Tuesday, October 15, 2013

سود کیسے ختم کیا جا سکتا ہے

سود کے  بارے میں بحث بہت ہو چکی۔ ہم براہ راست حل کی طرف آتے ہیں اور سوال و جواب کی شکل میں بیان کرتے ہیں کہ کیسے تھوڑی سی مدت میں بینکوں سے سود ختم کیا جا سکتا ہے۔
سوال: سود کے خاتمہ کا آغاز کیسے ہوگا؟
جواب: بینک دولت پاکستان (سٹیٹ بینک) اعلان کرے کہ اگلے مالی سال سے تمام بینک چھ فی صد سے زیادہ سود نہ کسی سے لیں گے اور نہ دیں گے۔ اس کے بعد ہر چھ ماہ کے بعد شرح سود ایک فی صد کم کر دی جائے۔ اس طرح بینکوں کو کافی وقت مل جائے گا کہ نئی صورت حال سے مطابقت پیدا کر لیں۔
دو فی صد پر پہنچ کر بینک رک جائیں گے۔ بینک دولت پاکستان کہے کہ یہ شرح سود کی نہیں بلکہ سروس چارج کی ہوگی۔ قرضوں سے اس شرح سے ہونے والی وصولی بینکوں کے اخراجات پورے کرنے کے لیئے ہوگی۔
سوال: بچت کھاتہ اور میعادی ڈپازٹ کا کیا ہوگا؟
جواب: جب سود دو فیصد ہو جائے تو بینکوں کے بچت کھاتے جاری کھاتوں میں تبدیل کر دیئے جائیں۔ اس طرح ان میں جمع رقوم پر کچھ نہیں دیا جائے گا، جیسا کہ جاری کھاتوں کی صورت میں اس وقت ہوتا ہے۔ مختلف میعادوں کے لیئے جمع کرائی گئی رقوم (فکسڈ ڈپازٹ) پر بھی کوئی سود نہیں دیا جائے گا۔
سوال: سود کے خاتمہ کے بعد لوگ بینک کھاتوں میں رقوم جمع کرانا بند نہیں کر دیں گے؟
جواب: جی نہیں۔ بینک کھاتہ میں رقوم جمع کرانے کی وجہ سود نہیں ہوتی۔ سود لینے والے قومی بچت سکیموں میں رقوم جمع کراتے ہیں، جہاں 10 سے 15 فی صد کے درمیان منافع ملتا ہے۔ اس وقت بینکوں کے بچت کھاتوں میں جمع شدہ رقوم قومی بچت سے تقریبا تین گنا ہیں۔ جب شوکت عزیز کے دور میں بچت کھاتوں کی شرح سود ڈیڑھ دو فی صد تک کم ہو گئی، تب بھی لوگوں نے بینکوں سے زیادہ رقوم نہ نکالیں۔
لوگ بینک بچت کھاتوں میں رقوم حفاظت کی خاطر جمع کراتے ہیں۔ گھر میں رکھی ہوئی نقدی ڈاکو لوٹ سکتے ہیں، گھر ہی کا کوئی فرد چرا سکتا ہے یا نوٹ کسی وجہ سے خراب ہو سکتے ہیں۔ بینک میں ایسا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ دوسرے، بینک سے کسی بھِی وقت رقم نکالی جا سکتی ہے۔ اے۔ ٹی۔ ایم۔ مشین نے رقم نکلوانا اور آسان بنا دیا ہے۔
سوال: گاہکوں کو بینک کھاتوں سے کوئی فائدہ بھی ہوگا؟
جواب: اگر آپ باقاعدگی سے اپنے جاری کھاتہ سے رقم نکالتے اور اس میں جمع کراتے رہیں تو بینک ایک فارمولہ کے تحت طے کرتا ہے کہ آپ کو کتنا قرضہ دیا جا سکتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر آپ اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ میعادی ڈپازٹ کی صورت میں بینک سود تو نہیں دے گا لیکن اس کی بنیاد پر آپ کو بغیر کسی مزید ضمانت کے قرضہ دے سکتا ہے۔ یہ قرضہ جمع شدہ رقم کا پہلے سال میں دوتہائی، دوسرے میں تین چوتھائی اور تیسرے سال تک جمع رکھنے پر رقم کے 90 فیصد کے برابر ہو سکتا ہے۔ اگر کسی کے پاس رقم پڑی ہے تو وہ اسے جمع کرا کے ضرورت پڑنے پر قرضہ لے سکتا ہے۔
