Monday, October 14, 2013

حکومت انتظامی اخراجات کیسے کم کرے

اخراجات ہمیشہ بڑھ کر آمدنی میں متوقع اضافہ کے برابر ہو جاتے ہیں۔ مثلا، جب سرکاری ملازموں کی تنخاہوں میں اضافہ کی خبریں آنے لگتی ہیں تو ان کی بیویاں اضافہ سے پہلے ہی طے کر لیتی ہیں کہ اضافی رقم کیسے خرچ کرنی ہے۔
مرکز اور صوبوں میں حکومتوں کی سوچ بھی عورتوں جیسی ہی ہوتی ہے۔ ان کے بجٹ اصل آمدنی کی بنا پر نہیں بلکہ متوقع آمدنی کی بنا پر بنائے جاتے ہیں۔ جب سال کے آخر تک آمدنی میں متوقع اضافہ نہیں ہوتا تو اگلے سال اخراجات کم کرنے کا عزم کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد، بقول شاعر، وہی ہے چال بے ڈھنگی، جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔
حکومت کے انتظامی اخراجات کل بجٹ کا بڑا تھوڑا سا حصہ ہوتے ہیں۔ پھر بھی ان میں خاصی بچت ممکن ہے۔ گہری نظر سے پتہ چلتا ہے کہ، بقول شاعر، مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی۔ آئیں دیکھیں کہ خرابی کی صورتیں کیا ہیں اور کیسے ختم کی جا سکتی ہیں:
ہر اسامی کی مجموعی لاگت شمار کریں۔ نئی اسامی کی لاگت کا تخمینہ لگانے کے لیئے صرف بنیادی سکیل کے مطابق تنخاہ ہی دیکھی جاتی ہے۔ اصل لاگت میں یہ مدیں شامل ہوتی ہیں: کرایہ مکان، ٹرانسپورٹ الائونس، خصوصی الائونس، دفتر یا کام کی جگہ کی لاگت یا کرایہ، فرنیچر، آلات کار (جیسے، کمپیوٹر)، فون، بجلی (ایئرکنڈیشننگ سمیت)، گیس، سٹیشنری، وغیرہ۔ یوں ہر اسامی پر خرچ تنخاہ سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ ہر دفعہ کل لاگت شمار کی جائے تو نئی اسامیوں کا جواز پیدا کرنا مشکل ہو جائے گا۔
بنیادی سکیل ختم کر دیں۔ ذوالفقار بھٹو کے دور میں سرکاری ملازموں کے چار درجے ختم کر کے 22 بنیادی سکیل بنائے گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ایک سکیل سے ہوتے ہوئے اوپر جانے کے لیئے بیشتر ملازمین کو عمر خضر درکار ہوتی ہے۔
اب صرف ترقی دینے کے لیئے بلا ضرورت نئی اسامیاں پیدا کرنی پڑتی ہیں۔ اگر اوپر والے سکیل میں اسامی نہ ہو تو ملازم کو ترقی نہیں مل سکتی۔ اور ترقی نہ ملے تو تنخاہ میں اضافہ نہیں ہو سکتا۔ بنیادی سکیل ختم کر کے ہر ملازم کا ذاتی سکیل مقرر ہونا چاہیئے۔ بھرتی سے لے کر 50 سال کی عمر تک ہر ملازم کو ہر سال تنخاہ میں اضافہ ملتا رہے۔ یہ اضافہ بھی مقررہ میعاد کے بعد خود بخود بڑھتا رہے۔ اس طرح ملازم ترقی نہ ملنے پر بھی یکسوئی سے کام کرتا رہے گا۔
ہر ادارہ اور دفتر اپنے وجود کا جواز دے۔ ہر ادارہ، شعبہ، دفتر، وغیرہ، کا سربراہ سال کے آخر میں بتائے کہ اس کے ادارہ نے سال بھر میں کیا اہم کام کیا اور اگر ادارہ ختم کر دیا جائے تو کیا نقصان ہوگا۔ مبالغہ آرائی اور لمبی چوڑی تحریر روکنے کے لیئے ہدائت کی جائے کہ کارکردگی اور جواز صرف ایک ایک صفحہ پر لکھا جائے۔
