Monday, October 14, 2013

پولیس کی تنظیم نو کیسے ہو

ایک افسر کسی دیہی تھانہ کے معائنہ کے لیئے گیا۔ معائنہ کے دوران اس  نے پوچھا، "یہاں کتنے افراد کے سونے کی گنجائش ہے؟ جواب ملا، "چارپائی سے چارپائی ملا کر بچھائیں تو 23 کی جگہ بنتی ہے۔" "تھانہ میں کل کتنے ملازمین ہیں؟" "70۔" باقی لوگ کہاں سوتے ہیں؟" "گائوں میں کرایہ پر دینے کے لیئے مکان تو ہوتے نہیں۔ یہاں کے چودھری رہنے کو جگہ دے دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کی ہر جائز ناجائز بات ماننی پڑتی ہے۔"
یہیں سے خرابی شروع ہوتی ہے۔ پنجاب میں آدھے سے زیادہ تھانوں کی یا تو عمارت ہی نہیں، یا ناکافی اور بوسیدہ ہے۔ چند دہائیاں پہلے تھانوں کی تعداد بڑھائی گئی تو ان کی عمارتوں کے لیئے بجٹ نہ رکھا گیا کہ "بعد میں بنتی رہیں گی۔" وہ آج تک نہیں بنیں۔ چنانچہ تھانے مکانوں، فلیٹوں، دکانوں، یہاں تک کہ خیموں میں بنائے گئے۔
ہر تھانہ کی عمارت میں تمام ضرورتیں پوری ہونی چاہیئیِں۔ جہاں عمارت نہیں، ناکافی ہے یا بوسیدہ ہو چکی ہے، وہاں جلد از جلد نئی بنائی جائے۔ اس میں تمام عملہ کے لیئے عمدہ رہائش ہو۔ تھانیدار اور سینیئر عملہ کے لیئے فیمیلی فلیٹ ہوں۔ تھانہ ہی میں عدالت کے لیئے جگہ ہو، تاکہ مقدمات کی کاروائی بروقت اور آسانی سے ہو سکے۔
نئی عمارتوں کی تعمیر کے ساتھ پولیس کی تنظیم نو بھی ہونی چاہیئے۔ انگریزوں نے دو متضآد فرائض پولیس کو سونپ دیئے، جو موجودہ حالات میں ادا کرنا نہائت مشکل ہے۔ وہ ایک طرف جرائم کی تفتیش اور مقدمات کی پیروی کرتی ہے اور دوسری طرف گشت، پہرہ اور اعلا حکام کی حفاظت کرتی ہے۔ پولیس آرڈر 2001 میں دونوں فرائض الگ کیئے گئے لیکن بات نہیں بنی۔ ہونا یہ چاہیئے کہ پولیس کو صرف جرائم کی تفتیش تک محدود کر دیا جائے۔ دوسرے کاموں کے لیئے "امانیہ" کے نام سے ایک الگ تنظیم بنائی جائے۔ (اس تجویز کی تفصیل اگلے کالم میں دی جائے گی۔)
پولیس میں کام کرنے والوں کی نگرانی پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ کانسٹیبل، ہیڈ کانسٹیبل، اسسٹنٹ سب انسپیکٹر، سب انسپیکٹر، انسپیکٹر، اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے بعد کہیں جا کر بنیادی سکیل 17 کا اے۔ ایس۔ پی۔ آتا ہے۔ اتنے لیول یہ سوچ کر بھی رکھے گئے کہ ترقی کے مواقع ملتے رہیں۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ بہت سی اسامیاں صرف ترقی دینے کی لیئے پیدا کرنی پڑتی ہیں، چاہے ان کی ضرورت نہ ہو۔
اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ اسامیاں کم کر دی جائیں لیکن ترقی کے بغیر بھی تنخواہ میں خود بخود اضافہ ہوتا رہے۔ اس طرح عہدہ میں ترقی نہ سہی، مالی طور پر بہتری ہوتی رہے گی۔ ساتھ ساتھ سہولتیں بھی زیادہ ہوتی جائیں گی۔ ایک بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ تفتیش کرتے کرتے اتنا تجربہ ہو جائے گا کہ مشکل سے مشکل کیس بھی آسانی سے حل کیا جا سکے گا۔ فیلڈ کا تجربہ رکھنے والے کو انتظامی ذمہ داری یا نگرانی پر لگانا اس کی صلاحیت کو زنگ لگانا ہے۔ مثلا، اچھے استاد کو پڑھانے سے اور اچھے سرجن کو سرجری سے علیحدہ کرنے سے نقصان ہی ہوتا ہے، فائدہ نہیں۔