بینک کھاتہ داروں کو بہت سی سہولتیں مفت دے گا، جیسے چیک بک، رقوم کی آن لائین ترسیل، ادائگی (ڈیبٹ) کارڈ، بینک ڈرافٹ، وغیرہ۔
سوال: قرضہ کس بنیاد پر ملےگا؟
جواب: اس وقت بینک زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لیئے قرضہ دیتے ہیں۔ سود ختم ہونے کے بعد قرضوں کی مانگ بہت بڑھ جائے گی۔ چنانچہ بینک دولت پاکستان بینکوں کو ترجیحات کا پابند کرے گا۔ چند مثالیں: برامدات کی ْآمدنی سے ہم غیرملکی قرضے اتار سکتے ہیں اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ سے روپیہ کی قدر بڑھا سکتے ہیں۔ چنانچہ بینک برامدی آرڈر ملنے (لیٹر آف کریڈٹ کھلنے) سے مال کی ترسیل تک تمام برامد کاروں کو تمام مراحل کے لیئے قرضے دیں گے، چاہے مال خود بناتے ہوں یا بنا ہوا مال دوسروں سے خریدتے ہوں۔ برامد کی رقم ملتے ہی بینک اپنا قرضہ وضع کر کے بقایا رقم برامدکار کے کھاتہ میں جمع کرا دے گا۔ بلاسود قرضہ سے برامدات کی لاگت کم ہو جائے گی،جس سے دوسرے ملکوں سے مقابلہ آسان ہو جائے گا۔ دوسری ترجیح صنعتوں کو خام مال اور جاری اخراجات کے لیئے قرضوں کی ہوگی۔ تیسری ترجیح پیداواری کاموں کے لیئے ہوگی، جیسے کسانوں کو بیج، کھاد، کیڑے مار دوائوں کے لیئے قرضہ، جو فصل کی کٹائی کے بعد ادا کرنا ہوگا۔ تاہم ذخیرہ اندوزوں کو گندم، روئی، چینی، وغیرہ، سستی خرید کر مہنگی بیچنے کے لیئے قرضہ نہیں ملے گا۔
سوال: کیا مکانوں اور عمارتوں کی تعمیر کے لیئے قرضے ملیں گے؟
جواب: تعمیرات کے لیئے قرضہ ملے گا بشرطیکہ انھیں بیچنے کی بجائے کرایہ پر دیا جائے۔ تعمیراتی کمپنی کو مناسب منافع دے کر بینک خود خرید سکے گا اور پھر ایک ذیلی کمپنی کے ذریعہ رہن یا کرایہ پر دے سکتا ہے یا کسی بیمہ کمپنی کو فروخت کر دے گا۔ یہ لاگت پوری ہونے کے بعد کئی دہائیوں تک آمدنی کا ذریعہ ہوگا۔
سوال: حکومت کو بینکوں سے قرضے ملیں گے؟
جواب: ہرگز نہیں۔ حکومت کو قرضے نہیں دیئے جائیں گے، چاہے اس کے لیئے قانون بنایا جائے یا آئین میں ترمیم کرنی پڑے۔ حکومت اور سرکاری اداروں کا بلا سود قرضوں پر دل للچائے گا لیکن ان کی طلب پوری کرنے سے نجی شعبہ کو قرضے بہت کم ہو جائیں گے، جس سے معیشت کو بھاری نقصان ہوگا۔ حکومت کو قرضے دینے سے افراط زر میں یقینی اضافہ ہوتا ہے۔
سوال: بینکوں کے حصہ داروں کا کیا بنے گا؟
جواب: جب بینکوں نے حصص جاری کیئے تو ان کی قیمت بہت کم تھی۔ اگر بازار حصص میں قیمت بڑھ گئی تو اس میں ان کا کوئی کمال نہ تھا۔ وہ اب تک وصول کِیئے گئے منافع کو غنیمت سمجھیں۔
سوال: غیرملکی بینکوں کا کیا ہوگا؟
جواب: غیرملکی بینک صرف منافع کمانے کے لیئے یہاں ہیں۔ کئی بینک جا چکے ہیں کیوں کہ انھیں توقع کے مطابق منافع نہ ہوا۔ جو رہ گئے ہیں، وہ بھی چلے جائیں گے تو ہمارے بینک ان کا چھوڑا ہوا کاروبار سنبھال لیں گے۔