وزارت خزانہ تمام رپورٹوں کا جائزہ لے اور سفارش کرے کہ جن اداروں کی کاردگی اور جواز تسلی بخش نہ ہو، ان کے لیئے رکھی گئی رقم اگلے سال کے بجٹ سے نکال دی جائے۔ اس طرح وہ ادارے اور دفتر ختم ہو جائیں گے، جو صرف کسی منظور نظر کی خاطر بنائے گئے۔
خالی رہ جانے والی اسامیاں ختم کر دیں۔ اگر کوئی اسامی چھ ماہ سے زیادہ خالی رہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ اس کے بغیر بھی کام چل سکتا ہے۔ اس لیئے اسے ختم کر دیا جائے۔
نقد خرید کی بجائے لیزنگ کریں۔ کاریں، فرنیچر، کمپیوٹر اور دیرپا آلات خریدنے کی بجائے لیز پر لیں، جس میں مرمت اور دیکھ بھال کی لاگت شامل ہو۔ اس طرح قیمت یک مشت کی بجائے کئی سالوں پر تقسیم ہو جائے گی اور مرمت کا معقول انتظام بھی ہو جائے گا۔
ٹینڈر نوٹس کے اشتہار بند کر دیں۔ ٹینڈر نوٹس کے اشتہار اب غیرضروری ہو گئے ہیں۔ ٹھیکیدار براہ راست معلومات لے لیتے ہیں۔ اس لیئے ٹینڈر نوٹس محکمہ کی ویب سائیٹ پر ڈالے جائیں اور ای میل اور رجسٹرڈ ڈاک سے منظور شدہ ٹھیکیداروں کو بھیجے جائیں۔ اخباروں کی صرف ڈسپلے اشتہار دیئے جائیں، جو معلومات افزا ہوں اور سرکاری کاموں کی تشہیر کریں۔
اپنا فون نظام بنائیں۔ موبائل فون کمپنیوں کے تعاون سے اپنا فون نظام بنائیں، جس میں مرکزی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے تمام تین ملین اہل کار آپس میں مفت بات کر سکیں۔
اپنی بجلی خود پیدا کریں۔ سارے ملک کو سستی بجلی دینے میں وقت لگے گا۔ فی الحال، حکومت اپنی ضرورت کے مطابق سستی ترین بجلی والے بجلی گھر لگائے۔ ان کی بجلی نیشنل گرڈ میں دے اور اسی ریٹ پر بجلی تمام سرکاری اداروں اور دفتروں دی جائے۔
سبک دوشی کی عمر بڑھائیں۔ سرکاری ملازموں کی سبک دوشی کی عمر دہائی-1950 میں 55 سے 58 سال کی گئی۔ پھر 60 سال ہوئی۔ اب زیادہ لمبی اوسط عمر اور بہتر صحت کی بنا پر زیادہ عرصہ کام کیا جا سکتا ہے۔ عمر کی حد بڑھانے سے کئی فائدے ہوں گے:
پراویڈنٹ فنڈ، گریجوئٹی اور پینشن کا نصف پیشگی دینے سے خزانہ پر یک لخت بھاری بوجھ پڑتا ہے۔ نئی بھرتی کا بوجھ بھی آ جاتا ہے۔ سبک دوشی کی عمر بڑھانے کی بجائے بہتر ہوگا کہ عمر کی حد ہی ختم کر دی جائے۔ 60 سال کے بعد ہر ملازم کا ہر سال طبی معائنہ ہو۔ اگر وہ جسمانی اور ذہنی طور پر تندرست ہو تو بدستور کام کرتا رہے۔ سبک دوشی کی حد ختم ہونے سے ملازمت میں توسیع کے لیئے بھاگ دوڑ ختم ہو جائے گی۔ ملازم کو بچوں کی تعلیم اور شادی کے لیئے وقت مل جائے گا اور گھر کا خرچ بھی چلتا رہے گا۔
دفاتر اور رہائش گاہیں ایک ساتھ بنائیں۔ دس یا پندرہ سالہ منصوبہ کے تحت دفاتر اور ان میں کام کرنے والے تمام ملازموں کے لیئے رہائش گاہیں ایک ساتھ بنائیں۔ اس سے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ختم ہو جائَے گا۔ بھاری کرایہ پر عمارتیں لینے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔ سائلوں کو بھی دفتروں کی تلاش میں شہر بھر میں بھٹکنا نہیں پڑے گا۔
ساری تجویزوں پر عمل سے انتظامی اخراجات نہ صرف کم ہو جائیں گے بلکہ آئندہ بھی کنٹرول میں رہیں گے۔

No comments:

Post a Comment