تنظیم نو کے بعد تھانہ میں ضرورت کے مطابق صرف "تفتیشی افسر" ہونے چاہیئیں۔ ہر ایک کا حکومت کے مقرر کردہ بنیادی سکیل کی بجائے اپنا سکیل ہو۔ ہر افسر کے ساتھ چند مددگار ہوں۔ تھانہ دار انتظامی امور نپٹانے کے ساتھ تفتیشی افسروں میں کام تقسیم کرے اور ان کی نگرانی کرے۔
ایک یا، جہاں کام کم ہو، ایک سے زیادہ تھانوں کا سربراہ ایک اے۔ ایس۔ پی، ہو۔ براہ راست بھرتی اور جوان ہونے کی بنا پر اس میں مشکلات سے نپٹنے کا حوصلہ اور دیانت داری سے کام کرنے کا عزم ہوگا۔ اس کا بھی ذاتی سکیل ہو۔ اے۔ ایس۔ پی۔ سے اوپر ضلع پولیس افسر ہو، جو رابطہ اور نگرانی کا کام کرے۔
عمارتوں اور تنظیم نو کے ساتھ تھانہ کی ضرورتیں بھِی پوری کرنی ہونگی۔ ہر تھانہ کے سربراہ کو ہر پانچ سال بعد نئی جیپ، ہر تفتیشی افسر کو موٹر سائیکل اور اس کے ہر مددگار کو سائیکل دی جائے۔ مقررہ مدت کے بعد یہ گاڑیاں تھانہ کے پول میں چلی جائیں تاکہ کسی سواری کے خراب ہونے یا کسی اور ہنگامی ضرورت کے لیئے استعمال کیا جا سکے۔
پولیس کا اپنا مواصلاتی نظام ہونا چاہیئے تاکہ ایک تفتیشی افسر ضرورت پڑنے پر ملک بھر میں کسی بھی تفتیشی افسر سے بات کر سکے۔ مثلا، بہاولنگر میں پکڑا جانے والا کوئی ملزم بتائے کہ اس کا اایک ساتھی ٹھٹھہ میں ہے تو تفتیشی افسر فورا وہاں اس کی گرفتاری کے لیئے کہہ سکے۔
تھانہ کلچر کی خرابی سیاسی مداخلت کی بنا پر پیدا ہوتی ہے۔ ارکان اسمبلی وزیر اعلا سے کہہ کر پولیس افسروں کے تبادلے اور تقرر کراتے ہیں۔ صوبائی پولیس افسر (آئی۔ جی۔) بھی سیاسی دبائو سے ْآزاد نہیں۔ اس مسئلہ کا ایک ہی حل ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے پہلے دور میں چلے جائیں، جب مرکزی حکومت کے افسروں کے تقرر، ترقی، تبادلہ، معطلی، سزا، وغیرہ کے معاملات میں فیصلے صدر کیا کرتا تھا۔ وزیر اعظم بھٹو نے یہ اختیار خود لے کر افسروں کے کام میں سیاست کاروں کی مداخلت کا راستہ کھول دیا۔ اب پولیس افسر اپنے تحفظ اور مفاد کی خاطر سیاست کاروں کا آلہ کار بننے پر مجبور ہیں۔ یہیں سے رشوت، بدعنوانی، اور بے انصافی کا آغاز ہوتا ہے۔
جب  تک پولیس صوبائی محکمہ رہے گا، اس کے کام میں سیاست کاروں کی مداخلت ہوتی رہے گی اور تھانہ کلچر کبھی بہتر نہیں ہو سکتا۔ پولیس مرکزی حکومت کے تحت ہونی چاہیئے۔ اس طرح ملک بھر میں یکساں سوچ اور طریق کار کے تحت کام ہوگا۔ اس کا سربراہ "مرکزی پولیس افسر" ہو، مقررہ مدت سے پہلے ہٹایا نہ جا سکے تاکہ آزادی کے ساتھ کام کرے اور کسی قسم کی سیاسی مداخلت نہ ہونے دے۔ تبادلہ یا کسی عہدہ پر تقرر صرف میرٹ پر ہو۔ انتظامی معاملات میں وزیر داخلہ یا وزیر اعظم بھی مداخلت نہ کر سکے۔ اس طرح ہر سطح پر یکسوئی اور دیانت داری سے کام ہو سکے گا اور پولیس کلچر صحیح معنوں میں بدل جائے گا۔
