیا تو ان کی چھٹی ہو جائے گی۔ نہ کسی کو کچھ سکھاتے ہیں اور نہ کسی کو آگے آنے دیتے ہیں۔انھوں نے 40، 50 سال پہلے جو کچھ سیکھا، اسی سے کام چلاتے ہیں۔ گھسے پٹے انداز سے کام کرتے رہنے سے بہتری نہیں آیا کرتی۔ نئے اخبار مالکان جن "تجربہ کار" لوگوں کو کہیں زیادہ تنخاہ اور مراعات دے کر لاتے ہیں وہ وہی کرتے ہیں جو کئی دہائیوں سے کرتے چلے آ رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سب اخبار ایک دوسرے کی نقل کرتے ہیں۔ سب میں یکسانیت ہے۔ کسی کی بھی پیشانی کاٹ دی جائے تو پتہ نہیں چلتا کہ کون سا اخبار ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ کالم کے عنوان سے ہونے والا سلوک تھا۔ ایک کالم کا عنوان تھا، " سیاچن اور فاٹا کے مسائل کیسے حل ہو سکتے ہیں۔" اسے "دو تجاویز" کر دیا گیا۔ اس طرح کی کئی تبدیلیاں کی جاتی رہیں۔ یہاں تک کہ پی۔ آئی۔ اے۔ کا بارے میں کالم کا عنوان تھا، " پی۔ آئی۔ اے۔ کی نجکاری ایک روپیہ میں کر دیں۔" اس کی جگہ "بڑے اداروں کی نجکاری" کر دیا تھا۔ آپ نے بتایا کہ یہ "اصلاح" سجاد کریم صاحب نے فرمائی، جو ادارتی صفحات کے انچارج ہیں۔
عنوان میں اس قطعا بےمعنی تبدیلی پر مجھے شدید رنج ہوا۔ میں سوچنے لگا کہ اگر یہی کچھ ہوتا رہا تو میں زیادہ دیر برداشت نہ کروں گا۔ میں نے آپ کو یہ خط لکھا اور کہا کہ اسے سجاد کریم اور نذیر ناجی کو دکھا دیں:
=============
اپنے کالم اور اس کے عنوان کے بارے میں وضاحت
میں نے پی۔ آئی۔ اے۔ کے بارے میں ایک کالم لکھا تھا، جو "دنیا" میں 18 ستمبر کو شائع ہوا۔ سارا کالم ایئرلائین کے بارے میں تھا۔ اس میں کسی اور بڑے ادارہ کا ذکر نہ تھا۔ دوسرے، میرا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ ایئرلائین کو بہتر بنانے اور اس کا خسارہ کم کرنے پر جتنا خرچ کیا جائے گا 26 فی صڈ حصص کی فروخت کے بعد اتنی رقم بھی نہ ملے گی۔ اس سے بہت بہتر ہوگا کہ ایئر لائین خریدار کو صرف ایک روہیہ میں دے دی جائے اور اسے کہا جائے کہ تمام واجبات اور اخراجات اس کے ذمہ ہوں گے۔ اس طرح حکومت کو کچھ خرچ نہیں کرنا ہوگا۔ یہ نئی اور بہت بہتر تجویز تھی، جو اب تک کسی نے بھی پیش نہ کی تھی۔ دونوں نکات کو سامنے رکھ کر میں نے کالم کا عنوان دیا:
 “"پی۔ آئی۔ اے۔ کی نج کاری ایک روپیہ میں کر دیں
لیکن جب کالم چھپا تو اس پر عنوان تھا،
"بڑے اداروں کی نج کاری"
پڑھنے والوں نے سمجھا ہوگا کہ میں نے بھی اسی قسم کی کوئی تجویز دی ہوگی جو اکثر لوگ بڑے اداروں کی نجکاری کے لیئے دیتے رہتے ہیں۔ یوں چنانچہ انھوں نے کالم پڑھنے کے لائق نہ سمجھا ہوگا۔ یوں کالم کی تجریر سعی لاحاصل ہو گئی۔
اپنے کالم کے بارے میں وضاحت کر دوں کہ میں اخبار کی کسی خبر کو سامنے رکھ کر قلم برداشتہ نہیں لکھتا۔ نہ میں خود کو عقل کل سمجھتا ہوں کہ ملک کے ہر داخلی اور خارجی مسئلہ پر حتمی رائے دوں۔ نہ ہی مجھے بقراطی جھاڑنے کا شوق ہے۔ میری کوشش صرف یہ ہوتی ہے کہ قاری کو نئی اور مثبت سوچ دی جائے۔ چنانچہ میں مسائل کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں۔ اگر میرے ذہن میں کسی مسئلہ کا حل آتا ہے تو میں ایک نشست میں اس کا مسودہ لکھ دیتا ہوں۔ پھر کئی دن تک وقفہ وقفہ سے اسے زیادہ صحیح، زیادہ واضح، زیادہ جامع بناتا رہتا ہوں تاکہ کوئی غلطی یا جھول نہ رہ جائے۔ آُپ کو بھیجنے سے پہلے ایک بار پھر سارا کالم پڑھتا ہوں۔