سوال: ہمارے بینکوں کی دوسرے ملکوں میں شاخیں بھی بلا سود بینکاری کریں گی؟
جواب: دوسرے ملکوں میں بلاسود بینکاری کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہوگی۔ اگر اخراجات نکال کر کچھ بچا پائیں تو صدر دفتر بھیج دیا کریں گے۔ اگر خرچ اور آمدنی برابر رہیں تو بھی حرج نہیں کیونکہ وہ برامدات کو فروغ دے رہی ہوں گی۔
ہمارے بینکوں کی دوسرے ملکوں میں بلاسود بینکاری متعارف کرانا بہت بڑی خدمت ہوگی۔ مسلم ہی نہیں، غیر مسلم ملکوں میں بھی بلا سود بینکاری کی ترغیب ملے گی۔ عوام سود کی لعنت ختم کرانے کے لیئے اپنی حکوتوں پر زور دیں گے۔ البتہ ان کی کامیابی کا امکان زیادہ نہیں ہوگا کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام تو  چلتا ہی سود پر ہے۔ سود کھانے والے آسانی سے یہ کمائی نہیں چھوڑیں گے۔ تاہم ہو سکتا ہے جب عوام کی اکثریت قائل ہو جائے اور ان کے منتخب نمائندے ان کے مطالبہ کے سامنے سر جھکا دیں تو وہاں بھی سود ختم نہیں تو نہائت کم ہو جائے گا۔
سوال: اگر بینک کے حصہ داروں نے عدالت سے رجوع کر کے موقف اختیار کیا کہ انھیں منافع کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے تو کیا ہوگا؟
جواب: حصہ دار اپنے حق میں کوئی ٹھوس دلیل نہیں دے پائیں گے۔ بینک منافع کما کر ہی انھیں دے سکتا ہے۔ جب خود بینک کو منافع کی بجائے اخراجات پورے کرنے کے لیئے صرف سروس چارج ملے گا تو وہ حصہ داروں کو کیا دے سکے گا؟ بینک اپنی طرف سے بھی شرح سود نہیں بڑھا سکتا کیونکہ بینک دولت پاکستان بنیادی شرح سود طے کرتا ہے، جس کی بنا پر بینک اپنی شرح طے کرتے ہیں۔ بینک کو صرف اتنا اختیار ہوتا ہے کہ کسے قرض دیں اور کسے نہ دیں۔
پبلک لمیٹڈ کمپنی کے حصہ دار منافع بطور حق نہیں مانگ سکتے۔ کمپنی پر منحصر ہے کہ وہ منافع میں سے انھیں کچھ دے۔ کراچی بازار حصص میں جن کمپنیوں کے حصص کی خرید و فروخت کی جاتی ہے، ان میں سے بیشتر حصہ داروں کو کوئی منافع نہیں ملتا۔ سارے بینک پبلک لمیٹڈ کمپنیاں ہیں۔ چنانچہ ان پر کوئی پابندی نہیں کہ وہ حصہ داروں کو باقاعدگی سے منافع دیں۔
سوال: اس وقت حصہ دار سالانہ جنرل باڈی میٹنگ میں بینکوں کی انتظامیہ، یعنی ڈائریکٹروں کے بورڈ، کا انتخاب کرتے ہیں۔ جب انھیں معلوم ہوگا کہ انھیں آئندہ بینک سے منافع نہیں ملے گا تو وہ جنرل باڈی میٹنگ میں شریک ہی نہیں ہوا کریں گے۔ پھر انتظامیہ کو کون کنٹرول کرے گا؟
جواب: سالانہ جنرل باڈی میٹنگ تکلف ہی ہوتا ہے۔ ہزاروں بلکہ بعض اوقات لاکھوں حصہ داروں میں سے چند سو ہی شریک ہوتے ہیں۔ انتخاب بھی رسمی کاروائی ہوتی ہے۔ جو نام انتظامیہ تجویز کرتی ہے وہی منظور ہو جاتے ہیں۔