پولیس سے امن و امان کی ذمہ داری لے کر اسے صرف جرائم کی تفتیش تک محدود کر دیا جائے (جیسا کہ پچھلے کالم میں تجویز کیا گیا)۔ گشت، پہرہ، پروٹوکول ڈیوٹی اور دوسرے کاموں کے لیئے "امانیہ" (امان دینے والی) کے نام سے ایک نئی ملک گیر تنظیم بنائی جائے، جو مرکزی حکومت کے تحت کام کرے۔
امانیہ "واچ اور وارڈ" کے وسیع تر مفہوم میں فرائض ادا کرے، بشمول اہم مقامات اور عمارتوں کی حفاظت، اہم شخصیات کی رہائش گاہوں پر پہرہ اور ان کے ساتھ حفاظتی حصار بنا کر چلنا، جلسوں، جلوسوں، مظاہروں، وغیرہ، میں توڑ پھوڑ یا بد امنی روکنا۔ یہی تنظیم ریلوے، ہوائی اڈوں، بندرگاہوں اور اہم سڑکوں کی بھی حفاظت کرے۔
امانیہ میں باہر سے کوئی عارضی یا مستقل طور پر نہ آئے اور نہ کوئی باہر جائے۔ اس طرح ابتدائی تربیت کے بعد کسی کو کچھ سکھانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ کام میں تسلسل بھی رہے گا۔ ریفریشر کورسوں سے نئے طریقے سکھائے جائیں۔ اگر ضرورت ہو تو باہر سے ماہر بلائے جائیں گے، جو جدید تقاضوں کے مطابق تربیت دیں۔ تربیت کے لیئے باہر بھیجنے کی نسبت باہر سے ماہرین کو بلانے پر بہت کم خرچ ہوگا کیوںکہ اس طرح ایک فرد بہت سے ملازموں کو تربیت دے گا۔
امانیہ کی بھرتی دو سطحوں پر ہو۔ ابتدائی سطح پر نوجوان بھرتی ہوں۔ ان میں ایسی صلاحیتیں ہوں، جو فیلڈ میں ڈیوٹی دینے کے لیئے ضروری ہوتی ہیں۔ ان کے ساتھ فوج سے سبکدوش ہونے والے جوان بھرتی کیئے جائیں۔ فوج کے جوان 30 سے 40 سال کی عمر کے درمیان سبک دوش ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد انھیں عام طور سیکیورٹی ایجنسیوں میں ملازمت ملتی ہے، جس میں ڈیوٹی بڑی سخت اور تنخاہ بہت کم ہوتی ہے۔ دوسرے اداروں میں بھی بہت معمولی قسم کی ملازمت ملتی ہے۔ یہ جوان ملک کے دفاع کے لیئے جان فشانی سے کام کرتے ہیں، جس میں جان تک کی قربانی دی جاتی ہے۔ اگر انھیں امانیہ میں شامل کر لیا جائے تو وہ 60 سال تک ملک کی خدمت کر سکتے ہیں۔ انھیں فوج سے سبک دوشی کے بعد خوار نہیں ہونا پڑے گا۔ انھیں ڈسپلن میں رہ کر کام کرنے کی عادت ہوتی ہے، جس کی بنا پر ان کی کارکردگی بہت اچھی ہوگی۔ مزید تربیت سے وہ بہت بہتر کام کریں گے۔ فوج کے سبکدوش جوانوں کو بھرتی کرنے سے امانیہ فوجی تنظیم نہیں بن جائے گی کیونکہ اس کی انتظامیہ پوری طرح سویلین ہوگی۔
امانیہ کا صدر دفتر اسلام آباد میں ہو۔ اس سے نیچے تمام امور ضلع کی سطح پر نپٹائے جائیں گے۔ وہیں سے ضلع انتظامیہ کی ضرورت کے مطابق ڈیوٹی لگائی جائے۔ (صوبہ کی سطح پر تنظیم کی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ سارا کام ضلع کی سطح پر ہوگا۔) تمام جوان مسلح ہوں اور اسلحہ کا استعمال اچھی طرح جانتے ہوں تاکہ توڑپھوڑ کرنے والوں کو طاقت سے روک سکیں۔ ان دنوں پولیس کے پاس ناکافی اور ناکارہ اسلحہ اور آلات ہیں اور ان کے استعمال کی تربیت بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ امانیہ کے جوانوں کے پاس دوسرے آلات بھی ہوںگے۔ ٹرانسپورٹ بھی ہوگی تاکہ جہاں گڑبڑ ہو وہاں فوری طور پر پہنچ جائِیں۔
