Monday, October 14, 2013

پی۔ آئی۔ اے۔ کی نجکاری ایک روپیہ میں کر دیں

مقصد زیادہ اہم ہوتا ہے، طریق کار نہیں۔ بیمار کو صحت سے غرض ہوتی ہے، اس سے نہیں کہ علاج کس طرح ہو اور کون کرے۔
دہائی-1960 میں نور خاں اور اصغر خاں نے پی۔ آئی۔ اے۔ کی بنیاد مضبوط کر کے بلندی کی طرف محو پرواز کر دیا۔ میڈیہ اور دانشوروں نے توجہ نہ دی۔ جیسا کہ عام رویہ ہے، گھر کی مرغی دال برابر سمجھی گئی۔ جب امریکی ہفت روزہ، "ٹائیم،" نے تعریفی مضمون شائع کیا تو ایک دم ہر طرف سے پی۔ آئی۔ اے۔ کی واہ واہ ہونے لگی۔
زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ ایئرلائین کی بہتری پر توجہ کم اور اپنے چہیتوں کو نوازنے پر زیادہ ہو گئی۔ پھر بھرپور لوٹ مار کا دور آیا۔ سفارش پر نااہل افراد پھرتی کیئے جانے لگے، وہ بھی ضرورت سے کہیں زائد۔ ہر قسم کی خریداری میں کمشن کے لیئے بے تابی ظاہر ہونے لگی۔ ہر شعبہ میں بدعنوانی حاوی ہوگئی۔ جسے اس کا سربراہ بنایا جاتا وہ جلد از جلد زیادہ سے زیادہ مال بنانے کی کوشش کرتا۔ حالات اتنے خراب کر دیئے گئے کہ اب نج کاری کے سوا کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔
نج کاری کا صحیح وقت وہ تھا جب پی۔ آئی۔ اے۔ اچھی حالت میں تھی لیکن اس بارے میں کوشش ہی نہ کی گئی۔ حکمرانوں کو سمجھ نہ آئی کہ حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں ہوتا۔ یہی نہیں، انھوں نے فرض کر لیا کہ وہی پی۔ آئی۔ اے۔ کے مالک ہیں۔ اس لیئے انھیں اس کی زیادہ سے زیادہ قیمت لینی چاہیئے۔ انھوں نے نظرانداز کر دیا کہ ایئرلائین عوام کے پیسہ سے بنائی گئی۔ حکومت تو صرف امین تھی۔ اس کی ذمہ داری اتنی تھی کہ اسے اچھے انداز میں چلایا جائے۔ زیادہ سے زیادہ قیمت کے انتظار میں حالت خراب تر ہوتی رہی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ قیمت چڑھنے کی بجائے گرتی گئی۔ اب لینے کی بجائے دینے کی نوبت ْا سکتی ہے۔
یہ سوچنا کوتاہ اندیشی ہوگی کہ حالات سدھار کر نج کاری کی جائے۔ اول تو ایسا منتظم ملنا بہت مشکل ہے جو یہ کارنامہ سرانجام دے سکے۔ اگر مل جائے اور منافع بخش بنا دے تو پھر کیوں نہ اسی کی سربراہی ہی میں ایئرلائین چلتی رہے؟ نج کاری کیوں کی جائے؟۔ دوسرے، جتنا خرچ ہوگا نج کاری کے بعد لگ بھگ اتنا ہی وصول ہوگا۔ پھر فائدہ؟
مسئلہ کا حل یہ ہے کہ "جیسی ہے" کی بنا پر ہی پی۔ آئی۔ اے۔ کے 26 فی صد حصص کسی پاکستانی کو ایک روپیہ میں دے دیئے جائیں۔ (لین دین کے معاہدہ میں قانون کی رو سے رقم کا درج ہونا ضروری ہوتا ہے، جو کم از کم ایک روپیہ ہوگی۔)
ایک روپیہ میں بھی یہ سودہ خریدار کے لیئے کسی طرح سستا نہیں ہوگا۔ ذرا حساب لگائیں: (الف) اب تک کے تمام قرضے اور واجبات اس کے ذ٘مہ ہوں گے۔ (ب) تمام جاری اخراجات برداشت کرنے ہوں گے۔ (پ) بہتری لانے کے لیئے اپنی طرف سے بھی سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔
حکومت کی یہ ساری بچت اس رقم سے کہیں زیادہ ہوگی جو ایئر لائین کی حالت بہتر بنا کر نجکاری سے ملنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ روز بروز بڑھتے خسارہ سے بھی فوری طور پر چھٹکارہ مل جائے گا۔ حالت بہتر بنانے کے لیئے بھی اپنی طرف سے کچھ نہیں دینا ہوگا۔
خریدار کو کاروبار کا خسارہ کاروبار ہی سے پورا کرنا ہوگا۔ ایک طرف اخراجات گھٹانے ہوںگے اور دوسری طرف آمدنی بڑھانی ہوگی۔ وہ جو کچھ خرچ کرے گا آمدنی سے کرے گا یا اپنے سرمایہ سے۔ اسے کوئی جہاز، عمارت، زمین یا کوئی اور اثاثہ بیچنے کی اجازت نہ ہو۔
ہوائی جہاز اڑتا رہے تو کمائی دیتا ہے، کھڑا رہے تو کمائی کھاتا ہے۔ اس لیئے سب سے پہلا کام تمام جہازوں کو اڑنے کے قابل بنانا ہوگا۔ آمدنی بڑھانے کے لیئے وہ تمام پروازیں بحال کی جائیں جو بھلے وقتوں میں اڑا کرتی تھین۔ اندرونی اور بیرونی کرائے کم کیئے جائیں تاکہ ہر پرواز میں خالی سیٹیں کم سے کم ہوں۔
جب راج چوپٹ ہوتا ہے تو بہت سے اخراجات بلاجواز ہونے لگتے ہیں۔ ایسے اخراجات ختم کرنے سے خاصہ فرق پڑے گا نہائت حساس مسئلہ ملازموں کا ہوگا۔ ان میں (الف) نااہل اور کام چور ہیں، جو سفارش یا رشوت سے بھرتی ہوئے، (ب) اہل ہیں لیکن ان کے لیئے کام نہیں، اور (پ) اہل ہیں اور ان کے لیئے کام پیدا کیا جا سکتا ہے۔
جن ملازموں کی ضرورت نہیں انھیں یک لخت ​گولڈن ہینڈ شیک سے ​فارغ کرنے کی بجائے چھ سے 12 ماہ کی مہلت دی جائے تاکہ وہ کوئی اور ملازمت یا کام ڈھونڈ سکیں۔ وہ بوجھ تو ہیں لیکن آخر انسان ہیں، ان کے بال بچے ہیں، اور ایک کی تنخاہ پر پر کئی فراد پلتے ہیں۔
حکومت کو غیرملکی ایئرلائینوں کو پہنچایا گیا بلاجواز فائدہ ختم کرنا ہوگا۔ تسلیم شدہ طریقہ ہے کہ دوسرے ملک پی۔ آئی۔ اے۔ کو اپنے جتنے شہروں کو جانے دیں اور جتنی پروازوں کی اجازت دیں، وہی سہولت جواب مں دی جانی چاہیئے۔ دوسرے ملکوں کی ایئرلائینوں کو دیئَے گئے زائد شہر اور روٹ ختم کرنے ہوں گے۔
آملہ اور سیانے کی بات کی طرح ایک روپیہ میں نجکاری کا فائدہ بعد میں ظاہر ہوگا۔ جب پی۔ آئی۔ اے۔ کو منافع ہونے لگے گا تو اس میں سے حکومت کو اپنے 74 فی صد حصص پر منافع ملے گا۔ اس طرح حکومت کو منافع ملنے لگے گا اور کوئی درد سر بھی نہیں رہے گا ۔ خسارہ میں چلنے والی دوسری کمپنیوں کے لیئے بھی ایسا ہی کیا جا سکتا ہے۔
یہ کوئی انوکھی صورت حال نہیں ہوگی۔ پرویز مشرف دور میں بینکوں کی نج کاری کی گئی۔ زیادہ رقم وصول نہ ہوئی۔ لگا کہ گھاٹہ کا سودہ ہے۔ لیکن جب بینکوں کی حالت بہتر ہوئی تو خریداروں کے حصص کے ساتھ حکومت کے حصص کا منافع بڑھ گیا اور ان کی مالیت بھی۔ اس طرح پیشگی ملنے والی رقم میں کمی کی تلافی ہو گئی۔
حکومت کو بہت اہم فیصلہ یہ کرنا ہوگا کہ خریدار اپنے ملک کا ہو۔ ایک حصہ بھی کسی غیرملکی یا دہری شہریت والے کو اب یا بعد میں ہرگز نہ دیا جائے۔ کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی غیرملکی سرمایہ کاروں کو دینے کا نتیجہ ہمارے سب سے بڑے شہر کے باشندے بڑی بری طرح بھگت رہے ہیں۔ 

No comments:

Post a Comment