نئے نظام میں حصہ داروں کی بجائے بینک کے گاہکوں کا دخل ہوگا اور صحیح معنوں میں ہوگا۔ بینک کی ہر برانچ کے تمام کھاتہ داروں کو ہر ششماہی ایک سوال نامہ بھیجا جائے گا، جس میں ان سے بینک کی خدمات کے بارے میں پوچھا جائے گا، جیسے عملہ کا گاہکوں سے رویہ، چیک کیش کرانے میں لگنے والا وقت، بینک کا ماحول، استفسار کا جواب، وغیرہ۔
سوال نامہ کے آخر میں کھاتہ داروں سے پوچھا جائے گا کہ کیا وہ موجودہ بینک مینجر کے کام سے مطمئن ہیں؟ اگر دو تہائی گاہکوں نے ہاں میں جواب دیا تو تو مینیجر کام کرتا رہے گا۔ ورنہ اسے کھڈے لائیں (یعنی کسی کم اہم کام پر) لگا دیا جائے گا ۔ جب مینیجر کی ملازمت کے جاری رہنے کا انحصار گاہکوں کے اطمینان پر ہی ہوگا تو وہ ہمہ وقت ان کی خدمت کرے گا۔ نہ صرف یہ بلکہ عملہ کو بھی ایڑیوں کے بل کھڑا رکھے گا۔ سوال نامہ میں کھاتہ داروں نے جو شکایات درج کی ہونگی، مینجر ان کا فورا ازالہ کرے گا۔
سوال نامہ تمام گاہکوں کو ڈاک سے براہ راست بھیجا جائے گا۔ جواب بھی براہ راست ایک آزاد اور خود مختار فرم کو وصول ہوں گے، جو ان کا تجزیہ کرے گی اور بینک کے سربراہ کو رپورٹ دے گی۔ اس طرح، کسی برانچ مینجر کو معلوم نہیں ہوگا کہ کھاتہ دار اس کی برانچ کی کارکردگی اور خود اس کے بارے میں کیا رائے دے رہے ہیں۔
سوال: اعلا انتظامیہ کا انتخاب کیسے ہوگا؟
جواب: بینک کی اپنی اعلا انتظامیہ برانچ مینیجروں کی تائید کی محتاج ہوگی۔ چونکہ برانچ مینیجر ہی ریجن اور صدر دفتر سے رابطہ میں ہوتا ہے، اس لیئے وہی رائے دے سکتا ہے کہ اس کے باس کیسے کام کر رہے ہیں۔ نائب صدر، سینیئر نائب صدر، وغیرہ، اپنی کارکردگی کی بنا پر ملازمت میں رہیں گے۔ آخر میں بینک کا صدر ملک بھر میں بینک کے سارے عملہ سے اعتماد کا ووٹ لے گا۔ جب تک اعتماد کا ووٹ دو تہائی اکثریت سے ملتا رہے گا، وہ کام کرتا رہے گا۔
سوال: چھوٹے بینکوں کا کیا مستقبل ہوگا؟
جواب: سرمایہ داروں نے چھوٹے بینک اپنے فائدہ کے لیئے بنائے ہیں۔ جب انھیں کوئی فائدہ نظر نہیں آئے گا تو وہ انھیں بڑے بینکوں کے ہاتھ بیچ دیں گے۔ اگر بیچ نہ سکے تو بند کر دیں گے۔ اب تک انھوں نے بہت فائدہ اٹھا لیا ہوگا۔
سوال: عملہ کی کارکردگی کیسے بہتر ہو سکتی ہے؟
جواب: تمام بینک مشترکہ طور پر سلیکشن بورڈ بنائیں۔ سب اپنی اپنی خالی اسامیوں کی تعداد اسے بتائیں۔ بورڈ عملہ کا انتخاب صرف میرٹ پر کرے۔ منتخب عملہ کو ایک ہی اکیڈمی میں تربیت دی جائے تاکہ سب کا معیار ایک جیسا ہو۔ تربیت کے دوران ہی ہر بینک کے نمائندے اپنے لیئے عملہ چنیں تاکہ وہ تربیت ختم ہوتے ہی کام کرنے لگے۔
تجویز کردہ طریقہ سے بینکوں سے سود ختم کرنا بہت آسان ہوگا۔ نہ کسی آئینی ترمیم کی ضرورت ہوگی، نہ پارلیمنٹ کی منظوری کی۔ البتہ جن کے مفاد کو نقصان ہوگا، وہ چار دن واویلا کرتے رہیں گے۔ اتنا تو برداشت کرنا ہوگا۔ 

No comments:

Post a Comment