امانیہ کا کوئی افسر باہر سے نہیں آئے گا، چاہے فوج سے یا پولیس سے، چاہے حاضر سروس ہو یا سبک دوش۔ اس طرح بیرونی مداخلت نہیں ہوگی اور نہ گروپ بندی اور اندرونی چپقلش کا امکان رہے گا۔ امانیہ کے افسر پبلک سروس کمشن کے ذریعہ بھرتی ہوں گے۔ اس کے بعد ان کی ترقی صرف کارکردگی کی بنا پر ہوگی۔ صرف ترقی کے لیئے اسامیاں پیدا نہیں کی جائیں گی۔ اس طرح نہ غیرضروری سکیل ہوں گے اور نہ اسامیاں۔ ہر ایک کا ذاتی سکیل ہو، جس کے تحت تنخاہ میں اضافہ ہر سال خود بخود ہوتا رہے اور 55 سال کی عمر تک جاری رہے۔ اس کے بعد سبک دوشی تک اضافہ نہ ہو۔ ماتحت عملہ کے لیئے بھی یہی صورت ہوگی۔ سبک دوشی کی عمر مقرر نہیں ہوگی۔ ذہنی اور جسمانی طور پر تندرست اہل کار کام کرتا رہے گا۔ ماتحت بھی صرف میرٹ پر بھرتی ہوں۔ سفارش کرنے والا سیاسی یا کسی اور قسم کا دبائو نہ ڈال سکے گا۔ اس لیئے جو تندہی سے کام نہ کرے، فارغ کر دیا جائے۔
امانیہ اپنے طور پر کاروائی نہ کیا کرے۔ اگر کسی دفتر یا عمارت یا کسی رہائش گاہ پر حفاظت یا پہرہ کی ضرورت ہوگی تو اس کا سربراہ تحریری طور پر ضروری عملہ طلب کرے۔ پہرہ کے لیئے عملہ کی تعداد مرکزی حکومت کی طے کردہ پالیسی کے مطابق مقرر کی جائے۔ یہ نہ ہو کہ کسی کی حفاظت کے لیئے 10 افراد ہوں اور کسی کے لیئے 20۔
ضلع انتظامیہ نے کسی جلسہ، جلوس یا مظاہرہ کی اجازت دی ہو یا نہ، وہ امانیہ کے ضلع افسر کو تحریری طور پر حفاظت کے لیئے کہے۔ کسی ذاتی معاملہ کے لیئے نہ کہا جائے، جیسے کسی فرد کے زمین یا مکان کا قبضہ لینا (سوائے اس کے کہ عدالت کا حکم ہو)، مخالفوں کو ڈرانا دھمکانا یا کوئی اور ذاتی مسئلہ۔
امانیہ کی کاروائی جلوس یا مظاہرہ میں توڑ پھوڑ یا نقص امن روکنے تک محدود ہوگی۔ جن کے خلاف اسے کاروائی کا اختیار ہوگا، انھیں گرفتار کر کے بھاری جرمانہ وصول کیا جائے گا اور آئندہ کے لیئے تحریری معافی نامہ بھی لیا جائے گا تاکہ اگر پھر وہی حرکت کرے تو زیادہ سخت سزا دی جا سکے۔ تعزیرات پاکستان کے تحت کوئی جرم سرزد ہو تو ملزموں کو گرفتار کر کے پولیس کے حوالہ کر دیا جائے۔ گرفتار کرنے والا اپنا مفصل بیان رکارڈ کرائے اور عدالت میں گواہی بھی دے۔
امنیہ کا سربراہ اندرونی ترقی سے ہی بنے۔ اس کا عہدہ آئینی ہو۔ اسے ہٹانے کے لیئے سپریم جوڈیشنل کونسل کو ریفرینس بھیجا جائے، جیسے نیب کے سربراہ کے لیے ضروری ہے۔ اس طرح سربراہ کے کام میں حکمرانوں اور سیاست کاروں کے لیئے مداخلت کرنا یا دبائو ڈالنا آسان نہیں رہے گا۔
امانیہ کے قیام سے پولیس صرف جرائم کی تفتیش اور ان کے مقدمات کے استغاثہ تک محدود ہونے سے جرائم پر کنٹرول کہیں زیادہ موثر ہوگا۔

No comments:

Post a Comment