کالم اور اس کے عنوان کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے خبر اور اس کی سرخی میں ہوتا ہے۔ دونوں کا مقصد قاری میں رغبت پیدا کرنا ہوتا ہے۔ مثلا، آج کے اخبار میں اگر [ نواز شریف کی تقریر کی] شہ سرخی یہ ہوتی، "چند منصوبون کا اعلان،" تو کتنے لوگ خبر پڑھتے؟ اسی طرح اگر کالم کا عنوان مبہم ہو تو قاری کو پڑھنے کی ترغیب نہیں ہوتی۔ چنانچہ میں بہت سوچ سمجھ کر عنوان دیتا ہوں کہ اس سے نفس مضمون کی نشان دہی ہو اور اس میں ندرت اور تجسس ہو تاکہ قاری میں دلچسپی پیدا ہو۔ اگر کالم کے متن میں اظہار کی آزادی ہے تو عنوان میں بھی ہونی چاہیئے۔
=======
میں نےستمبر کے آخری ہفتہ میں آپ کو فون کیا لیکن آپ نے نہیں سنا۔ میں سمجھا کہ مصروفیت ہوگی۔ چند دن بعد وقفہ وقفہ سے تین دفعہ فون کیا لیکن آپ نے نہیں سنا۔ میں سمجھ گیا کہ قطع تعلق ہو گیا ہے۔ تاہم یکم اکتوبر کو ہفتہ کا پہلا کالم بھیج دیا جو ظاہر ہے نہ چھپنا تھا نہ چھپا۔ بہرحال، اتمام حجت ہو گئی تاکہ کوئی نہ کہہ سکے کہ میں نے کالم ہی نہ بھیجا۔
مجھے آپ کا فون نہ سننا اچھا نہ لگا۔ اگر اوپر والوں میں اخلاق، مروت نہیں تو آپ کے لیئے ان جیسا رویہ اپنانا لازم نہ تھا۔ آپ "دنیا" کے ملازم ہیں، غلام نہیں۔آپ خود ہی فون کر کے مجھے کہتے، "سر، معافی چاہتا ہوں، مجھے کہا گیا ہے کہ آپ کا کالم اب نہیں چھپے گا۔" جواب میں میں نے صرف یہ کہنا تھا، "بہت اچھا۔" مجھے کیا دیا جاتا تھا، جس سے محروم ہونے پر میں احتجاج کرتا؟ میں تو اخبار بھی اپنے پلہ سے لیتا تھا۔ (وہ بھی اس لیئے نہیں کہ اخبار بڑھنے کے لائق ہے بلکہ صرف اپنے کالم کے تراشے لینے کے لیئے۔)
ہمارے ہاں نہائت ناپسندیدہ روائت ہے کہ قطع تعلق کرنا ہو تو خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ اس طرح پیغام تو پہنچ جاتا ہے لیکن اپنے ساتھ تلخی بھی لاتا ہے جو ساری زندگی نہیں جاتی۔ اسی لیئے کہتے ہیں کہ کمرہ سے نکلیں تو دروازہ زور سے بند نہ کریں کیوں کہ ہو سکتا ہے کسی وقت اسی دروازہ سے پھر اندر آنا پڑے۔ آپ کسی کو ناپسند کرتے ہوں تو بھی ممکن ہے کہ زندگی میں پھر کسی موقع پر سامنا ہو جائے۔ اگر خوشگوار طریقہ سے علیحدہ ہوئے ہوں تو تعلق بحال کرنے میں جھجھک نہیں ہوتی۔
مجھے معلوم ہے کہ میرا کالم کس نے بند کرایا۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اس کی وجہ کیا تھی۔ لیکن اس کی تفصیل میں جانا بے سود ہے۔
میرا کالم اخبار کے لیئے کہیں زیادہ مفید تھا۔ اگر کوئی تجویز پڑھنے والوں کو اچھی لگے تو اخبار کی نیک نامی ہوتی ہے۔ میں کئی منصوبوں پر کام کر رہا تھا، جن کی اشاعت اخبار کے لیئے بڑے فخر کا باٰعث ہوتی۔
کالم کی اشاعت بند ہونا میرے لیئے سکون اور راحت کا باٰعث بنا ہے۔ میرا دن کا بیشتر حصہ کالموں کے لکھنے اور ان کی ترمیم و تصحیح میں گزرتا۔ اب میں دوسرے کاموں پر توجہ دے سکوں گا، جو پس پشت ڈالے جاتے رہے۔ میرے لیئے کالم ویسے ہی اہم نہ تھا۔ اخبار کا ادارتی صفحہ پڑھنے والوں کے مقابلہ میں میری میلنگ لسٹ کے قارئین کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ اب میری تحریریں ان کے لیئے مخصوص ہوں گی۔ کالم نویسی خوشگوار مصروفیت ثابت نہ ہوئی
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے

No comments:

Post a Comment